قیام پاکستان کے بعد افغانستان نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور پاکستان کے باغیوں کو اپنے زمین پر پناہ دی، یوں پاکستان بنتے ہی اس کے خلاف سازشوں کا سلسلہ افغانستان سے شروع ہوا۔ پاکستان میں جو ریاستیں شامل ہوئیں یا جن کو شامل کیا گیا ان میں سے کچھ ریاستوں کے نواب جو پاکستان بننے کے حامی نہیں تھے وہ افغانستان چلے گئے اور وہاں سے پاکستان کے خلاف مہم چلاتے رہے۔ مسلمان ممالک میں افغانستان وہ آخری ملک تھا جس نے پاکستان کے قیام کی دہائیوں بعد پاکستان کو تسلیم کیا مگر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی موقع افغانستان کی حکومتوں نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔افغانستان کا سوویت بلاک میں شامل ہونا اور پاکستان کا امریکی حلیف بننا بھی ان دونوں ممالک کو قریب آنے سے روکتا رہا۔ انڈیا بھی اپنی پروکسی وار پاکستان کے خلاف افغانستان کی مدد سے لڑتا رہا۔ جب انڈیا پاکستان کی جنگ ہوئی تو پاکستانی افواج پر دباﺅ بڑھانے کے لیے اس دور کے افغان حکمرانوں نے مہمند کے علاقوں پر دھاوا بول دیا تھا۔ جس سے ہماری توجہ انڈیا کی سرحدی علاقوں سے ہٹائی گئی جس کا ہمیں نقصان ہوا۔ پاکستان کے تقریبا تمام سیاسی اور عسکری حکمرانوں نے امریکی خوشنودی کے لیے وہ سارے کام کیے جن سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ ہمارے مسائل میں اضافہ ہوا اور ہمارے وسائل ضائع ہوئے۔ امریکی کو خوش کرنے میں مٹھی بھر افراد نے ذاتی فائدے حاصل کیے اور قوم کا نقصان کر گئے۔ ستر کی دہائی میں جب امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ امریکی تھنک ٹینک اور انتظامیہ نے اس جنگ کے خاتمے اور امریکی وسیع تر مفاد میں جو منصوبہ بندی کی اس میں پاکستان کو پروکسی وار فیلڈ بنایا گیا۔ اس مقصد کے لیے مسلمانوں کا استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا جس میں خصوصا ان مسلمانوں پر سرمایہ کاری شروع کر دی گئی تھی۔ جو جہادی فلسفے پر یقین رکھتے تھے۔اس مقصد کے لیے ترکی، مصر، سوڈان، سعودی عرب، افغانستان اور پاکستان کے مختلف مذہبی گروہوں کو نئے جہادی سلسلے کی شروعات کے لیے عملا تیار کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے لٹریچر بنایا گیا، ان تمام ممالک کی سکولوں اور کالجوں کے نصابات کو امریکہ میں ہی ترتیب دیا گیا اور اس میں چن چن کر جہاد ترغیبی مواد و واقعات کو شامل کیا گیا، اس مقصد کے لیے اخبارات، رسائل، ٹی وی، ریڈیو، فلموں، ڈراموں اور کتابوں کا سہارا لیا گیا اور اس مقصد کے لیے مخصوص گروہوں کو جن کو بے تحاشا فنڈنگ دی گئی تھی ان کے مساجد کے منبروں کا استعمال کیا گیا۔پھر جہاد کی عملی تربیت کے لیے ان کے لیے ٹریننگ کیمپ بنائے گئے اور ان کو ٹرین کرنے کے لیے فوج سے ریٹائرڈ ماہرین کا انتخاب کیا گیا، جہادی کمانڈر بنائے گئے۔ ان کو رہائش کے لیے شہروں کے پوش علاقوں میں بڑے بڑے بنگلے خرید کر دیے گئے، ان کو گاڑیاں، جہادی لباس اور جدید ترین اسلحہ دیا گیا، ان کو ان کی ضرورت اور حیثیت سے زیادہ ڈالرز دیے گئے۔ وہ جو صاحب اقتدار اور صاحب حکم تھے ان کو رشوتیں بھی دی گئیں اور جو رقم وسائل اور اسلحہ دیا گیا اس میں خورد برد کرنے کی بھی کھلی اجازت دی گئی۔یہ وہ دور تھا جب پاکستان کے ہر کونے میں دینی مدرسے بننا شروع ہوئے اور ان کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ یہ مدارس دراصل ان کی لیے آسان ریکروٹینگ ایجنسیاں تھیں جہاں سے باآسانی جہاد کے لیے نوجوان دستیاب ہوسکتے تھے۔ اسی دور میں ایک سیاسی مذہبی جماعت کے جنگجو گروپ حکومتی سرپرستی میں بنے اور یہ گروہ قبائلی علاقوں اور دیگر علاقوں میں جاکر نوجوانوں کو جمع کر کے ان کو سوویت یونین کے خلاف جہاد میں شریک کرنے لگے۔ یوں ہم اس افغانستان کی مدد کرنے پر آمادہ ہوئے جو پاکستان کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا بلکہ پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتا تھا۔پھر تاریخ نے دیکھا کہ امریکی سازش کر کے سوویت یونین کو افغانستان کھینچ کر لائے اور مسلم دنیا میں نئے جہادی فلسفے کے تحت بنائے گئے مجاہدین سے ان کو مسلسل ایک گوریلا جنگ میں مصروف رکھا گیا اور دوسری طرف اقتصادی طور پر سوویت یونین کے راستے روکے گئے جس کی سمجھ ان کو بہت بعد میں آئی تب تک تک دیر ہو چکی تھی۔ اس لیے اس وسیع تر سوویت یونین کو آخر کار شکست ہو گئی اور اس کے زیر تسلط ریاستیں آزاد ہو گئیں۔ یوں سوویت یونین کی وہ قوت جو امریکہ اور یورپ کے لیے مسلسل خطرے کا باعث تھی۔ اس کا خاتمہ ہوا اور عملا سرد جنگ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔امریکہ کی یہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ جو امریکہ نے مسلمانوں کے فلسفہ جہاد کو ایک نئے روپ دے کر اس کی اور ان جہادیوں کی مدد سے حاصل کی۔ نوے کی دہائی امریکہ کے لیے خوشیاں اور پاکستان کے لیے بربادی کا سامان لے کر آئی۔ اس لیے کہ پاکستان ان دو دہائیوں میں اپنے صنعتی، معاشی، تعلیمی، زرعی، کاروباری اور سفارتی ترقی کو بھول کر صرف امریکی خوشنودی کے لیے کام کرتا رہا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان میں بے روزگاری، منشیات، بدامنی، تشدد، علاقائی اور مذہبی تنازعات نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ یہاں جمہوریت کو بھی شجر ممنوعہ بنا دیا گیا۔ اس عرصہ میں ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے کوئی عملی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ صرف توجہ حربی آمدن اور وسائل پر دی گئی اور ہر ادارے میں استحکام لانے کی جگہ شخصی فائدے اور مفاد کا کلچر کو پنپنے کا موقع دیا گیا۔ اس دور کے حکمرانوں نے پاکستان کے لوگوں کو تقسیم کرنے کے لیے سیاسی جھتے بنانا شروع کیے۔یوں کراچی جیسا بڑا شہر جس میں پاکستانی معیشت کی جان تھی وہاں اس جتھے کے ذریعہ ترقی کا راستہ روکا گیا، قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا جو اس دور میں صوبہ سرحد کہلاتا اور بلوچستان کو عملا ترقی کے عمل سے دور کیا گیا۔ تاکہ یہاں کے لوگ امریکی ساختہ جہاد میں ہی مشغول رہیں اور ترقی نہ کرسکیں، ان کو راغب کرنے کے لیے ان کو سمگلنگ، منشیات اور دو نمبر کے کاموں اور دھندوں پر لگا دیا گیا۔ جس کی وجہ سے یہ لوگ تعلیم اور ترقی سے دور ہوتے چلے گئے۔ اور ان علاقوں میں جو چند ایک کارخانے اور صنعتیں تھیں ان کو بھی وہاں سے ختم کر کے پنجاب منتقل کیا گیا۔ ظلم یہاں تک ہوتا تو کچھ بات تھی۔ ان علاقوں میں افغانستان کے مہاجرین کو بسایا گیا۔ ان کو وہ تمام حقوق دیے گئے جو عملی طور پر ان علاقوں کے لوگوں کو بھی دستیاب نہیں تھے۔ ان پر کسی قانون کا اطلاق لازم نہیں کیا گیا، ان لوگوں کو ہر غیر قانونی کام کی کھلی اجازت دی گئی، ان کی وجہ سے ان خطوں میں اسلحہ کاروبار عروج پر پہنچ گیا، یہ علاقے منشیات کے کاروبار کا عالمی مرکز بن گئے، اور ان کی وجہ سے یہاں قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا، یہ خطہ دھماکوں، خودکش حملوں کی زد میں رہا جس سے لاکھوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔امریکی مفاد کے خاتمے کے بعد وہ جہادی جو افغانستان میں فارغ ہو گئے تھے۔ انہوں نے ان پاکستانی علاقوں کا رخ کیا اور ان کو سنبھالنا حکومت کی بس میں نہیں رہا۔ یوں یہ لوگ پاکستان کے نظام اور معیشت پر بوجھ بننے لگے۔ ان جہادیوں کا زور توڑنے کے لیے نئے جہادی بنائے گئے۔ پہلے والے جس طبقہ فکر سے تھے ان کو چھوڑ کر ایک نئے طبقہ فکر کے بچوں کو ان دیگر جہادیوں کے خلاف تیار کیا گیا اور ان کی مدد کر کے ان کو افغانستان میں داخل کیا گیا۔ تاکہ امریکی ساختہ جہادیوں کو لگام ڈالی جا سکے۔ اس میں کامیابی ہوئی مگر پاکستان کے کرتا دھرتا اب بھی پاکستان کو دنیا کی طرح ترقی کی راستے پر ڈالنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس لیے کٹھ پتلی حکومتیں بنوا کر شخصی فائدے لیتے رہے۔ ایسے میں وہ عرب جو امریکی جہاد میں شرکت کے لیے افغانستان آئے تھے انہوں نے امریکہ ہی پر حملہ کر دیا اور امریکہ ان کے خلاف خود لڑنے افغانستان پہنچ گیا۔ افغانستان میں چونکہ ان عربوں کو نئے بنائے ہوئے جہادیوں کی حمایت حاصل تھی اور ان جہادیوں کی چابی ہمارے پاس تھی مگر ہم ان کو قائل نہیں کرسکے کہ ان عربوں کو امریکہ کے حوالے کر دیں اور جان بچائیں۔ اس لیے ہم پھر سے امریکہ کے ساتھ ایک نئے جنگ میں ان کے حلیف بن گئے اور ان کے خلاف حلیف بنے جن کو ہم نے خود بنایا تھا۔ دو دہائیوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور اس کی وجہ سے پاکستان کی رہی سہی معیشت جواب دے گئی، امریکی ایما پر یہاں کمزور ترین اور کرپٹ ترین لوگوں کو اقتدار کا حصہ بنایا گیا، استحکام کو ختم کرنے لیے پروکسی جنگوں اور مسائل کو جنم دیا گیا، یوں سوات، قبائلی علاقوں، بلوچستان یہاں تک کہ اسلام آباد تک میں ڈرامے رچائے گئے۔جس کے نتیجے میں ملکی معیشت بیٹھ گئی۔ اس عرصہ میں کرپٹ لوگ کرپشن کرتے رہے، ادارے تباہ ہوتے رہے اور ہم دنیا بھر سے قرضے لے کر ان کرپٹ لوگوں کے جیبوں میں ڈالتے رہے۔ امریکہ اپنے مطلوبہ مقاصد مکمل کر کے افغانستان سے چلا گیا۔ مگر پاکستان کو جس دلدل میں پھنسا کر گیا ہے۔ پاکستان اس سے نکالنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوا۔ افغانستان کے ساٹھ ستر لاکھ لوگ اب بھی پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ جو کسی قانون، ضابطہ اور اخلاقیات کو نہیں مانتے، وہ خود بھی غیر قانونی کاموں میں ملوث ہیں اور پاکستان میں موجود ان کی ہم خیال لوگ بھی ان سے اپنے فائدے اور مقاصد حاصل کر رہے ہیں۔پاکستان انتظامی، معاشی، تعلیمی، سائنسی، اخلاقی ہر لحاظ سے زوال پذیر ہے۔ جس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم نے پاکستان پر توجہ نہیں دی، اس کے لیے منصوبہ بندی نہیں کی، اس پر جان بوجھ کر نا اہل اور کرپٹ لوگوں کو مسلط کیے رکھا، اداروں کو اپنے کام کرنے کے بجائے ذاتی اور ریاست کو نقصان پہنچانے والے کاموں میں مصروف رکھا۔ یہاں کرپشن، سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، ٹیکس چوری، ملاوٹ، قبضہ گیری، منشیات کا کاروبار سب کچھ کھلے عام اور سب کے سامنے ہو رہا ہے بلکہ وہ جو ان کاموں سے لوگوں کو دور رکھنے پر مامور ہیں وہی کر رہے ہیں مگر ان کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ اخبار میں پڑھتے رہتے ہیں کہ بیس ہزار، دس ہزار افغانستانیوں کو پاکستانی شناختی دستاویزات کے ساتھ گرفتار کیا گیا، لیکن کمال یہ ہے کہ ہم نے کسی ایک شخص کو بھی اس کام میں ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ یہ لاکھوں افغانستانی جن کی وجہ سے ہمارے پاسپورٹ کا شمار دنیا کی بدترین پاسپورٹوں میں ہونے لگا ہے، ان کو ہمارے کچھ مفاد پرست پاکستانی اب بھی سپورٹ کر رہے ہیں۔اس ملک میں نوکر شاہی کا راج ہے۔ ہسپتال میں علاج کے لیے وسائل نہیں ہیں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے لیے تنخواہیں نہیں ہیں لیکن نوکر شاہی کے لیے کھربوں روپے کے عیاشی کا انتظام ہوجاتا ہے۔ ملک میں صنعتیں ختم ہو رہی ہیں اور ہاﺅسنگ سوسائٹیاں لاکھوں کی تعداد میں بن رہی ہیں۔ ملک کی عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں کیس برسوں سے التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن چند اشخاص کے ایسے کیس جن کا سر پیر کچھ نہیں روز سماعت کے لیے مقرر ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ ختم ہی نہیں ہو رہا۔اس ملک میں انصاف اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ آبادی کا نوے فیصد حصہ اس کو خریدنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہاں علاج اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ لوگ مرنے کو علاج پر ترجیح دے رہے ہیں۔
۔
۔
یہ سب اس وجہ سے ہے کہ ہم نے گزشتہ چالیس برسوں سے زائد امریکہ کو خوش کرنے اور چند کرپٹ لوگوں کو پالنے اور افغانستان کو بچانے، لڑانے، ہارنے اور جیتنے میں لگا دیے ہیں۔ اب بہت ہو گیا ہمیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے اور ان کے تمام باشندوں کو ان کے ملک فورا بھیج دینا چاہیے۔اپنے ملک کو اہل، ایماندار اور ماہرین کے سپرد کر کے گزشتہ چار دہائیوں کے گند کو صاف کرنا چاہیے۔ تعلیم پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے اور اپنے وسائل کو استعمال میں لانے پر توجہ صرف کرنی چاہیے۔ ورنہ حالات جس طرف جا رہے ہیں وہ ہمیں بھی افغانستان بنا سکتے ہیں۔ غربت جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اگر اس کا تدارک نہیں کیا گیا تو جو اس کا نتیجہ برآمد ہو گا۔ وہ آپ کے تصور سے زیادہ بھیانک ہو گا۔ افغانستان اور افغانستانی ہمارے گلے میں مثل ہڈی کے پھنس چکے ہیں۔اسے ہم نگلنے کی کوشش ترک کر کے اس کو اگل ہی دیں تو ہماری سانسیں بحال ہو سکتی ہیں۔ جس دن سے غیر قانونی افغانیوں کو نکالنے کی بات شروع ہوئی ہے اس دن سے ہماری معیشت سنبھل رہی ہے۔ مہنگائی کے طوفان میں کمی آ رہی ہے، تصور کریں کہ یہ سب افغانستانی چلے جائیں تو کیا صورتحال ہوگی۔ اگر چند ہزار کے جانے سے اتنی بہتری آ سکتی ہے تو سب کے جانے سے کتنی بہتری آئے گی۔