سارہ کائنات
الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے اور اس کے بعد اسے حسب ضرورت ایڈجسٹ کر سکتا ہے، جس سے اس نئے اختیار میں موجود لچک اور صوابدید پر سوالات جنم لیتے ہیں۔کیا صدرعلوی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں گے الیکشن کمیشن کا بنیادی فرض انتخابات کا ایمان دارانہ، منصفانہ، شفاف اور قانون کے مطابق انعقاد کروانا ہے اور ای سی پی کو اپنا کام کرنا چاہیے۔صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کی تاریخ پر مشاورت کے لیے دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے مطابق قومی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد 90 دن کی مقررہ مدت میں لازمی ہونا چاہیے۔ آئین میں قانونی دفعات پاکستان کے سیاسی فریم ورک کے اندر چیک اینڈ بیلنس کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔عام انتخابات کے حوالے سے آئینی اور قانونی ماہرین اور مبصرین کے ذہنوں میں ایک سوال اہم ہے کہ کیا صدر مملکت عارف علوی یکطرفہ طور پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں گے، عام طور پر اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد عام انتخابات 90 دنوں کے اندر ہونے چاہئیں، تاہم، 2023 کی مردم شماری کے نتائج منظور کرنے کے سابق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اتحادی حکومت کے فیصلے نے معاملات کو پیچیدہ بنا دیا ہے، اس فیصلے کی روشنی میں ای سی پی کی جانب سے حلقہ بندیوں کے شیڈول کا اعلان کیا گیا، جس سے رواں سال انتخابات کا امکان بظاہر معدوم ہوگیا ہے۔خیال رہے کہ 9 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد سے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کرلی تھی لیکن صدر مملکت کے خط پر جواب میں کہا تھا کہ یہ اختیار الیکشن کمیشن کا ہے صدر عارف علوی کی دعوت کو الیکشن کمیشن نے ایک مختصر خط کے ذریعے مسترد کر دیا اور چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ انتخابی قوانین میں حالیہ ترامیم کے مطابق صدر سے مشاورت لازمی نہیں ہوگی۔چیف الیکشن کمشنر نے گزشتہ حکومت کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 اور 58 میں کی گئیں ترامیم کا حوالہ دیا تھا، جو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو صدر مملکت کو نظرانداز کرنے اور انتخابات کی تاریخوں کا یک طرفہ اعلان کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے دباﺅ پر صدر عارف علوی نے نگران وزیر قانون احمد عرفان سے دو بار ملاقات کی تاکہ نگراں سیٹ اپ کو انتخابی عمل تیز کرنے پر راضی کیا جا سکے۔تاہم وزارت قانون اس بات پر ڈٹی رہی کہ انتخابات کی تاریخ صرف الیکشن کمیشن کا اختیار ہے اور اس حوالے سے صدر کا کوئی اختیار نہیں ہے۔اس پیش رفت کے بعد یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا الیکشن ایکٹ میں ترامیم آئین پر فوقیت رکھتی ہیں؟ ممکنہ طور پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے والے صدر کی قانونی حیثیت کے بارے میں ماہرین سے رابطہ کیا جنہوں اپنی رائے کا اظہار کیا۔صدر کو آئین کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین ایک ایسی اتھارٹی ہے جو انتخابی تاریخوں کا اعلان کرنے کے ان کے اختیارات کے حوالے سے کسی بھی دعوے کو ترجیح دیتی ہے۔الیکشن کمیشن کا اختیار، کسی بھی صورت میں، اسمبلی کی تحلیل کے 90 دنوں کے اندر انتخابات کے آئینی حکم سے مشروط ہے، جس پر صدر عمل پیرا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔اگر الیکشن کمیشن نے صدر کے اعلان کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ مسئلہ براہ راست سپریم کورٹ پہنچ جانا چاہیے جہاں کسی بھی جج کو انتخابات میں 90 دن کی مدت میں تاخیر کے حق میں آئین کی تشریح کرنا بہت مشکل پیش آئے گی۔عام قانون سازی کے ذریعے آئینی طاقت کو چھینا نہیں جا سکتا۔ خاص طور پر ترمیم شدہ دفعہ 57 کا مطلب ہے کہ یہ آئین کے تابع ہے، یہاں تک کہ دوسری صورت میں، عام قانون سازی آئین کے ماتحت ہے۔آئین کے تحت انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا صدر کا اختیار عام قانون سازی کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔موجودہ صورت میں صدر مملکت عارف علوی نے وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی تحلیل کی ہے اور جب صدر قومی اسمبلی تحلیل کرتے ہیں تو صدر ہی آئین کے تحت عام انتخابات کی تاریخ کا تعین کریں گے۔ 2017 کے ایکٹ میں حالیہ ترمیم نے صدارتی کردار کو موثر طریقے سے محض رسمی طور پر برقرار رکھا ہے۔ اس عمل نے سابقہ مشاورتی عمل کو تبدیل کر دیا ہے، جس سے آئین کے بنیادی اصولوں کی تعمیل کے بارے میں خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔اس نئے عمل کی پیش گوئی کے بارے میں ایک حد تک غیر یقینی صورت حال ہے۔یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ صدر کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کے اجرا کی روشنی میں کیے گئے کسی بھی اقدام کو یک طرفہ صدارتی کارروائی قرار نہیں دیا جانا چاہیے بلکہ ایک قانونی اور آئینی عمل کے طور پر دیکھنا چاہیے جس کا مقصد جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں کو برقرار رکھنا ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان خدشات کو مسترد کر دیا کہ عبوری حکومت کی مدت میں توسیع کے لیے انتخابات غیر معینہ مدت تک ملتوی کیے جا سکتے ہیں اور یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر حلقہ بندیوں کا عمل جلدی مکمل ہو جاتا ہے تو عام انتخابات شاید جنوری کے آخر یا ہر قیمت پر فروری کے وسط تک کرائے جائیں گے رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ یقین دہانی الیکشن کمیشن اور عوامی نیشنل پارٹی کے وفد کے درمیان آئندہ انتخابات کے روڈ میپ پر تبادلہ خیال کے لیے ہونے والی مشاورتی میٹنگ کے دوران کرائی گئی۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی زیر صدارت اجلاس میں اراکین الیکشن کمیشن، سیکرٹری اور سینئر افسران نے شرکت کی، عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے میاں افتخار حسین، زاہد خان، خوشدل خان اور عبدالرحیم وز یر، بلوچستان عوامی پارٹی سے نصیب اللہ، منظورکاکڑ، نور محمد دومر، سردار عبدالرحمن کھیتران اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی طرف سے عبدالکریم نوشیروانی، ثنا جمالی اور دنیشں کمار شریک ہوئے۔الیکشن کمیشن سے جاری اعلامیے کے مطابق سیاسی جماعتوں کے ساتھ الیکشن کمیشن کے تین مشاورتی اجلاس ہوئے، پہلا اجلاس عوامی نیشنل پارٹی، دوسرا اجلاس بلوچستان عوامی پارٹی اور تیسرا بلوچستان نیشنل پارٹی کے وفد کے ساتھ بالترتیب صبح 11 بجے، دوپہر 2 بجے اور سہ پہر 3 بجے ہوا۔الیکشن کمیشن سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے وفود کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق حلقہ بندی کا کام 120 دن کے اندر 14 دسمبر 2023 کو مکمل ہونا ہے۔سکندر سلطان راجا نے کہا کہ الیکشن کمیشن حلقہ بندی کے کام کے دورانیے کو مزید کم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کے فورا بعد الیکشن شیڈول کا اعلان کر دیا جائے گا۔الیکشن کمیشن نے بتایا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ چند روز میں حلقہ بندی کے دورانیے کو کم کرنے کے ساتھ ہی الیکشن شیڈول کا اعلان کر دیا جائے۔الیکشن کمیشن نے بتایا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے وفد نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ انتخابات کا انعقاد آئین کے مطابق 90 دن میں ہونا چاہیے اور کمیشن کو حلقہ بندی شروع کرنے سے قبل سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرنی چاہیے تھی۔عوامی نیشنل پارٹی نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئین کے تحت دی گئی صوبوں کی نشستوں میں کمی یا زیادتی نہیں کرسکتا اس لیے نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت نہیں تھی، الیکشن کمیشن صرف صوبے کے اندر سیٹیں ایڈجسٹ کرسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور اس پر انہیں مکمل اعتماد ہے، کمیشن نے جو حلقہ بندی کا فیصلہ کیا ہے وہ سوچ سمجھ کر کیا ہوگا لہذا اب انتخابات کی تاریخ کا اعلان اور شیڈول بھی دیا جائے تاکہ سیا سی جماعتیں اور عوام کو تسلی ہو۔اعلامیے کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی کے وفد نے الیکشن کمیشن کے نئی حلقہ بندی کے فیصلے کی تائید کی اور وفد کے اراکین کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے نتائج شائع ہو چکے ہیں اس لیے نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندی نہ کرنا سیاسی جماعتوں، امیدواروں اور عوام کے ساتھ زیادتی ہوگی۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ صاف و شفاف حلقہ بندی اور غیرجانب دارانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ حلقہ بندی کے بعد الیکشن کا شیڈول دینے سے پہلے ملک کے مختلف حصوں میں موسمی اثرات کو مد نظر رکھا جائے تاکہ انتخابات کے دوران امیدواروں اور ووٹروں کو تکلیف نہ ہو۔الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی کے نمائندے آغا حسن بلوچ نے الیکشن کمیشن پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی کوشش ہونی چاہیے کہ انتخابات کا انعقاد 90 دن کے اندر ہو۔انہوں نے کہا کہ نئی مردم شماری درست نہیں ہوئی اور بلوچستان کی آبادی کم دکھائی گئی ہے، اس لیے ہماری پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ نئی حلقہ بندی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن یہ سمجھتا ہے کہ حلقہ بندی ضروری ہے تو ان تمام حلقوں کی درست حلقہ بندی کی جائے جہاں پہلے حلقہ بندی درست نہیں کی گئی تھی۔اعلامیے میں کہا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر نے وفود کو یقین دلایا کہ الیکشن کمیشن حلقہ بندی کے دورانیے کو مناسب حد تک کم کرنے کے بعد فوری الیکشن کا انعقاد یقینی بنائے گا۔انہوں نے کہا کہ حلقہ بندیاں اور انتخابات کا انعقاد آئین وقانون کے مطابق شفاف انداز میں مکمل ہوگا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل نیئر بخاری نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے ملاقات کے دوران ہم نے موقف اپنایا کہ ہماری جماعت یہ چاہتی ہے کہ الیکشن کمیشن نئے انتخابات کی تاریخ دے کیونکہ قوم میں بہت اضطراب اور بے چینی ہے۔ نیئر بخاری نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کو جو آئین دیا وہ وفاقیت کی ضمانت ہے اور پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ آئین میں انتخابات کے حوالے سے جو شقیں موجود ہیں ان پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 224 ایک وقت متعین کرتا ہے کہ جب اسمبلی تحلیل ہوجائے تو اس آرٹیکل میں دی گئی مدت میں انتخابات ہونے چاہئیں۔نیئر بخاری نے کہا کہ آج الیکشن کمیشن سے ملاقات کے دوران ہم نے موقف اپنایا کہ پیپلز پارٹی یہ چاہتی ہے کہ الیکشن کمیشن نئے انتخابات کی تاریخ دے کیونکہ قوم میں بہت اضطراب اور بے چینی ہے اور اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ نئے انتخابات کے لیے تاریخ اور شیڈول دیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ہمارا موقف سنا اور کہا کہ ہم اس پر اپنا اجلاس طلب کرکے آپ سے بات کریں گے، ہم نے انہیں کہا کہ آئین کے مطابق انتخابات کی تاریخ دی جائے۔پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ ہم نے 25 اگست کو کراچی میں ہونے والے پارٹی اجلاس میں طے کیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے جو جواب دیا جائے گا اس کو لاہور میں ہونے والی پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں پیش کرکے پھر آئندہ کا فیصلہ کریں گے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ کمیشن کا مشاورتی اجلاس پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے وفد کے ساتھ ہوا اور اجلاس کی صدارت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے کی۔بیان کے مطابق اجلاس میں معزز اراکین الیکشن کمیشن کے علاوہ سیکرٹری اور دیگر سینئر افسران نے شرکت کی۔پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے نیئر بخاری، شیری رحمن، مراد علی شاہ، نوید قمر، تاج حیدر اور فیصل کریم کنڈی اجلاس میں شریک ہوئے۔وفد نے الیکشن کمیشن کو بریفنگ دی کہ الیکشن کا انعقاد آئین کے مطابق 90 دن میں ہونا چاہیے۔وفد نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے ہی حلقہ بندی کا فیصلہ کرلیا ہے، لہذا الیکشن کمیشن جتنا ممکن ہوسکے حلقہ بندی کے شیڈول کی مدت میں کمی کرے اور الیکشن کی تاریخ اور شیڈول جاری کرے اور جتنا جلد ممکن ہوسکے الیکشن کا انعقاد یقینی بنائے تاکہ ملک کی معیشت بہتر ہو، سیاسی بحران کم اور بےیقینی کا خاتمہ ہو۔بیان میں کہا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر نے وفد کو یقین دلایا کہ الیکشن کمیشن جتنا جلد ممکن ہوسکے گا حلقہ بندی کا کام مکمل کرے گا اور اس کے فوری بعد الیکشن کا انعقاد یقینی بنائے گا۔واضح رہے کہ 9 اگست کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کی تھی جس کے بعد وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی تھی۔اس وقت کے وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کی تحلیل کی سمری صدر مملکت کو بھیجی تھی جس پر ڈاکٹر عارف علوی نے دستخط کیے تھے۔بعدازاں 12 اگست کو گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے اس وقت کے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی ایڈوائس پر صوبائی اسمبلی کی تحلیل کی سمری پر دستخط کیے تھے۔سندھ اسمبلی اس وقت تحلیل کی گئی ہے جب 9 اگست کو قومی اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کیا گیا تھا۔اسی طرح 12 اگست کو گورنر بلوچستان ملک عبدالولی خان کاکڑ نے وزیراعلی میر عبدالقدوس بزنجو کی صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کیے تھے، جس کے ساتھ ہی بلوچستان اسمبلی قبل از وقت تحلیل کردی گئی تھی۔گورنر کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ میر عبدالقدوس بزنجو، وزیر اعلی بلوچستان کی ایڈوائس کے مطابق اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 112 (1) کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے میں گورنر بلوچستان ملک عبدالوالی خان کاکڑ نے بلوچستان کی صوبائی اسمبلی 12 اگست 2023 کو شام 5 بجے تحلیل کر دیا ہے۔