استحکام پاکستان کانفرنس

انجمن فلاح وبہبود صوفیہ نوربخشیہ گلگت کے زیر اہتمام استحکام پاکستان کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، سیاسی شخصیات اور عمائدین نے شرکت کی،مقررین نے پاکستان کو درپیش اندرونی و بیرونی مسائل پر گفتگو کی اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ مملکت خداداد پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، گلگت بلتستان کے علماء ، دانشور، سماجی شخصیات، سیاسی اکابرین اور عوام افواج پاکستان کے ساتھ تھے، ہیں اور رہیں گے،بھارت اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ ہمارے موجودہ سیاسی غیر یقینی حالات سے تم کوئی ناجائز فائدہ اٹھا سکو گے،  یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، بے شک آپس میں ہمارے نظریات الگ ہوں، ہمارا سوچ الگ ہو لیکن جب بات پاکستان اور افواج پاکستان کی آتی ہے ،جب بات پاکستان کی سلامتی اور اس کے نظریاتی اور جغرافیائی حدود کی حفاظت کی آتی ہے تو اس وقت ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں، اس وقت ہم اپنے دشمنوں کے لئے قہر ہیں، ہم کسی طالع آزما کے ساتھ نہیں ہم پاکستان کے ساتھ ہیں، ہمارا جینا اور ہمارا مرنا پاکستان ہے، پاکستان ہماری آخری لکیر ہے، ہم کبھی بھی اس پہ آنچ آنے نہیں دینگے۔اس کانفرنس سے نہ صرف استحکام پاکستان کا پیغام دنیا کو پہنچایا بلکہ ساتھ ساتھ بین المسالک ہم آہنگی، اسلامی بھائی چارے، اخوت اور امن وامان کا پیغام بھی دیا ۔بلاشبہ کسی ملک کا استحکام اس ملک میں بسنے والی قوم کے اساسی نظریات فکری رحجانات قوت عمل اور جذبہ یقین جو ایمان پر منحصر ہوتا ہے اور اسکے ساتھ اس ملک کے مادی ذرائع اور وسائل پر بھی موقوف ہوتا ہے مگر اخلاقی قوت کو مادی قوت پر ایک تاریخی فوقیت حاصل ہے اگر کسی قوم کے افراد میں قوت ارادی مفقود ہے اور سیرت و کردار کی پختگی کا فقدان ہے اور ان کے سینے نور ایمان و یقین سے منور نہیں تو ایٹم بموں جیسے ہلاکت آفرین مادی وسائل بھی دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اسکے برعکس اگر ان کے قلوب میں اخلاقی قوت و جرات کا خزانہ موجود ہے تو پھر انکے تنکوں میں طوفانوں کو پناہ مل سکتی ہے اور ان کے ذرات فولادی چٹانوںکا منہ پھیر سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں قابل ذکر امر یہ ہے کہ ہر نظریہ حیات اپنے لئے مخلص اور جانثار کارکن طلب کرتا ہے، یوں سمجھیے کہ اشتراکیت اگر کارل مارکس 'لینن یا سٹالن کی طالب ہے۔ لادینی جمہوریت اگرآئزن ہاور اور چرچل کی محتا ج ہے اور نازیت اگر ہٹلر اور فسطائیت، اگر کسی مسولینی ایسے فرعون مزاج ڈکٹیٹر کی مرہون منت ہے تو اس سے کہیں بڑھ کر دین اسلام ہے جو حکمرانی کے طریقے سکھاتا ہے ۔انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نخل اسلامی کی آبیاری آئمہ کفر و ضلالت نے کی ہو یہ کام جب بھی ہوا غازیان بدروحنین اور شہیدان کربلا کے ہاتھوں ہوا۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ ضابطہ حیات انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہے۔ اگست 1944 میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے مہاتما گاندھی کے نام جو تاریخی خط لکھا تھا وہ یوں تھا کہ قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی و مجلسی دیوانی و فوجداری  عسکری تقریری اور معاشی و معاشرتی غرضیکہ زندگی کے سب شعبوں کے احکامت موجود ہیں ۔ مذہبی رسومات سے لیکر روزمرہ کے امور حیات تک روح کی نجات سے لیکر جسم کی صحت تک جماعت کے حقوق سے لیکر فرد کے حقوق و فرائض تک دنیوی زندگی میں جزا و سزا تک ہر فعل و قول اور حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے ۔خالی دعوئوں کی بنیاد پر کوئی نظام تمدن استوار نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان پر سیاستدانوں کا عملی طور پر قبضہ ہے اور عوام کا نام لیکر اپنے مسائل حل کرنے کیلئے رواں دواں ہیں جس طرح سیاستدانوں کی عدم دلچسپی کے باوجود پاکستان ایک ایٹمی قوت بن گیا ہے۔ انشا اللہ وہ دن دور نہیں ہیں جب پاکستان کو نااہل  خود غرض کرپٹ اور ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں بننے والے کھلونوں سے نجات مل جائیگی اور پاکستان میں عوام کی حکمرانی ہو گی اور ملک و ملت خوشحال ہوں گے اور افواج پاکستان کی طرح ہمارے ملک کے تمام ادارے جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر کام کریں گے اور وہ استحکام پاکستان کے خواب کے پورا ہونے کا دن ہو گا ۔عوام کو چاہیے کہ یقین محکم' عمل پیہم 'محبت فاتح عالم کے مشکبار جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے فرائض دیانتداری سے سرانجام دیں کیونکہ پاکستان ہمارا اپنا پیارا گھر ہے ہماری شب و روز کی اپنے فرائض کی دیانتداری سے سرانجام دینے کی کاوشیں ضرور رنگ لائیں گی کیونکہ پاکستان مملکت خدادا ہے جس نے مستقبل میں دنیا بھر میں اپنا اہم کردار ادا کرنا ہے۔ پاکستان کے بقا و استحکام کیلئے اسلامی نظریے کی اولین ضرورت و اہمیت یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اگر ایک مسلمان قوم کا نظریہ اسلامی نہ ہو تو اور کیا ہو سکتا ہے۔ مسلمان ہونے کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ: ہمارے خیالات اسلامی ہوں، ہمارے سوچنے کا انداز اسلامی ہو، معاملات پر ہم اسلامی نقطہ نظر ہی سے نگاہ ڈالیں اور اپنی تہذیب، تمدن، سیاست، معیشت اور فی الجملہ اپنے پورے نظامِ زندگی کو اسلام کے طریقے پر چلائیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو آخر کس بنا پر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے حق دار ہو سکتے ہیں؟ مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرنا اور پھر اپنی زندگی کے مختلف گوشوں میں کسی غیر اسلامی نظریے پر کام بھی کرنا، لازما یہ معنی رکھتا ہے کہ یا تو ہم منافق ہیں اور دل سے مسلمان نہیں ہیں، یا پھر ہم جاہل ہیں اور اتنا شعور بھی نہیں رکھتے کہ مسلمان ہونے کے کم سے کم منطقی تقاضے کیا ہیں؟ پاکستان مختلف عناصر سے مرکب ہے اور جن عناصر سے یہ مرکب ہے ان کے درمیان آج تک اپنی جداگانہ خصوصیات نمایاں طور پر موجود ہیں۔ ان کے اندر حقیقت میں کوئی امتزاج ایسا نہیںہو سکا ، جو ان عناصر کو بالکل یک جان اور یک رنگ کر چکا ہو: ان کی زبانیں مختلف ہیں، لباس، عادات، طرز معاشرت مختلف ہے، نسلیں مختلف ہیں۔ ایک بڑی حد تک ان کے مفاد بھی نہ صرف مختلف بلکہ متصادم ہیں۔ لیکن یہ سب پاکستانی ہیں اور پاکستان سے محبت کرتے ہیں ۔پاکستان کو ایک وحدت بنا کر رکھنے والی قوت سوائے اسلام کے کوئی نہیں ہے۔ محض سیاسی نظام کی وحدت کوئی چیز نہیں۔ کیا اسی طرح کی وحدت آسٹریا اور ہنگری میں نہ تھی؟ کیا اسی طرح کی وحدت عثمانی سلطنت میں نہ تھی؟ اسی طرح کی وحدت برٹش ایمپائرمیں نہ تھی؟ اس وحدت کے بل پر مختلف الجنس عناصر کو ایک بنیان مرصوص نہیں بنایا جا سکتا۔ملک کے سیاسی استحکام کے لیے کوئی ترکیب کارگر نہیں ہو رہی۔ اور یہ کہ ملک کا نظام صحیح رخ پر نہیں جا رہا۔ ہمارے آج کے دستوری مسائل، قانونی مسائل، سسٹم کے مسائل، ہماری معاشرت، ہماری تہذیب اور ہماری نفسیات کے مختلف لیول ہیں ۔یہ بڑی سیدھی سی بات ہے۔ قانون اور اس کا اطلاق یکساں کر دیجئے، بیشتر مسائل حل ہو جائیں گے۔ صرف کاغذوں میں نہیں بلکہ عمل میں، نفسیات میں، سوچ اور ذہنیت میں۔ قانون کا ہمارے صدر پر بھی اطلاق ہو اور لاہور کی ایک کچی آبادی کے کسی فرد پر بھی اطلاق ہو۔ جب تک سوسائٹی میں  قانون کا یکساں اطلاق نہیں ہوگا، امن کے خواب دیکھ کر خود کو دھوکہ اور فریب دینا ہے انصاف، استحکام اور امن کے راستے پر نہ چلنا بلکہ صرف نعرے لگاتے رہنا، یہ خود فریبی ہوتی ہے اور قوموں کی زندگی میں خودکشی ہوتی ہے۔استحکامِ پاکستان درحقیقت ایک عظیم مقصد ہے جو ہر محبِ وطن پاکستانی کی نہیں بلکہ امتِ اسلامیہ کے ہر فرد کی، پاکستانی ہو یا غیر پاکستانی، تمنا و آرزو ہے۔ استحکامِ پاکستان کی درست تشریح اور اس کے حصول کا ذریعہ کیا ہے؟ استحکام سے مراد تو داخلی امن، اخوت و محبت، وحدتِ قومیت کا ایسا تصور جو علاقائی اور لسانی تعصبات سے پاک ہو اور خارجی طور پر وطن کی سرحدوں کا محفوظ و مامون ہونا ہے اور اس مقصد کے حصول کا راستہ بالکل واضح اور مختصر ہے اور وہ اس نظریہ کا عملی نفاذ ہے جس کے لیے پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔استحکامِ پاکستان کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ داخلی امن اور اقتصادی خوشحالی کی ضمانت اور کفالت صرف اور صرف نظریہ پاکستان کے عملی نفاذ میں پنہاں ہے۔ اب خارجی طور پر ملک کے سرحدوں کی حفاظت اور اطراف کے اعدا سے ملک کو مامون و محفوظ کرنے کا مسئلہ ہے جو استحکامِ وطن کا لازمی جز ہے۔