عالمی ادارہ صحت کے مطابق عام طور پر غزہ میں روزانہ تقریبا 100 مریض صحت کی پیچیدہ ضروریات کی سہولت جیسے موذی کینسر کے علاج اور اوپن ہارٹ سرجری مقاصد جیسے ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ مغربی کنارے، اسرائیل اور دیگر ممالک میں حاصل کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق یہ عمل 7 اکتوبر کے بعد رک گیا ہے، اسرائیل نے جواب میں غزہ کا مکمل محاصرہ کیا، ساحلی پٹی پر بمباری کی اور زمینی حملہ کیا، غزہ میں صحت کے حکام کے مطابق اب تک تےرہ ہزار سے زائد فلسطینی، جن میں ہزاروں بچے بھی شامل ہیں، جاں بحق ہو چکے ہیں۔عالمی ادارہ صحت اس بات پر زور دے رہا ہے کہ طویل مدت سے زیرعلاج مریضوں میں سب سے زیادہ کمزور افراد کو علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دی جائے، مصر، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک نے مریضوں کو لینے کی پیش کش کی ہے۔اسرائیل حماس جنگ سے پہلے ہر سال تقریبا 20 ہزار مریض اسرائیل سے صحت کی دیکھ بھال کے لیے غزہ کی پٹی چھوڑنے کے لیے اجازت نامہ طلب کرتے تھے، ان میں سے اکثر کو بار بار سرحد پار جانے کی ضرورت پڑتی تھی۔ان میں تقریبا ایک تہائی بچے شامل ہیں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق اسرائیل نے 2022 میں ان میں سے تقریبا 63 فیصد افراد کی طبی بنیاد پر باہر جانے کی درخواستیں منظور کر لی گئی ہیں۔غزہ میں صحت کی سہولیات 16 سالہ اسرائیلی محاصرے، ناکہ بندی اور بار بار کی لڑائی میں جکڑا ہوا ہے۔پچھلی جنگوں میں سرحدی گزرگاہ ایک یا دو دن کے لیے بند ہو جاتی تھی لیکن پھر مریضوں کی دوبارہ آمد رفت ہو جاتی تھی، مقاصد ہسپتال کے سپروائزر اسامہ قدومی نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب نقل و حرکت پر اتنی جامع پابندی عائد کی گئی ہے اور غزہ کے مریض وہاں سے باہر منتقل نہیں ہوسکتے ہیں۔اسامہ قدومی نے مزید کہا کہ ہمارا انتظار طویل ہوگیا تو چند مریضوں کی حالت اتنی ہی زیادہ خراب ہو جائے گی، کئی لوگ محض علاج تک رسائی نہ ہونے پر دم توڑ دیں گے۔ تشویش صرف انتہائی پیچیدہ معاملات کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کے اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں کینسر اور ذیابیطس سمیت 3 لاکھ 50 ہزار دائمی امراض کے شکار افراد کے ساتھ ساتھ 50 ہزار حاملہ خواتین بھی موجود ہیں۔اس سے قبل اکثر مریضوں کو غزہ میں ہی طبی سہولیات میسر ہو سکتی تھیں لیکن اب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ علاقے کا مخدوش نظام صحت تباہی کے دہانے پر ہے، فضائی حملوں سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے اور ادویات اور ایندھن کی فراہمی بھی مسلسل کم ہو رہی ہے۔معمولی امداد کی فراہمی جبکہ صرف 80 مریضوں کو باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے لیے عالمی ادارے کے نمائندے ڈاکٹر رچرڈ پیپرکورن نے گزشتہ ماہ ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ہم ہمیشہ جنگ سے متاثر ہونے والے مریضوں کے بارے میں بات کرتے ہیں، جو بالکل درست ہے لیکن ہمیں 3 لاکھ 50 ہزار مریضوں کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔ غزہ میں تقریبا ایک ہزار مریضوں کو زندہ رہنے کے لیے گردے کے ڈائیلاسز کی ضرورت ہے لیکن مقامی ہسپتالوں میں موجود 80 فیصد مشینیں انخلا کے احکامات پر ہیں۔ کہ غزہ کا واحد کینسر ہسپتال اب کام نہیں کر رہا ہے، اسرائیل کی فوج نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ شمالی غزہ سے نکل جائیں، جہاں متعدد ہسپتال واقع ہیں کیونکہ وہ حماس کو ختم کرنے کی مہم چلا رہی ہے، فوج کا دعوی ہے کہ حماس نے اپنے کمانڈ سینٹرز کو ہسپتالوں کے نیچے چھپا رکھا ہے جبکہ حماس اس دعوے کی تردید کرتی رہی ہے۔عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ جنگ سے قبل علاج کے لیے غزہ سے باہر جانے والے تقریبا 400 مریض اور ان کے ساتھی مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں پھنسے ہوئے ہیں، غزہ میں موبائل سروس اور بجلی کی تعطلی کے باعث شہری اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ فلسطینی سرزمین کو اب تک کی بدترین جنگ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ اس جنگ میں اسرائیل نے مسلسل بمباری، زمینی حملہ اور غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ہسپتالوں میں سے تقریبا دو تہائی ہسپتال، جہاں پہلے ہی جنگ کے زخمیوں کی بڑی تعداد موجود ہے، جنریٹرز کو درکار ایندھن کی کمی کے باعث سہولیات کی فراہمی سے محروم ہوگئے ہیں۔غزہ شہر کے سب سے بڑے ہسپتال الشفا، جو کہ مریضوں اور پناہ گزینوں سے بھرا ہوا تھا کو تباہ کر دےا گےا ہے، اب ایک شدید شہری جنگی زون کے اندر ہے، ہسپتال کے ڈائریکٹر کے مطابق متعدد میتیں کمپلیکس کے اندر اجتماعی قبر میں دفنا دی گئی ہیں۔غزہ میں ان گنت مائیں بدترین خوف کا شکار ہیں وہ خود کو اپنے بچوں کی حفاظت میں بے بس اور ناکام محسوس کرتی ہیں۔مسلسل بمباری سے بڑی تعداد میں جمع دھول سانس لینے میں دشواری کا باعث بن رہی ہے بالخصوص یہ شیرخوار بچوں کے لیے خطرناک ہے۔فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے اعلی عہدیدار ڈومینک ایلن نے کہا کہ غزہ میں حاملہ خواتین کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں، کوئی مقام محفوظ نہیں ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ 24 لاکھ کی آبادی والے غزہ میں 50 ہزار سے زیادہ تعداد حاملہ خواتین کی ہے اور روزانہ اوسطا 180 بچے پیدا ہوتے ہیں۔ پیدا ہونے والے ان بچوں میں سے کم از کم 15 فیصد میں پیچیدگیاں ہوں گی، جن کو بنیادی دیکھ بھال کی ضرورت ہوگی۔جنگ ایک انتہائی پریشان کن ماحول پیدا کر رہی ہے جس سے پیدائش میں پیچیدگیاں ہونے کا امکان ہے اور یہ حمل کے ضائع ہونے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ نفلی ہیمرج کے علاج کے لیے خون، ٹانکوں کے لیے اینٹی سیپٹک اور نال کٹنے کے بعد علاج کے لیے جراثیم کش ادویات کی کمی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی غزہ میں اب تک 8 ہزار ڈلیوری کٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے، ان میں نال کاٹنے والے کٹرز، نوزائیدہ بچوں کے لیے کمبل، ڈسپوزایبل چادریں اور دیگر اشیا شامل ہیں۔غزہ کی وزارت صحت نے اقوام متحدہ کے ادارے کی جانب سے فراہم کردہ کٹس کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ چند خواتین رش والی پناہ گاہوں میں دائی کے بغیر بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہیں۔ڈومینک ایلن نے کہا کہ غزہ کا ڈراﺅنا خواب انسانی بحران سے کہیں زیادہ ہے، یہ انسانیت کا بدترین بحران ہے۔شمالی غزہ کے شدید بمباری سے متاثرہ جبالیہ پناہ گزینوں کے کیمپ میں کام کرنے والا امدادی گروپ العودہ ہسپتال میں خواتین کی مدد کر رہا ہے جبکہ ہسپتال کئی دنوں سے بجلی سے محروم ہے۔غزہ میں ہزاروں خواتین بچوں کو جنم دیتے وقت خطرات میں ہوتی ہے، وہ بغیر اسٹیریلائزیشن، بے ہوشی کی دوا یا درد کش ادویات کے سی سیکشن اور ایمرجنسی آپریشنز کر وا رہی ہیں۔ یہ خواتین معیاری صحت کی دیکھ بھال اور محفوظ جگہ پر جنم دینے کے حق کی مستحق ہیں لیکن اس کے بجائے انہیں اپنے بچوں کو مکمل طور پر بدترین حالات میں دنیا میں لانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ میں جنگ بندی کروانے کی کوششوں کو دوگنا کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ حالیہ دور میں غزہ، بچوں کے لیے قبرستان بنتا جارہا ہے جہاں اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں پانچ ہزار سے زائد بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔جنگ بندی میں عمومی طور پر لڑائی مخالف فریقین کی رضامندی سے رک جاتی ہے، جنگ بندی پورے علاقے کا احاطہ کرتی ہے جہاں تنازع چل رہا ہوتا ہے، جنگ بندی سیاسی حل کے طور پر فریقین کو تنازع کے مستقل حل کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ میں انسانی بنیادوں پر وقفہ غزہ کے شہریوں کے مصائب کو کم کرنے کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے۔انسانی بنیادوں پر وقفہ مخالف فریقین کی رضامندی سے انسانی مقاصد جیسے جنگ کی زد میں آنے والے علاقوں تک امداد پہنچانے کی اجازت کے لیے عارضی طور پر لڑائی روک دیتا ہے، یہ عام طور پر محدود وقت کے لیے مخصوص جغرافیائی حدود کے لیے ہوتا ہے جہاں انسانی بنیادوں پر کارروائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔متحدہ عرب امارات کے اقوام متحدہ میں سفیر لنا نسبیہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ میں تعطل کرنے پر زور دیا۔جنگ میں تعطل عارضی طور پر لڑائی روک دیتا ہے، یہ جنگ بندی کی طرف ایک اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے اور یہ لڑائی کو روکنے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ متحارب فریقین ایک دوسرے سے مذاکرات کر سکیں۔غزہ میں بڑھتی بمباری کے دوران یورپی یونین کے رہنماﺅں نے مسلسل، تیز، محفوظ اور بنا کسی رکاوٹ کے انسانی ہمدردی کے تحت راہداری اور انسانی ضرورت کے لیے وقفوں سمیت لوگوں تک رسائی اور ضرورت مندوں تک امداد پہنچانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔انسانی ہمدردی کے تحت راہداریوں میں جنگ زدہ علاقوں میں انسانی ہمدردی کے سامان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے لیے مخصوص راستوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں جیسے یونیسیف اور ڈبلیو ایچ او، طبی اور دیگر عملے کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ تنازع کے دوران بچوں کو طبی امداد فراہم کی جا سکے، مثال کے طور پر حفاظتی ٹیکوں کی مہم، تمام فریقین اس دوران طبی عملے کے کام میں مداخلت نہ کرنے پر اتفاق کرتے ہیں۔ایک بین الاقوامی اور مقامی تنازع میں شہریوں یا دشمن جنگجوں کے خلاف کیے جانے والے جنگی جرائم عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہوتے ہیں۔ انسانی بنیادوں پر وقفے کے برعکس یہ کسی فریق کو پابند نہیں کرتا، کسی بھی وجہ سے ٹروس کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے، یہ صرف انسانی مقاصد تک محدود نہیں ہے۔
ہماری حکومت اختیارات کو نچلی سطح تک منتقلی کیلئے پر عزم ہے،وزیر اعلیٰ
فیڈریشن جی بی کی حساسیت اور متنازعہ حیثیت کے پیش نظر عوام دشمن فیصلوں سے باز رہے، کاظم میثم
وزیر حسنین کی گرفتاری :پی ٹی آئی بھی دھرنے میں آگئی
سازش کے تحت اہم عوامی منصوبوں کو یکسر نظر انداز کرکے عوام کی بھرپور خدمت سے دور رکھا گیا ، حفیظ الرحمن