جلاو گھیراو کی نفسیات

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قائد اعظم ہاﺅس زیارت کو جلایا جبکہ عمران نیازی اور اس کے جتھوں نے لاہور میں قائد اعظم ہاﺅس کو جلایا جو کہ کورکمانڈر ہاﺅس بن چکا ہے۔لاہور میں امن و امان کے حوالے سے منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ نو مئی کا دن پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس دن پاکستان کے لبادے میں دہشت گردی کی گئی، عمران نیازی کے حکم پر ان کے جتھوں نے ملک دشمنی کی اور بدقسمتی سے وہ کام کر دکھایا جو پچھہتربرس میں دشمن نہ کر سکا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے جی ایچ کیو پر حملہ کیا تھا، اس ملک کی بدقسمتی دیکھیں کہ ان پاکستانی نما دشمنوں نے بھی جی ایچ کیو پر حملہ کیا، ریڈیو پاکستان کو جلادیا، ایف سی اسکول میں توڑ پھوڑ کی۔اس دن بے شمار ایسے ہولناک واقعات ہوئے تھے جو ہمیشہ کے لیے پوری قوم کو ذہنی کوفت میں مبتلا رکھیں گے، لہذا یہ طے ہوا تھا کہ کسی شخص کو، چاہے وہ منصوبہ بندی میں شامل ہے، اکسانے میں شامل ہے، چاہے اس نے غلیظ گالیاں دیں اور نعرے لگوائے اور چاہے وہ توڑ پھوڑ میں شامل تھا، کوئی بھی قانون کے آہنی ہاتھوں سے بچ نہیں سکتا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں طے ہوا تھا کہ سویلین تنصیبات کو نقصان پہنچانے والے تمام افراد پرانسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا، جبکہ فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے والوں پر آئین کے مطابق مقدمہ چلایا جائے گا۔وزیر اعظم نے کہا کہ یہ بات کوئی مذاق نہیں ہے کہ دہشت گرد کراچی میں ایئرفورس کی تنصیبات پر حملہ کریں اور اربوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچائیں اور عمران نیازی کے جتھے میانوالی میں پہنچ جائیں اور دشمن کے خلاف استعمال کرنے کے لیے قوم کی خون پسینے کی کمائی سے خریدے گئے ہوائی جہازوں کو آگ لگانے کی منحوس کوشش کریں۔اس کے لیے ہم نے باقاعدہ فیصلہ کیا تھا، پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ میں بھی کچھ واقعات ہوئے، آج اکٹھے ہونے کا مقصد اس پر کی گئی پیش رفت کا جائزہ لینا ہے، ہم نے پنجاب کی نگران حکومت کو گزارش کی تھی کہ اس معاملے میں ذمہ داریاں ادا کریں۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ 9 مئی کا دن ایک الم ناک دن تھا جو کہ کروڑوں پاکستانیوں نے انتہائی غم و غصے میں گزارا۔اجلاس کے اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم ہاﺅس میں منعقد ہوا جس میں وفاقی وزرا، چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، تینوں سروسز چیفس، سلامتی سے متعلق اداروں کے سربراہان اور دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔قومی سلامتی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ ہم سب آج یہ بات سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ کونسا نظریہ تھا، کون شخص تھا یا کونسا جتھا تھا جس نے وطن کے ساتھ والہانہ محبت کو نذر آتش کردیا۔جلاﺅ گھےراﺅ ہماری نفسےات کا حصہ بن چکا ہے‘ہمارے ہاںپرتشدد مظاہرے پہلی مرتبہ نہیں ہوئے بلکہ ملک میں سڑکیں بند ہونا، بسوں کو جلانا، فائرنگ سے ہلاکتیں ہونا ،یہ واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیوں کو پہلے بھی کئی مرتبہ جلایا گیا ہے۔ لیکن پاکستان فوج کے راولپنڈی میں واقع ہیڈکوارٹرز اور کور کمانڈر ہاﺅس لاہور میں توڑ پھوڑ اور جلاﺅ گھیراﺅ کے مناظر کی ملکی تاریخ میں اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی۔پنجاب میں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور جلاﺅ گھیراﺅ کے الزام میں تین ہزار 185 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔جس طرح دیمک آہستہ آہستہ بڑے اور تناور درخت کو کھا جاتی ہے یہی کچھ یہاں بھی ہوا اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بہت کم لوگ عدلیہ پر اعتماد کو تیار ہیں۔صرف عدلیہ ہی کا نہیں بلکہ ملک کے تمام اداروں کا حال یہی ہورہا ہے۔ دفاعی اداروں میں لوگوں کی من مانیاں، مقننہ کی جانب سے عوام کے بجائے خواص کے لیے قانون سازی میں زیادہ دلچسپی اور کرپشن کی عام ہوتی کہانیاں، انتظامیہ کی نااہلی اور سیاست زدہ ہوجانے کے بعد پاکستان کے حالات اس نہج کو پہنچے ہیں۔ جب ادارے اپنے فرائض کی ادائیگی کے بجائے مصلحت اور مفادات کے اسیر ہوجائیں تو ایسے اداروں کی اہمیت کم ہونے لگتی ہے اور ان پر اعتماد اٹھتا چلا جاتا ہے۔اس کے بعد لوگ پہلے دبے الفا ظ میں اور پھر واشگاف الفا ظ میں اداروں کے خلاف بولتے ہیں اور پھر نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہم اس وقت پاکستان کے حالات میں تشدد کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ججز چاہے قانون کے تحت ہی فیصلہ دیں لیکن اگر اس کا انداز ایسا ہو کہ لوگوں کا اعتماد مجروح ہو تو ان کی اخلاقی حاکمیت متاثر ہوتی ہے اور اس اخلاقی اتھارٹی کی اہمیت قانونی اور آئینی اتھارٹی سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔سیاسی طور پر بٹے ہوئے معاشرے میں سپریم کورٹ میں بھی واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ ججز کی سوچ انصاف کے بارے میں مکمل طور پر دو گروہوں میں تقسیم ہے۔ ٹکراﺅ کو ختم کرنے والا ادارہ اس وقت خود ٹکراﺅ پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے اور یہ سب ایک روز میں نہیں ہوا بلکہ اس نہج تک پہنچنے میں برسوں لگے ہیں۔جب انصاف کے اصول کسی کے لیے کچھ اور دوسرے کے لیے کچھ ہوں تو پھر یہ افسوسناک نتیجہ ہی نکلتا ہے کہ عدلیہ کے خلاف پارلیمان میں قراردادیں پاس ہورہی ہیں اور عدلیہ کے باہر لوگ ڈنڈے لیے کھڑے ہیں۔ عام آدمی تو انصاف کے لیے دھکے کھارہا ہے۔ نظام انصاف میں کوئی بہتری نہیں لائی گئی لیکن بعض شخصیات اور وکیلوں کو فوری انصاف ملے اور خفیہ ایجنسیوں کے دباﺅ پر من چاہے فیصلے دیے جائیں تو پھر انصاف کا نظام کیسے چل سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بے چینی، غصے اور نفرت میں تبدیل ہورہی ہے۔کافی عرصے سے پاکستانی قوم ایک افراتفری کی صورِتِ حال میں رہ رہی ہے۔ اب یہ صورتِ حال اپنے عروج پر معلوم ہوتی ہے۔ ایک جانب معلومات کا سیلاب ہے۔معاشی پہلوں کے ساتھ انسان کی بہت سی دبی ہوئی خواہشات بھی ہوتی ہیں اور جب ان کی تکمیل کے جائز راستے بند کیے جائیں تو پھر اس کا غصہ کسی اور چیز پر نکالا جاتا ہے۔ جب لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں تحفظ نہیں مل پا رہا، معاشی ضروریات پوری نہیں کی جا رہیں۔ غیر یقینی بڑھتی جا رہی ہے تو ایسے میں کوئی بھی معلومات کو جواز بنا کر اس کا ردِ عمل نکالا جاتا ہے۔ہم ایک ایسے کلچر میں زندہ ہیں جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول پروان چڑھ چکا ہے اور جیسے ہی ہمیں یہ موقع ملتا ہے کہ ہم اس طاقت ور سے بدلہ لے سکیں تو ہم املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ احساس محرومی کے ساتھ بدعنوانی کی ان گنت کہانیاں اور پھر طاقت ور سے مرعوب ہوجانا بھی لوگوں کو مایوسی کی جانب لے کر جاتا ہے۔ دوسری جانب معاشرے میں مذاکرے، مباحثے اور بات چیت کے تمام دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ لوگ اپنے اختلافات کا اظہار نہیں کرسکتے۔ نہ صرف یہ بلکہ تفریحی سرگرمیاں موجود نہیں ہیں۔ کھیل کے میدانوں پر قبضے ہوگئے۔ مثبت سرگرمیاں معاشرے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تو ایسے میں لوگوں کا غصہ اور بے چینی کہیں تو نکلیں گے۔جب ملک دیوالیہ ہونے کے دوراہے پر کھڑا ہو، اس بات کی امید بھی نہ ہو کہ بیرونی قرض اتارنے کے لیے ڈالرز کہاں سے آئیں گے۔مہنگائی نے لوگوں کو مکمل جکڑا ہوا ہو تو ایسے میں پرتشدد ہنگاموں، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے سے اور کاروبار بند کرنے سے معیشت کو ہی نقصان پہنچتا ہے۔حکومت کو اس سال پہلے ہی محصولات میں چار سو ارب روپے سے زائد کی کمی کا سامنا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ سیاسی عدم استحکام نے آن لائن کاروبار کرنے والوں کو کروڑوں کی آمدنی سے محروم رکھا ہے۔ اس کے علاوہ روپیہ کے مسلسل گراوٹ کا شکار ہونے کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا تاریخی طوفان آیا ہوا ہے۔عام آدمی کی قوت خرید ختم ہوگئی ہے جب کہ بڑے بڑے سرمایہ کار اور تاجر بھی پریشان ہیں۔موجودہ صورتِ حال ملک میں انارکی کے فروغ کا باعث بنے گی اور اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔موجودہ صورتحال نے بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کے تشخص کو بہت خراب کیا ہے اور ملک کے بارے میں جاری منفی خبریں برآمدات اور ملک سے متعلق تاثر کو انتہائی نچلی سطح پر لے جا رہی ہیں جسے طویل عرصے تک بہتر بنانا ممکن نہیں ہوگا۔تاجروں نے تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر حالات کو باہمی اتفاق کے مطابق حل کرنے کی کوشش کرنے کی بھی پیشکش کی کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال بہت خطرناک ہے اور مزید بگاڑ نہ صرف تاجر برادری بلکہ پورے ملک کے لیے ناقابل واپسی کی صورتِ حال پیدا کردے گا۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کہہ چکے ہےں کہ نومئی کے واقعات کے منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، حملہ کرنے والوں اور سہولت کاروں کے خلاف آرمی ایکٹ اور آئین پاکستان کے تحت قواعد کے مطابق ٹرائل کے قانونی عمل کا آغاز ہوگیا ہے۔ آرمی چیف نے زور دیتے ہوئے کہا کہ فوج کو اپنی طاقت عوام سے حاصل ہے اس لیے پاکستان کے عوام اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوئی بھی کوشش ریاست کے خلاف قدم ہے جس کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔