گلگت (خصوصی رپورٹ+محمد ایوب) گلگت بلتستان اسمبلی نے ایک قرارداد کی
متفقہ طور پر منظوری دی ہے جس میں وفاقی حکومت گلگت بلتستان کو سالانہ 16
لاکھ بوری مقامی گندم کی فراہمی کو یقینی بنائے اور گلگت بلتستان کو گندم
کی پیداوار میں خودکفیل بنانے کےلئے اگلے تین سالوں کےلئے سالانہ پانچ ارب
کے حساب سے ایگریکلچر سپورٹ فنڈ کی فراہمی کو بھی یقینی بنائے، قرارداد میں
کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کا یہ مقتدر ایوان گلگت بلتستان میں گندم کے
بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متفقہ طور پر یہ قرار دیتا ہے کہ وفاقی
حکومت گلگت بلتستان کی دفاعی جغرافیائی حیثیت اور ای سی سی کے فیصلے کو
مدنظر رکھتے ہوئے سالانہ 16 لاکھ مقامی گندم کی بوریوں کی فراہمی کو یقینی
بنائے اور قیمتوں کو مناسب سطح پر لانے کےلئے اور گلگت بلتستان کو گندم کی
پیداوار میں خودکفیل بنانے کے لئے اگلے تین سالوں کےلئے سالانہ پانچ ارب کے
حساب سے ایگریکلچر سپورٹ فنڈ کی فراہمی کو بھی یقینی بنائے اور ساتھ ہی اس
حوالے سے صوبائی کابینہ کے فیصلے پر عملدرآمد کےلئے ایوان سے ایک سپیشل
کمیٹی وفاق میں وفاقی حکومتی اداروں کے ساتھ ملاقاتوں کے ذریعے گندم کے
بحران پر جلد از جلد قابو پانے کی کوشش کریگی تاکہ خطے میں بڑے پیمانے پر
متوقع عوامی احتجاج اور قحط کی نوبت کو روکا جاسکے۔ وزیر پلاننگ فتح اللہ
خان، وزیر خزانہ جاوید علی منوا، وزیر زراعت کاظم میثم، قائد حزب اختلاف
امجد حسین ایڈووکیٹ، مسلم لیگ ن کے غلام محمد، جمعیت علمائے اسلام کے حاجی
رحمت خالق اور نواز خان ناجی کی یہ مشترکہ قرارداد بدھ کے روز وزیر خزانہ
جاوید علی منوان نے ایوان میں پیش کی۔ تمام ممبران کی حمایت پر سپیکر امجد
زیدی نے قرارداد کی متفقہ منظوری کا اعلان کیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے
قرارداد کی متفقہ منظوری پر اپوزیشن جماعتوں بالخصوص قائد حزب اختلاف امجد
حسین ایڈووکیٹ، مسلم لیگ کے غلام محمد اور جمعیت علمائے اسلام کے حاجی رحمت
خالق کا شکریہ ادا کیا اور کہاکہ گلگت بلتستان کے ایک اہم مسئلے پر اس
ایوان نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ سپیکر امجد زیدی نے قرارداد کی منظوری کے
بعد اس قرارداد پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کےلئے ایک سات رکنی سپیشل کمیٹی
تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ کمیٹی اسلام آباد میں وفاقی اداروں سے بات چیت
کرکے گندم بحران کے مسئلے کو حل کریگی۔ کمیٹی میں وزیر خزانہ جاوید علی
منوا، وزیر زراعت کاظم میثم، وزیر صحت حاجی گلبر خان، وزیر قانون سید سہیل
عباس، قائد حزب اختلاف امجد حسین ایڈووکیٹ، مسلم لیگ (ن) کے غلام محمد اور
جمعیت علمائے اسلام کے حاجی رحمت خالق شامل ہیں۔وزیر اطلاعات منصوبہ بندی و
ترقی فتح اللہ خان نے گلگت بلتستان اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گندم
سبسڈی پر ہمیشہ سے صرف باتیں اور سیاست کی گئی ہے عملی طور پر اس اہم
معاملے پر اقدامات نہیں کئے گئے،یہ مہینہ عوام کا مہینہ ہے، اس پر عوامی
ریلیف اور اصلاحات پر بات کی جائے۔سیاست سے ایک قدم پیچھے ہٹ کر مشترکہ
کوششوں سے ہی گندم سبسڈی کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ
کابینہ میں بھی اس مسئلے پر گفت و شنید ہوئی ہے اور سارے کیبنٹ ممبران کی
یہی رائے آئی ہے کہ اس مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔انہوں نے خطاب
کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا اہم خطہ ہے ہمارے آباو ¿ اجداد
نے کلمہ کی بنیاد پر الحاق کیا ریاست پاکستان اس ایشو کو پورے جی بی کے
عوام کا ایشو سمجھ لے۔ یہ ایک ایسا سرد اور ٹھنڈا علاقہ ہے جہاں 6 مہینہ تک
لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہتے ہیں۔انہوں نے اپوزیشن ارکان سے مخاطب ہوتے
ہوئے کہا کہ آپس میں دست و گریباں ہونے کے دن نہیں یہ عوام کے لئے کچھ
کرنے کے دن ہیں،اسلئے اپوزیشن اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے اور 16 لاکھ
گندم کی بوریوں کی مشترکہ ڈیمانڈ ہونی چاہئیے۔انہوں نے کہا کہ کئی بار
وفاقی سطح پر اس حوالے سے ملاقاتیں ہوئیں اور کسی حد تک بجٹ ملا۔ انہوں نے
مزید کہا کہ وفاق اور صوبے میں حکومت کس کی ہے یہ نہ دیکھا جائے اس علاقے
کی اہمیت اور وسیع مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے
کہا کہ حکومتیں آتی جاتی ہیں کوئی فرق نہیں پڑتا عوام کی فلاح و بہبود اور
خدمت کو جاری رکھنا ہماری اولین ترجیح ہے۔اسلئے اس خطے کے غریب عوام کی
خاطر ایک ہو کر مشترکہ کوششوں کے ذریعے عوام کو ریلیف دینے میں اپنا کردار
ادا کریں۔ جبکہ اپوزیشن لیڈر امجد حسین ایڈوکیٹ نے گلگت بلتستان اسمبلی کے
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنے فیصلے خود کرے۔گندم کی قیمتیں
بڑھانے کا فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔انہوں نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
کہ آپ اپنے فیصلے کریں اپوزیشن آپ کا ساتھ دے گی۔اس دوران امجد حسین
ایڈوکیٹ نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب وفاق میں عمران خان کی
حکومت تھی اس وقت انہوں نے آپ کو گندم کی خریداری کے لئے ڈیڑھ ارب روپے
نہیں دےئے۔ آپ نے اس وقت کیوں گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ سے ڈیڑھ ارب
روپے نکال کر پنجاب سے گندم کیوں خریدی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت میں
شامل افرادنے نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ تو کردیا، بڑی گاڑیوں
میں گھومتے ہیں لیکن عوام کے لئے کچھ نہیں کیا۔انہوں نے کہا گلگت بلتستان
پاکستان کا واحد صوبہ ہے جس کے سرکاری ملازمین دیگر صوبوں کے ملازمین سے
زیادہ تنخواہ لیتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر نے وزیر اعلی کی جعلی ڈگری پر طنز
کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کی عوام جعلی نہیں اور نہ ہی یہ کوئی جعلی
صوبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف سیکریٹری نے ایک جعلی نوٹیفیکیشن کو بنیاد
بناکر گلگت بلتستان میں عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔