نگران وزیراعظم کا دورہ گلگت بلتستان

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے گلگت بلتستان میں مذہب کے نام پر انتشار برپا کرنے والے کے خلاف سخت قدم اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ نگران وزیراعظم نے حکام کو ہدایت دی کہ ایسے عناصر کی شناخت کی جائے اور ان کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔نگران وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں گلگت بلتستان میں ترقیاتی منصوبوں اور امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ، وزیراعلی گلبر خان اور سینئر افسران سمیت دیگر نے اجلاس میں شرکت کی۔شرکا سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہر شہری کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، جغرافیائی اعتبار سے گلگت بلتستان پاکستان کا اہم حصہ ہے، پرامن اور خوبصورت خطے کو شرپسندوں کی منفی سرگرمیوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ ریاست کی رٹ کو ہر صورت میں قائم کیا جائے گا اور امن و ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، پائیدار امن و امان کے قیام اور خطے کی ترقی کے لیے وفاقی حکومت تمام ضروری وسائل اور سہولیات صوبائی حکومت کو فراہم کرے گی۔نگران وزیراعظم کو تعلیم کے شعبے کے فروغ کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے بھی آگاہ کیا گیا، جن میں طلبہ کو خوراک کی فراہمی، عمارتوں کی تعمیر نو، خستہ حال عمارتوں کی بحالی، اساتذہ کی پیشہ وارانہ تربیت اور اسمارٹ اسکولوں کا قیام بھی شامل ہے۔اجلاس کو ماحولیات اور سیاحت کے شعبوں کی کارکردگی کے علاوہ گندم کی بوائی اور فصل پر سبسڈی، ہائیڈل پاور کی پیداوار اور صلاحیت کے ساتھ ساتھ بجٹ کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔انوار الحق کاکڑ نے گلگت بلتستان انتظامیہ اور قیادت کو ہدایت دی کہ وہ جاری ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیں اور اہم نوعیت کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دیں۔درےں اثناءگلگت بلتستان اسمبلی میں چیئرمین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی محمد ایوب وزیری نے کہا ہے کہ نگراں حکومت کا کام ملک میں الیکشن کرانا ہے نگران وزیراعظم اور کابینہ کی توجہ الیکشن پر ہونی چاہیے وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اپنی اصل ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر گلگت بلتستان کے دورے آئے ہیں ۔گلگت بلتستان میں گذشتہ کافی دنوں سے بدامنی کی ہوا چل رہی ہے وزیراعظم کو چاہیے تھاکہ وہ تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر علاقے سے بدامنی کے خاتمے اور قیام امن کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھاتے مگر بدقسمتی سے عمائدین علاقہ کے نام پر جن افراد سے نگران وزیر اعظم نے ملاقات کی ہے وہ متعلقہ نہےں تھے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں اس وقت امن وامان ،بیروزگاری اور دیگر مسائل کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن بن چکی ہے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے دورے کو ہرگز عوامی دورہ نہیں کہا جا سکتا۔مذہبی انتشار کسی بھی قوم اور معاشرے کی تباہی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔سماج یا معاشرہ تب وجود میں آتا ہے جب وہاں زندگی کے کچھ اصول ضابطے اور اقدار موجود ہوں۔ دوسرے معنوں میں جنگل اور سماج میں یہی بنیادی فرق ہے کہ جنگلی حیات میں طاقت ور جانور یادرندوں کی حکمرانی ہوتی ہے جبکہ انسانی معاشرے میں اصول ضابطے اور قانون کو سب سے طاقتور سمجھا جاتا ہے۔ لہذا یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں ہوگا کہ جہاں معاشرتی اقدار مضبوط اور توانا ہیں وہاں انسانی زندگی زیادہ پرامن اور نفع بخش ہوتی ہے اسکے برعکس جہاں قانون اور اقدار کا احترام نہیں ہوتا وہاں زندگی خطرات اور انتشار کی زد میں ہوتی ہے اس لئے انسانی اور حیوانی معاشروں میں محض شکل و صورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصول و ضوابط، نفع بخشی، سماجی امن اور احترام انسانیت کی بنیاد پر فرق کیا جاتا ہے۔دنیا کاہر انسانی یا الہامی مذہب سماج کو کچھ نہ کچھ اصول وضوابط دیتا ہے لیکن اسلام کی تعلیمات زیادہ جامع اور نفع بخش اس لئے ہیں کہ اسلام خالق کائنات کا عطا کردہ ضابطہ حیات ہے۔ اس میں انسانی نفسیات اسکی ضرورتوں اور اسکے دائمی نفع اور نقصان کو پیش نظر رکھتے ہوئے قدرت نے قانون سازی کر رکھی ہے جو تحریری طور پر قرآن و حدیث کی شکل میں موجود ہیں۔وطن عزیز میں بالخصوص اور دنیا کے بیشتر خطوں میں بالعموم سماجی امن کو اس وقت جان لیوا خطرات کا سامنا ہے ان خطرات اورچیلنجز کو دوبڑے حصول میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جن میں سے پہلا زندگی کی بقاکا مسئلہ ہے، جس کی شکلیں، غربت ، بھوک اور بے روزگاری کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ روز بہ روز جرائم کی تعداد اور نوعیت بڑھ رہی ہے۔ زندگی بچانے کیلئے ہر شخص قانون شکنی سے لیکر درندگی تک بھی چلا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جو معاشرے ترقی یافتہ کہلاتے ہیں اوروہاں انسانی حقوق اور اقدار کا لحاظ کیاجاتا ہے وہاں زندگی کو ان بنیادی خطرات سے آزاد کردیا گیا ہے۔ بنیادی ضرورتوں کی عادلانہ فراہمی کیساتھ قانون کی حکمرانی ہی معاشرتی امن کی ضامن ہے۔ جہاں نہ بنیادی ضرورتوں کی فراہمی ہو نہ عدل وانصاف ہو اور نہ قانون کی حکمرانی ہووہاں بدامنی اور انتشار کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں امن ہی معاشرتی اقدار کو پروان چڑھانے اور انہیں نفع بخش بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا رہا ہے۔سماجی امن کی راہ میں حائل دوسرا بڑا خطرہ ایمان اور عقیدے کا مسئلہ ہے۔ عقیدہ ایسی انسانی خصوصیت ہے جس کیلئے اکثر واقعات زندگی کو بھی قربان کردیتا ہے۔ عقیدہ ہی انسان کو مومن یا کافر بناتا ہے اسلئے ہر شخص مذہبی عقیدہ کے تحفظ اور اسکے فروغ کیلئے جان و مال کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اسکے نظائر دنیا میں ہمیشہ سے موجود رہے ہیں اور اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ بھائی بھائی کو ، باپ بیٹے کو، دوست دوست کو جہاں بھی تہہ تیغ کرتے نظر آئیں سمجھ لیں یہ مذہب اور عقیدے کی لڑائی لڑی جارہی ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں اس وقت یہ دونوں مسائل اپنے عروج پر ہیں۔ لوگ اپنی جان بچانے کی خاطر بھوک افلاس سے تنگ آکر ڈاکے ، چوری اور لوٹ مار کی طرف مائل ہورہے ہیں معاشرتی جرائم کی تعداد میں روز بہ روز اسی لےے اضافہ ہورہا ہے۔جو ہمارے سماجی انتشار کی علامت ہے۔ اسکے تدارک کیلئے بے روزگاری اور مہنگائی پر قابو پانا ریاست کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔ اسی طرح مذہبی انتشار اور عقائد کے اختلاف کا مسئلہ ہے جو پاکستانی قوم کی طرح پوری امت کو کمزور اور ناتواں کررہا ہے۔ شام کی تباہی کے مناظر دیکھے نہیں جاتے معصوم بچوں کے لاشوں کی قطاریں دیکھ کر ہر انسان کا کلیجہ باہر آتا ہے۔صدیوں سے آباد شہروں اور بستیوں میں قتل وغارت گری کا کھیل جاری ہے اس کا بنیادی سبب عقائد کا اختلاف ہے۔ بد قسمتی سے وہاں پاکستان کی طرح ہی ایک گروپ کو ایک مسلمان ملک سپورٹ کر رہا ہے اور دوسرے کو ایک دوسرا مسلمان ملک، یہی صورتحال عراق میں گزشتہ عرصوں سے جاری ہے اب اسی مذہبی انتشار کے سائے مصر میں بھی منڈلاتے نظر آتے ہیں۔پاکستان میں تقریر وتحریر کی آزادی جہاں ایک اچھی جمہوری قدر ہے وہاں اس سے بہت سے نقصانات بھی ہوئے ہیں۔ ہر شخص نے اپنے اپنے مسلک اور عقیدے کو فروغ دینے کیلئے گلی گلی میں مدرسے ا ور مساجد تعمیر کر کے پوری آزادی کے ساتھ مائیک پر ایک دوسرے کو کافر اور مشرک بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ مسجد ہو یا مدرسہ یہ مذہبی مراکز قرآن وسنت کی حقیقی تعلیمات کے فروغ کا ذریعہ ہونے چاہیں تھے نہ کہ مسالک اور فرقوں کی تشہیر اور انتشار کے فروغ کا۔ جن ریاستوں میں اپنی مرضی سے مدارس اور مساجد بنانے کی پابندی ہے وہاں یہ حالت نہیں۔ مساجد اور مدارس کی تعمیر و ترغیب اسلام کے بنیادی فرائض میں شامل ہے مگر اسلام ایک دوسرے کے گلے کاٹنے اور مذہبی بنیادوں پر خانہ جنگی کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوجائے تو ریاست کو اپنا رول ادا کرنا چاہےے۔ ریاستی سطح پر اس کیلئے قانون سازی او پھر اس پر سختی سے پابندی ضروری ہے۔مذہبی انتشار کو جان لیوا حد تک جانے سے روکنے کیلئے دوسری بڑی ذمہ داری ہمارے مذہبی قائدین پر عائد ہوتی ہے۔مدارس دینیہ اور مساجد کیلئے ایک قومی ضابطہ اخلاق کی ضرورت ہے۔ مدارس کے نصاب میں سماجی اور سائنسی علوم کی تدریس از حد ضروری ہوچکی ہے۔ اپنے عقائد دوسروں پر تھوپنے اور دوسروں سے اپنی تائید حاصل کرنے کیلئے اسلحے اور دہشت کا استعمال قطعا غیر اسلامی اور غیر شرعی ہے۔ مساجد کی تعمیر اور ان میں آئمہ وخطباکے تقرر کا بھی کوئی معیار اور ضابطہ ضروری ہے۔اس لےے صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت کے تعاون کے ذرےعے مذہبی انتشار کے تدارک کو ےقےنی بنانا چاہےے تاکہ خطے کا ماحول خراب نہ ہو اور امن قائم ہو سکے۔