سودی نظام معیشت کے خاتمے کا عزم



وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت ملک سے سودی نظام کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے، اگر ہم خلوص نیت سے صرف اللہ کی رضا کے لیے فیصلہ کریں تو پانچ سال میں ملک سے سود کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔کراچی میں سود کی حرمت کے حوالے سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف جب دوسرکاری بینکوں نے درخواستیں دائر کیں تو مجھے بہت تشویش ہوئی اور میں نے عزم کیا کہ جب بھی پاکستان گیا اور موقع ملا تو میرا پہلا کام یہ درخواستیں واپس کرنا ہوگا۔اسحق ڈار نے کہا کہ ملک کا مالیاتی نظام معاشی ترقی میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کے ذریعے ہی ملک کی کاروباری برادری کی ضروریات پوری کرنے کا عمل انجام پاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سود پر مبنی بینکاری نظام روایتی طور پر معیشت کی مختلف مالی ضروریات پورا کرتا رہا ہے اور یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ کاروباری طبقے کے ساتھ ساتھ عوام کی جانب سے بینکاری خدمات کا استعمال جدید دور کی زندگی کی ضرورت بن چکا ہے۔اسحق ڈار نے کہا کہ دنیا کی کوشش ہے کہ دور دراز علاقوں کے لوگ بھی بینکنگ نظام میں آجائیں اور ماضی میں ہم نے کوشش کرکے 30 فیصد آبادی کو بینکنگ نظام کے ساتھ منسلک کردیا تھا۔ بینکنگ نظام دنیا کی ضرورت بن چکا ہے کیونکہ نقد لین دین پر لوگوں کو شکوک ہوتے ہیں اور اس میں دہشت گردی جیسے عوامل میں معصوم لوگ استعمال ہوتے ہیں جس کو روکنے کے لیے بھی بینکنگ نظام ضروری ہے۔اسلامی مالیاتی نظام کا مقصد وسیع تر انصاف کا حصول اور شریعت کو عملی جامہ پہنانا ہے تاکہ سماجی اور اقتصادی ترقی حاصل کی جاسکے اور معاشرے کی تمام طبقات کی بنیادی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ سودی نظام شریعت میں جائز نہیں ہے کیونکہ ایک بار آپ نے پیسے دے دیے پھر کسی کا کام چلے یہ نہ چلے آپ کو پیسے چاہئیں، مگر بدقسمتی سے سود کا غیر رسمی نظام بہت بھیانک ہے جس سے غریب لوگ شدید متاثر ہیں جن کی بینکنگ نظام تک رسائی نہیں ہوتی لیکن اس نظام کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔اسلامی بینکوں کے اثاثے 70 کھرب روپے ہیں اور ان کے ڈپازٹس پانچ ہزار ارب کے ہیں یعنی اس کا بنیاد پڑ چکی ہے لیکن ہمیں نیت کے ساتھ پاکستان میں اس کو کامیاب نظام بنانا ہے۔گزشتہ کچھ برس سے ہمارے پاس یہ نظام ہے مگر اب یہ ہم پر ہے کہ اس کو کس طرح آگے لے جاتے ہیں، اس وقت ملک میں 21 فیصد اسلامی بینکنگ نظام آچکا ہے جبکہ اسے ابھی مزید تیز رفتاری سے بڑھنا ہے۔سود سے پاک معاشرے کے حقیقی فوائد حاصل کرنے کے لیے اسلامی بینکنگ کے ساتھ ساتھ غیر بینکاری شعبوں کو بھی اسلامی بنیادوں پر ترقی دینی ہوگی۔2013 سے ہم نے ملک میں اسلامی مالیاتی نظام کو فروغ دینے کے لیے کافی اقدامات کیے جن میں سے تمام اہم شراکت داروں پر مشتمل اعلی سطح کی اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی گئی جس پر تین سال کام ہوا اور 2016 میں اس کمیٹی نے سفارشات مرتب کیں۔کمیٹی کی سفارشات کے پیش نظر مولانا تقی عثمانی نے تجویز کیا کہ اسٹیئرنگ نافذ کمیٹی بھی بنائی جائے جس کے لیے بھی میں نے 2016 میں نوٹی فکیشن جاری کردیا تھا مگر 2016 کے بعد ملک میں پاناما کے ڈرامے شروع ہوئے جس میں تمام کام رک گیا اور آج ہم وہاں کھڑے جہاں پہلے کھڑے تھے۔ جہاں 2016 میں ہم پہنچے تھے اگر وہ سلسلہ جاری رہتا تو آج ہم چالیس فیصد اسلامی بینکنگ نظام حاصل کر چکے ہوتے۔ہم اگر اس نظام پر تیز رفتاری سے کام کریں تو پانچ سال میں بہت کچھ کر سکتے ہیں، گزشتہ حکومت میں ہم نے اسلامی نظام کے تحت کام کرنے والی کمپنیوں کو دو فیصد ٹیکس میں بھی رعایت دی۔ جس رفتار سے پاکستان ترقی کر رہا تھا دنیا کے ممالک نے کہا کہ پاکستان جی 20 کا رکن بھی بن جائے گا لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی، جس طرح اسلامی بینکنگ نظام کو فروغ دینا ہے اسی طرح پاکستانی معیشت کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔2013 میں بھی پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی گئیں مگر ہم نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اچھی کارکردگی دکھائی جس پر دنیا نے پاکستانی معیشت کی تعریف کی۔ اس ملک پر دنیا کی بدترین معاشی پابندیاں عائد ہوئیں مگر کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہوئی، مگر بدقسمتی سے ہم اپنے ملک کے خود ہی دشمن ہیں۔ ہم اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرتے ہیں، اگر مالیاتی نظم و ضبط نافذ کریں تو اس ملک کے وزیر خزانہ کو پانچ سال تک جلاوطن رہنا پڑتا ہے۔ عام بینکوں کے مقابلے اسلامی بینکنگ نظام کو فروغ دینا ہوگا اور مزید بہتری لانی ہوگی اور پھر ایسا نہ ہو کہ جس طرح ٹیکس سے بھاگ رہے ہیں بعد میں زکواة سے بھی دور بھاگیں۔انہوں نے مفتی تقی عثمانی کی اس تجویز کی تائید کی کہ سودی بینکنگ کو مزید برانچ کھولنے کی اجازت نہ دی جائے اور ان کو جواب دیا کہ ملک ادھار پر چلتا ہے اتنے پیسے نہیں ہیں کہ اسلامی بینکوں میں رکھے جائیں۔مفتی تقی عثمانی نے جو قراردادیں پیش کی ہیں ان کی نقل وزیر اعظم کے پاس لے کر جائوں گا کیونکہ ان میں پارلیمان سمیت ایک سے زائد وزارت کی مداخلت ہے۔وزیر خزانہ اسحق ڈار نے اعلان کیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور نیشنل بینک کی طرف سے دائر درخواستیں واپس لی جارہی ہیں اور شرعی عدالت کے حالیہ فیصلے پر عمل کرتے ہوئے ملک سے سود ختم کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کیا جائے گا۔اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے حکومت کو اس حوالے سے ہر کام میں تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔اس اہم کام کے لیے ایسے فوری اقدامات کیے جائیں، جن سے اس مقصد کی طرف بامعنی پیش رفت واضح طور پر نظر آئے۔اگرچہ مرکزی بینک اور نیشنل بینک نے شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیلیں واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے لیکن جن نجی بینکوں اور مالیاتی اداروں نے اپیلیں دائر کی تھیں، انہوں نے ابھی تک وہ اپیلیں واپس نہیں لیں۔اور یہ موقف بھی اختیار کیا گیا ہے کہ بینکوں اور مالیاتی اداروں میں جو سود لیا اور دیا جاتا ہے وہ ربا کی تعریف میں نہیں آتا حالانکہ یہی مقف ہے جو اعلی عدالتوں نے تین مرتبہ مستحکم دلائل کے ساتھ مکمل طور پر رد کر دیا۔پہلے یہ مسئلہ وفاقی شرعی عدالت میں 1991 میں زیر بحث آیا، اس میں حکومت کو سود ختم کرنے کی ہدایت کی گئی۔پھر سپریم کورٹ کی شریعت بینچ میں یہ اپیل آٹھ سال زیر التوا رہی، آخر کار اس میں بھی سپریم کورٹ کی تاریخ کا سب سے ضخیم فیصلہ آیا، جس میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا تھا۔اس کے بعد نظرثانی کی اپیل دائر کی گئی، اور بینچ کو توڑ کر نیا بینچ بنایا گیا جس نے یہ مسئلہ دوبارہ شرعی عدالت کو بھیج دیا جہاں وہ 20 سال تک پڑا رہا۔2022 اس عدالت نے بھی تفصیلی سماعت کے بعد وہی فیصلہ دیا جو اس کے قبل دو اعلی عدالتیں دے چکی ہیں، اس طرح یہ تین اعلی عدالتوں کا متفقہ فیصلہ ہے، جو قرآنی احکام کے عین مطابق ہے۔ایک بار پھر اس فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس متفقہ فیصلے کو 31 سال کی جدوجہد کے بعد پھر غیر معینہ مدت کے لیے سرد خانے میں ڈالنے کا بہانہ بنایا جائے۔حکومت سے مطالبہ ہے کہ خوش آئند اعلان کے مطابق مقررہ مدت میں ملک کو سودی نظام سے نجات دلانے کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات کا آغاز کرے، جس کے لیے یہ کرنا ضروری ہے۔وزارت خزانہ میں فوری طور پر غیر سودی نظام قائم کرنے کے لیے ایک مستقل ڈویژن اور ٹاسک فورس قائم کی جائے، جو اس اہم کام کے لیے ایک عملی نقشہ تیار کرکے مرحلہ وار سود کا خاتمہ کرنے کی مجاز ہو۔1978 سے 2015 تک مختلف اداروں نے اس موضوع پر تفصیلی غور و خوص کرکے ضخیم رپورٹیں تیار کی ہیں، سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ملک سے سود کا خاتمہ قابل عمل ہے اور ان میں اسلام کا طریقہ کار بھی تجویز کیا گیا تھا، ان کا کام سفارشات پیش کرنے کی حد تک محدود تھا، اب کسی سفارشی کمیٹی کی ضرورت نہیں۔ایسی بااختیار ٹاسک فورس کی ضرورت ہے، جو ان سفارشات کو عملی طور پر نافذ کرنے کا اختیار رکھتی ہو۔بعض صوبوں میں ایسے قوانین بنائے گئے ہیں، جن میں قرضوں پر سود کی ممانعت کی گئی ہے، یہ قوانین پورے ملک میں نافذ کر دیے جائیں۔بعض ادارے ایسے ہیں جنہیں فوری طور پر سود سے پاک کرنے میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ہیں، مثلا ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، پنشن فنڈز، سیونگ فنڈز اور کنزیومر فنانس کے دوسرے شعبے ہیں، انہیں بلاتاخیر فورا سود سے پاک کیا جائے۔موجودہ قوانین بینکوں اور مالیاتی اداروں کو براہ راست تجارت سے منع کرتے ہیں، ان قوانین پر نظر ثانی کرکے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے یہ پابندی اٹھائی جائے۔ملک کے دستور کی دفعہ 227 غیر مبہم الفاظ میں قرار دیتی ہے کہ ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے گا، اور قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا، اس دفعہ کو عملی طور پر موثر بنانے کے لیے دفعہ 203 کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کے لیے سپریم کورٹ میں شریعت اپیلٹ بینچ تشکیل دی گئی تھی، ان میں علما ججوں کی شمولیت بھی ضروری تھی۔