چیف سیکرٹری اور حکومت کی اولین ترجیح

چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی نے کہا ہے کہ سکولوں کا نظام بہتر بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔پاکستان میں نظام تعلیم کی زبوں حالی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے سب سے پہلی حکومتی لاپرواہی، غیر حقیقی منصوبہ بندی اور ملک کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات ہیں۔ اردو ، انگریزی میڈیم میں تقسیم بھی اس زمرے میں آتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ تمام اردو میڈیم یا دوسرے الفاظ میں سرکاری اداروں میں تعلیم کا معیار بہت کم ہے اور تمام انگلش میڈیم یا پرائیویٹ اداروں کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔ بڑے شہروں میں پرائیویٹ سکول اپنی کارکردگی بہترین دکھاتے پائے جائیں گے مگر ان سکولز کو چھوٹے شہروں میں دیکھا جائے تو اکثر کی حالت سرکاری سکول جیسی ہی ہوتی ہے۔ دراصل پاکستان میں سکول سسٹمز ایک کاروبار بن چکا ہے جس کے پاس کچھ پیسہ اکٹھا ہوا وہ تعلیم میں سرمایہ کاری کرنے کا سوچنے لگتا ہے ذرا سوچئے کہ جب کاروباری ذہنیت کے لوگ اس میدان کے کرتا دھرتا ہوں تو معیاری تعلیم کی توقع فضول ہے۔ دیہاتوں کے سکولوں کی زبوں حالی کا تو جواب ہی نہیں ہے بمشکل بےس پچےس بچے ایسے نکلتے ہوںگے جو پڑھائی جاری رکھ سکتے ہوں گے باقی بچے معاشی مجبوریوں کے تحت اسی عمر میں کھیتوں میں، یا پھر کسی نجی ادارے میں، کام کرنے لگ جاتے ہیں۔ پرائمری سکولوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ سرکاری سکولز میں بچوں کی یونیفارم اور ظاہری حالت پر توجہ نہیں دی جاتی۔ وہی نیلی شلوار قمیض یا سفید شرٹ، خاکی پینٹ۔اس کلچر کے زیر اثر ہم ایسے ذہنوں کی تربیت کررہے ہیں جو لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی کام ہونا چاہئے یہی ان کی شخصیت اور کردار میں نکھار پیدا کرتے ہیں۔ اگرچہ بچے پڑھ لکھ تو جائیں گے مگر نظم و ضبط اور متوازن شخصیت کے بغیر پڑھے لکھے ان پڑھ بن جائیں گے۔ اس میں کسی حد تک اساتذہ کرام کی آمدنی کا بھی تعلق ہے جوکہ تنخواہوں کی صورت میں بہت کم ہے۔ اس وجہ سے وہ بچوں کو الگ سے ٹیوشن پڑھانے پر زور دیتے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں پڑھائی بہت کم ہوتی ہے اور وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مجھ سے ٹیوشن پڑھو۔ آج کے دور میں الگ سے ٹیوشن پڑھانا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے بلکہ اس کام کے لئے باقاعدہ اکیڈیمیز تشکیل پاچکی ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ آج کے دور میں تعلیمی ادارے منافع بخش کاروبار ہیں۔ ہم تعلیمی نظام کو ایک صورت میں بہتر بنا سکتے ہیں کہ حکومت اپنی ترجیحات میں تعلیم کے فروغ کو سرِ فہرست رکھے۔ اس کے لئے نہ صرف مناسب بجٹ رکھا جائے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ بجٹ کا مناسب اور صحیح جگہ پر استعمال بھی کیا جائے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بجٹ یعنی وسائل کے باوجود محکمہ تعلیم کے افسران اور ملازمین کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بہت سے سکولوں، کالجوں کی عمارتوں، کلاس رومز، فنی تربیت کی تجربہ گاہوں اور سپورٹس گراﺅنڈ کا برا حال ہوتا ہے۔ اس تناظر میں یہ ضروری ہے کہ وسائل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کا صحیح استعمال بھی یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ اساتذہ کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔اگر استاد کی بنیادی ضرویات کو پورا کیا جائے گا تو وہ طلبہ کی تعلیمی ضرورتوں کا خیال رکھے گا۔ اسی طرح طالب علموں کی معیاری اور مفت تعلیم ہونی چاہئے۔ اس کے لئے نصاب میں بھی ردوبدل ضروری ہے۔کسی بھی معاشرے کی ترقی کا راز تعلیم میں پوشیدہ ہے۔ تعلیم سے ایک فرد کی شخصیت نکھرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے پر بھی مثبت سیاسی، معاشی اور معاشرتی اثرات پڑتے ہیں اور یوں ایک خوش حال اور باشعور معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔پاکستان کے آئین میں اس بات کا عہد کیا گیا ہے کہ پانچ سال سے سولہ سال تک کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دی جائے گی۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کو بھی صوبوں کو منتقل کیا گیا ہے۔ اب یہ صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ اپنے شہریوں کے اس بنیادی حق کی فراہمی یقینی بنائیں۔ تاہم پاکستان کے معاملے میں روزِ اول سے تعلیمی نظام میں بے شمار نقائص رہے ہیں اور کسی نے بھی مخلصانہ انداز میں انھیں حل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ گو کہ یہ سوال ہمیشہ سے ماہرینِ تعلیم اور حکمرانوں نے دہرایا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام کیسے بہتر ہو؟ لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات کی وجہ سے کبھی بھی نصاب سازی یا قومی تعلیمی پالیسی تشکیل دینے میں سیاسی اتفاقِ رائے نظر نہیں آیا۔ لہذا تعلیمی نظام کے معیار اور تسلسل میں اکثر خلا نظر آیا ہے۔ کوئی آکر پبلک، پرائیویٹ اور مدرسہ نظام متعارف کرواتا ہے اور کوئی یکساں نصاب کے نام پر سب کچھ ختم کرتا ہے۔ کوئی قومیانے کی پالیسی اپناتا ہے اور کوئی نجکاری کو ترجیح دیتا ہے۔ عام طور پر دیکھا جائے تو فی الحال پاکستان میں تعلیم کا دہرا معیار نظر آتا ہے۔ امیروں کےلئے انگلش ایجوکیشن سسٹم کا آئی بی کریکولم، او لیولز اور اے لیولز اور غریبوں کےلیے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا نظام۔دنیا میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں، جن سے ہماری زندگی میں کئی اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن ہمارا نصاب، نصاب کے اہداف و معیار، درسی کتابیں، اساتذہ کا معیار اور کتب خانے وہی ہیں جو آج سے عشروں پہلے تھے۔ ان میں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آتی۔ نصاب پر ہر چار پانچ سال کے بعد نظرثانی ازحد ضروری ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی ماہرینِ تعلیم، اساتذہ، اسکول پرنسپلز، طلبا، والدین اور حکمرانوں کی شرکت ہونی چاہیے۔ ایسا ہوا تو ہم زمانے کے ساتھ چلنے کے قابل ہوسکیں گے، ورنہ آج کی طرح ترقی کی راہ میں بہت پیچھے رہیں گے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنے سالانہ بجٹ میں تعلیم کےلیے اچھی خاصی رقم مختص کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں یہ شرح ہمیشہ سے غیر تسلی بخش اور کم رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران تعلیمی بجٹ میں سنجیدگی سے اضافہ کریں اور اس کا مخلصانہ و ذمے دارانہ استعمال بھی یقینی بنائیں۔کسی بھی تعلیمی نظام کی بہتری اور کامیابی کےلیے ٹیچرز ایجوکیشن اور ٹریننگ کی بہت اہمیت ہے۔ اساتذہ کے تربیتی پروگرام نہ صرف معیاری تعلیم کے انتظام کے ضامن ہیں بلکہ یہ معاشرے کے چند ناسوروں کی بیخ کنی کی طرف آگاہی کا بھی موثر ذریعہ ہیں۔ مثلا اساتذہ کے تربیت یافتہ ہونے سے معاشرے سے نفرت، بدعنوانی، اقربا پروری، چوری اور ذات پات کے بت توڑنے میں مدد مل سکتی ہے مگر ہمارے ملک میں بدقسمتی سے اساتذہ کی بھرتی بغیر کسی تدریسی تربیت کے کی جاتی ہے۔ اگرچہ حکومتی سطح پر اساتذہ کی تدریسی تربیت کا ایک اسٹرکچر موجود ہے لیکن اس میں بھی بے شمار نقائص ہیں اور انہیں ترجیحی بنیادوں پر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کےلیے لائسنس کا اجرا لازمی ہو اور پری سروس اور اِن سروس ٹریننگ کا بندوبست کیا جائے۔ہمارے معاشرے میں کوئی توتے کی طرح کچھ موضوعات رٹ کر فرفر سنائے تو بدقسمتی سے اسے قابل سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ اس طالب علم سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ اس بات کا مطلب کیا ہے تو اسے کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ ناچیز نے بے شمار ایسے امیدوار دیکھے ہیں جو کہ مختلف مضامین میں ایم ایس، ایم فل یا پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر ہوتے ہیں اور اپنے مضمون میں کسی تصور کی تعریف سنانے کے علاوہ انہیں کچھ نہیں آتا۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اس تعریف کا مطلب کیا ہے؟ آسان الفاظ میں اس تصور کو سمجھائیں یا اس تصور کا اطلاق عام زندگی میں کہاں کہاں کیا جاسکتا ہے یا کہاں کہاں نظر آتا ہے تو وہ مستقل چپ سادھ لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہترین نمبرات اور اعزازات کے ساتھ ڈگری کے ہوتے ہوئے بھی اچھی ملازمت نہیں لے پاتے۔ اب وقت آیا ہے کہ اپنے تعلیمی نظام سے رٹا کلچر کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کےلیے امتحانی نظام، درسی کتابوں اور نصاب میں ضروری تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ اساتذہ کو اسی کے مطابق تیار کرنا ہوگا۔ یہ راتوں رات تو ممکن نہیں ہوگا لیکن یہ تبدیلی بتدریج ممکن ہے اور نتیجہ خیز بھی۔ہمارے تعلیمی ادارے اپنی چاردیواری کے اندر محدود رہتے ہوئے تنہائی میں کام کرتے ہیں۔ مختلف اداروں کی آپس میں شراکت داری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ایک اسکول یا کالج بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے تو اس سے دوسرے اسکول اور کالجوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا یا اگر کوئی اسکول مسلسل خراب کارکردگی دکھا رہا ہے تو آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ادارے آپس میں شراکت داری کریں۔ اپنے تجربات، وسائل، کامیابیاں اور مشکلات کا ایک دوسرے سے اظہار کریں اور ایک دوسرے کو سہارا دیں۔ کچھ وقت کےلئے اساتذہ کا تبادلہ ہو، ہیڈ ماسٹرز اور پرنسپلز کی کمیٹی بنائیں، مل کر اسکول ڈیولپمنٹ پلان ترتیب دیں، ایک دوسرے کی نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں کا جائزہ لیں اور بہتری کےلیے ماہرانہ رائے دیں۔ کچھ عرصے بعد دیکھیں کہ سب ادارے مل کر کیسے ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔چےف سےکرٹری گلگت بلتستان محی الدےن وانی نے تعلےم کو اولےن ترجےح قرار دےا جو ےقےنا خوش آئند ہے لےکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیسے اسے متشکل کرتے ہیں۔