نہ ہم اب ساتھ سیر گل کریں گے:ٹےبل پانچ

عاشق فراز

کئی سال بعد پھر سے سیاچن ہوٹل سکردو کے ریسٹورنٹ میں شام کو یا چھٹی کے دن ٹیبل پانچ پر کچھ وقت گذرتا ہے، چائے آتی ہے، منیجر غلام مہدی جن کو سب اخون کے نام سے جانتے ہیں ان کی مسکراہٹ بھی بدستور وہی ہے لیکن دل کی بے کلی اور خالی پن جاتا نہیں۔ ذھن کے پردے میں یادوں کی فلم الٹے رخ چلتی ہے اور کئی چہرے ابھر ابھر کر سامنے آتے ہیں جو کبھی اس ٹیبل کے ارد گرد حلقہ زن رہتے تھے ، قہقہے گونجتے اور دنیا جہاں کے موضوعات زیر بحث رہتے تھے لیکن اب اس ٹیبل کے ارد گرد خاموشی کی ایک گہری چھاپ ہے جو شاید ہر کسی کو سنائی نہ دے کیونکہ گاہک آتے بھی ہیں تو لذت کام و دہن کے بعد جلدی سے چلے جاتے ہیں مشینی زندگی نے وقت کہاں چھوڑا ہے کہ گھڑی بھر کے لئے رکے اور ایک دوسرے کو سنیں۔تعلق کے خمیر میں بھی زمین کی سی خاصیت ہوتی ہے جس طرح زمین درختوں اور پودوں کی جڑوں کو تراوٹ اور ذوق نمو بخشتی دیتی ہے اس طرح تعلق ایک دفعہ دل میں جڑ پکڑ لے تو آہستہ آہستہ سے شاخیں پھوٹتی ہیں اور محبت کے ترو تازہ گلاب کھلتے رہتے ہیں ۔ یہی تعلق ہمارا اس ٹیبل پانچ میں کئی عرصہ سے جمع ہونے والے احباب کے ساتھ تھا جو بظاہر تو مجھ سے عمر میں بڑے تھے، اکثر تو مختلف محکموں سے ریٹائرڈ تھے مگر ان سے ہماری ہم آہنگی اور محبت ایسی تھی کہ عمروں کی تفاوت بے معنی ہوکر رہ گئی تھی۔اس فہرست میں ایک ڈی ایس پی محمد افضل تھے، ان سے شناسائی محمد عباس کھرگرونگ اور وزیر شریف کے توسط سے ہوئی تھی ۔ افضل خاص رکھ رکھاﺅ کے مالک تھے محکمہ پولیس میں رہے لیکن روایتی پولیس جیسی خو بو نہیں تھی۔ لمبے تراشے ہوئے بال ، بدن پتلا ، چھریرا، ناک نقشہ متناسب اور موزوں۔ ان کی مونچھیں خاص انداز کی نوکیلی جس پر وہ مسلسل ہاتھ پھیرتے رہتے اور عینک سے جھانکتی متجسس آنکھیں ان کی شخصیت کی خاص پہچان تھی۔ پولیس کی ملازمت کے دوران کبھی بھی انہیں سکون نہیں ملا اور خاص ترقی بھی نہیں پائی، اصول و ضوابط کے اسیر تھے اس لئے کبھی بھی بڑوں کے پسندیدہ نہیں رہے لہذا اسٹیشن در اسٹیشن تبادلے کی صورت میں عمر گزاری۔ پولیس کے بارے میں عام گمان یہی رہتا ہے کہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ، پھینٹی لگانے اور مال غنیمت کھانے کے عادی ہوتے ہیں لیکن افضل سے مل کر یقین نہیں آتا تھا کہ وہ پولیس میں ہیں اور اوپر سے افسر بھی۔سیاچین ہوٹل کی ٹیبل پانچ میں افضل کا لب و لہجہ، گفتگو اور کردار پولیس والا نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کی شخصیت کا اصل رنگ سامنے آتا کیونکہ وہ کلچر ، ادب، شاعری اور بلتی موسیقی کا بڑا دلدادہ اور جاننے والا تھا۔ سورن، سہگل اور لتا منگیشکر کے گانے سننے والا مینا کماری ، مدھوبالا اور نرگس کی فلمیں دیکھنے والا کیسے کرخت اور سخت دل ہو سکتا ہے اس لئے افضل کم گو، دوسروں کی زیادہ سننے والا اور رجائیت پسند تھا۔ میں نے کبھی تبتی یوگی ملارسپا کے بارے میں نہیں سننا تھا جبکہ افضل روزانہ ملارسپا کا کوئی جملہ یا شعر موبائل مسیج کے تحت ہم دوستوں کو بھیج دیتا تھا، کچھ تحقیق کیا تو معلوم ہوا کہ کتنا بڑا تبتی صوفی گذرا ہے جس کی ہمیں خبر تک نہیں تھی۔ بعد ازاں میں نے ملا رسپا کا کلام انٹرنیٹ سے ڈاﺅن لوڈ کر کے اپنے لئے اور افضل کے لئے اسلام آباد سے پرنٹ کرایا۔افضل اور اس کا خاندان نیورنگا سکردو میں آباد ہیں ان کے گھر کئی دفعہ جانے کا اتفاق رہا اور گھر کے درو دیوار میں سبزہ و گل کی آویزش دیکھ دیکھ کر حیرت ہوتی۔ ان کے باغ میں قسم قسم کے پھول جو زیادہ تر مقامی تھے کی ایک عجب بہار ہوتی تھی۔ چونکہ ان کو پھولوں سے جنون کی حد تک عشق تھا لہذا جہاں جہاں گھومنے پھرنے جاتے وہاں سے پہلی ترجیح پھولوں کی جڑیں لانا ہوتا تھا۔ اس کے علاہ وہ خپلو کے راجہ تہور علی خان یبگو کے داماد تھے لہذا راجہ صاحب کے باغ سے بھی کئی قسم کے پھول منتقل ہو کر افضل کے باغ کی شان بڑھا رہے تھے۔ کچھ عرصہ علیل رہے اور 5 ستمبر 2017 کو وہی ہوا جو میر نے کہا تھا۔

سرہانے میر کے آہستہ بولو

ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے

یوں ٹیبل پانچ کی ایک کرسی خالی ہو گئی۔