فضائی آلودگی کا تشوےشناک مسئلہ


 لاہور ایک بار پھر خطرناک فضائی آلودگی میں گھرا ہوا ہے جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس خطرناک سطح پر پہنچ گیا۔ ایئر کوالٹی انڈیکس 401 پر ریکارڈ کیا گیا جو سانس لینے کے لیے انتہائی غیر محفوظ قرار دی گئی سطح ہے۔ فضائی آلودگی کی اس خراب صورتحال کے باعث لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آگیا۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ پچاس سے کم اے کیو آئی سانس لینے کے لیے محفوظ سمجھا جاتا ہے اور لاہور کا موجودہ انڈیکس صحت عامہ کے لیے شدید خطرے کی نشاندہی کرتی ہیں۔شہر کے مختلف علاقوں میں ہوا کا معیار نمایاں طور پر مختلف ریکارڈ کیا گیا۔لاہور میں روایتی طور پر سردیوں کے موسم خصوصا اکتوبر سے فروری تک ہوا کے معیار میں کمی ہوتی ہے، اس عرصے کے دوران پنجاب کے وسیع تر صوبے میں کسان فصلوں کی باقیات کو جلاتے ہیں جس کی وجہ سے اسموگ میں اضافہ ہوتا ہے۔لاہور میں فضائی آلودگی کا بنیادی سبب گاڑیوں، صنعتی اخراج، اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والا دھواں، فصلوں کی باقیات، کچرے کو جلانا اور تعمیراتی مقامات کی دھول مٹی شامل ہیں، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے جنگلات کی کٹائی بھی اس میں اپنا بڑا حصہ ڈالتی ہیں۔ پنجاب کی نگران حکومت نے صوبے میں اسموگ سے نمٹنے کے لیے ایک ماہ کے لیے تمام سرکاری اور نجی اسکولوں میں طلبا و طالبات کے لیے ماسک لازمی قرار دیتے ہوئے صوبے بھر میں اسموگ ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔اس کے علاوہ دو روز قبل لاہور ہائی کورٹ نے اسموگ پر قابو پانے کے لیے صوبائی دارالحکومت کے تمام اسکولوں اور کالجز کو 18 نومبر کو بند رکھنے کا حکم دینے کے ساتھ دفاتر میں ہفتے میں دو روز گھر سے کام کرنے کی پالیسی اپنانے کی تجویز دی تھی۔ملک میں ماحول کی آلودگی کی صورت حال دن بدن خرابی ہوتی جارہی ہے بڑے شہروں میں یہ مسلہ انتہائی خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے جس کی وجہ سے عوام کو بے پناہ مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر حکومتی اداروں اور خود عوام کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ ماحول کی آلودگی کتنی خطرناک ہے ماحولیاتی مختلف ذرائع سے پیدا ہورہی ہے ان میں گاڑیوں موٹر سائیکلز ویگنوں بسوں ٹرک اور دیگر ٹرانسپورٹ کا دھواں ھوا کو زہر آلودہ کر رھا ہے کیونکہ دھواں سے خطرناک گیسز پیدا ہوتی ہیں جس سے ہوا میں آکسیجن کا تناسب کم ہو جاتا ہے جو انسانی زندگی کے لئے خطرہ کا باعث بنتی ہےں جس سے مختلف خطرناک بیماریاں جنم لے رہی ہےں ہمارے شہروں میں ایسی خراب ٹرانسپورٹ عام ہے جو فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر ہی شہروں کی سڑکوں پر دوڑتی پھرتی ہیں۔مختلف فیکٹریوں جن میں چمڑہ سازی،کپڑا سازی چینی کاغذ بنانے والی شامل ہیں اپنے کیمیکلز زدہ استعمال شدہ پانی گندے نالوں یا کھلی زمینوں پر چھوڑ دیتے ہیں جو ندی نالوں اور دریاﺅں میں چلا جاتا ہے جس سے دریا آلودہ ہو رہے ہیں اس آلودہ پانی سے مچھلی و دیگر آبی جانوروں کو نقصان پہنچاتا ہے جبکہ ہمارے دریاﺅں میں تازہ پانی پہلے ہی کم ہو چکا ہے۔ہمارے شہروں میں کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہے اور نہ ہی ہماری عوام میں یہ شعور ہے کہ ہم نے کوڑے کرکٹ اور کچرے کو ٹھکانے کیسے لگانا ہے ہم گلی محلے بازاروں پارکوں وغیرہ میں ہی کچرا اور گند ڈال دیتے ہیں جو کئی کئی روز تک پڑا رہتا ہے جہاں تک متعلقہ محکموں کا تعلق ہے جو شہر سے کوڑا کرکٹ اور کچرے اٹھانے کے ذمہ دار ھیں وہ بھی اپنا کام ٹھیک سے سرانجام نہیں دیتے اس کچرے اور کوڑا کرکٹ سے خطرناک جراثیم پیدا ہوتے ہیں جو ماحول کو آلودہ کرتے ہیں اور انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں اس سے شہروں کا ماحولیات حسن برباد ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی صحت اور تخلیقی سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی ہیں گلی محلوں اور بازاروں میں پڑے گند سے وبائی امراض پھوٹ پڑنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔ہوا کی آلودگی اس وقت ہوتی ہے جب گیسوں ، ذرات اور حیاتیاتی مالیکیولوں سمیت مادوں کی نقصان دہ یا حد سے زیادہ مقدار میں زمین کی فضا میں داخلہ لیا جاتا ہے۔ یہ بیماریوں ، الرجی اور یہاں تک کہ انسانوں کو موت کا سبب بن سکتا ھے انسانی سرگرمی اور قدرتی عمل دونوں ہی ہوا کی آلودگی پیدا کرسکتے ہیں۔آواز کی آلودگی بھی ماحول کو خراب اور آلودہ کرنے میں اھم رول ادا کرتی ھے سڑکوں پر دوڑتی پھرتی ٹرانسپورٹ کا شور اور جا بے جا گاڑیوں کے ہارن کا بے آہنگ شور بھی انسان کے رویوں اور مزاج پر اثرانداز ہوتا ہے سڑک پر ٹریفک بند ہے یا سگنل سرخ ہے ہم پھر بھی بلا ضرورت اپنی اپنی گاڑیوں کے ہارن بجاتے ہیں کراچی اور لاھور جیسے بڑے شہرآلودگی کا بری طرح شکار ہو چکے ہیں ان شہروں میں آبادی حیرت انگیز طور پر بڑھ رہی ہے جس سے زرخیز زمینیں عمارتوں کی نظر ہوتی جارہی ہے جنگلات کٹتے جارہے ہیں پینے کا شفاف پانی نایاب ہوتا جارہا ہے ۔عالمی ادارے صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ماحول کی آلودگی کی وجہ سے ہر سال تین کروڑ سے زائد انسان ہلاک ہورہے ہیں اس کے علاہ ہر سال بیالیس اعشاریہ پانچ ملین ایکڑز جنگلات کا رقبہ تباہ ہو رہا ہے۔ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کے لئے اگر ہم نے ٹھوس بنیادوں پر منصوبہ بندی نہ کی اور غفلت کا شکار رہے تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی آبادی کا کنٹرول،جنگلات کے کٹاوو میں کمی ،درختوں کا قتل عام،گندے پانی کی صفائی کا بندوست،ہوا اور آواز کی آلودگی کا تدارک اور زمینی آلودگی کا بندوست جیسے امور کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔زیادہ سے زیادہ شجر کاری اور سایہ دار درخت لگائے جائیں۔گنجان آباد علاقوں میں کارخانے فوری طور ختم کئے جائیں اور ان کو کھلے اور ویران جگہوں پر منتقل کئے جائیں۔دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف موثر مہم چلائی اور ان گاڑیوں کو بند کیا جائے۔کوڑے کرکٹ اور کچرے کا خاص انتظام کیا جائے اور ان کے لئے مخصوص جگہ مقرر کی جائے اور کچرے کو فوری تلف کرنے کے انتظامات کرنے چاہیں۔سب سے اہم اس امر کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو ماحولیاتی آلودگی اور اس کے مضر اثرات سے روشناس کرایا جائے تاکہ لوگوں کو ماحولیاتی آلودگی کے متعلقہ مکمل آگاہی ہو سکے۔ماحولیاتی تبدیلیوں اور آلودگی سے آگاہ کرنےکے ذرائع ابلاغ بھی موثر کردار ادا کر سکتے ہیں تعلیمی اداروں میں طلبہ کو ماحولیاتی آلودگی کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے معلومات اور تعلیم دینے کی ضرورت ہے بلکہ ان کے تعلیمی نصاب میں فضائی آلودگی کے بارے تفصیل سے شامل کیا جائے تاکہ پاکستان کو فضائی آلودگی سے بچایا جا سکے اور ہم ایک بہتر اور صاف ماحول میں جی سکیں ۔ فضائی آلودگی کے بہت سے محرکات بھی گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج کے ذرائع ہیں۔ فضائی آلودگی کو کم کرنے کی پالیسیاں، اس لیے، آب و ہوا اور صحت دونوں کے لیے جیت کی حکمت عملی پیش کرتی ہیں، جو فضائی آلودگی سے منسوب بیماریوں کے بوجھ کو کم کرتی ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے قریب اور طویل مدتی تخفیف میں حصہ ڈالتی ہیں۔فضائی آلودگی سب سے اہم اور خطرناک شکل ہے۔اس کی وجہ سے بہت سے وجوہات ہےں ۔ہوا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ اور مضر گیسوں کی رہائی گلوبل وارمنگ اور ایسڈ بارش کا سبب بنتا ہے ۔ فضائی معیار کے انڈیکس کے مطابق گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار گیسوں میں سب سے زیادہ شرح کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ہے، جو تقریبا پےنسٹھ فیصد ہے اور اس گیس کا بنیادی ماخذ فوسل فیولز اور قدرتی گیس کا بے تحاشا استعمال ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ افسوسناک بات شاید یہ ہوگی کہ عالمی ادارہِ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی شہری آبادی میں تقریبا اسی فیصد افراد آلودہ فضا میں سانس لے رہے ہیں اوراس فضا کا معیار عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ معیارات کے مطابق نہیں۔جس طرح ہر ہونے کے پیچھے کوئی نہ کوئی ہونی ضرور ہوتی ہے، بالکل اسی طرح فضائی آلودگی کے پیچھے محرکات کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ، چاہے دنیا کا کوئی بھی کونا ہو، کوئی بھی جغرافیائی خطہ ہو، وجوہ تقریبا ایک ہی جیسی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی مشکلات اور فاصلے کسی حد تک ختم کردیئے ہیں، لیکن اگر ہم اس کا دوسرا پہلو دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ در حقیقت ہم کس بڑی مشکل سے دوچار ہورہے ہیں۔ گاڑیوں کے دھوئیں سے نکلنے والی گیسیں، گلوبل وارمنگ کی وجہ بننے والی گیسوں میں سے ایک، یعنی کاربن کے آکسائیڈز ہیں۔ ان کے علاوہ ہائیڈرو کاربنز، سلفر ڈائی آکسائیڈ وغیرہ شامل ہیں اور انسانی صحت پر ان کے مجموعی اثرات دردِ سر اور نزلہ زکام سے لے کر سانس کے مستقل مسائل تک جاسکتے ہیں۔اگرچہ ترقی یافتہ ممالک اس مسئلے پر بہت بحث کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پیٹرول‘ڈیزل کی گاڑیوں کو دوسری ٹیکنالوجی والے انجن کی گاڑیوں سے تبدیل کیا جائے اورکچھ ترقی یافتہ ممالک میں پیٹرول ڈیزل والی گاڑیوں پر پابندی لگ چکی ہے، جبکہ کچھ ممالک میں عنقریب ایسی گاڑیوں پر مکمل پابندی لگ جائے گی، جن میں سے ایک فرانس ہے۔ ہمارے ملک میں عوامی شعور کی وجہ سے ماحول دوست گاڑیاں استعمال کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور دن بدن اس رجحان میں واضح اضافہ ہو رہا ہے، جو ایک بہت اچھی سوچ ہے۔ اس سوچ کو پروان چڑھایا جانا چاہئے اور ساتھ ساتھ اسی ٹیکنالوجی سے لیس گاڑیوں کو پاکستان میں فروغ دینا چاہیے تاکہ ماحول دوست کلچر کو فروغ ملے۔