بجلی چوری کے خلاف اقدامات

وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ اس مرتبہ بجلی چوری پر صرف کلائنٹس اور کسٹمرز کے خلاف ایف آئی آر یا انہیں جیل نہیں بھیجا جائے گا بلکہ جن فیڈرز پر زیادہ چوری ہوگی اس کے انچارج ہمارے اپنے افسر کے خلاف کرمنل پروسیڈنگ مجرمانہ کارروائی ہوگی اور دونوں پر ایف آئی آر ہو گی۔ وفاقی وزیر توانائی سردار اویس خان لغاری نے کہا کہ نظام میں بہتری کے لیے 60ارب روپے کی مالیت سے ٹرانسفارمر کی سطح پر میٹر لگا رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ڈسٹری بیوشن کمپنیز کو بہتر چلائیں تو بڑا ایڈوانٹیج مل سکتا ہے، ایک سے دو سال کے اندر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری ان کی مینجمنٹ موثر طریقے سے نجی اداروں کے سپرد کردیں گے۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیز کے بورڈز ازسرنو مرتب کر کے انہیں نئی زندگی دینا ہو گی جس کے بعد انہیں ٹاسک دیں گے کہ وہ نقصان کا ازالہ کریں۔ ہمارے صرف صارفین چور نہیں ہیں بلکہ ہمارے اندر بیٹھے افسر چور ہیں، اس کا حل صرف یہی ہے کہ حکومت ان کمپنیز سے باہر نکلے، ہم ڈسکوز کو بڑے شفاف طریقے سے پرائیویٹ سیکٹر کو دیں گے۔ وزیر توانائی نے کہا کہ جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 150روپے کی کمی ہوئی تو ہمیں کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں 750ارب روپے کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس وقت ہمارے سال کی کیپیسٹی پیمنٹ 2ہزار ارب روپے ہے۔لائن لائسز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گرڈ اسٹیشن تک ہمارے لاسز انٹرنیشنل معیار کے مطابق ہیں اور کے پی کے وزیراعلی نے بجلی چوری کے خاتمے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔سولر اور متبادل ذرائع کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایک سال میں پرائیویٹ سیکٹر نے چھے ہزار850 میگا واٹ کے سولر پلانٹ امپورٹ کیے ہیں جس سے کسی حد تک لوڈ کم ہوا ہے۔ماضی میں بھی بجلی چوروں کو کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کے دعوے کےے گئے لےکن ان کا کوئی مثبت نتےجہ برآمد نہےں ہوا۔سابق نگران حکومت نے بجلی چوری اور باقیداروں سے وصولی کے لیے آپریشن کا آغاز کیا اور کہا ہر علاقے میں چوری کی مختلف سطحیں ہیں لیکن چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے سالانہ 589 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔بجلی چوروں اور بل ادا کرنے سے انکار کرنے والوں کی وجہ سے دوسروں کو زیادہ بل ادا کرنے پڑتے ہیں۔ جب تک یہ نہیں روکا جاتا، بجلی کی قیمتیں کم نہیں ہوں گی۔ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ملتان اور اسلام آباد میں ڈسپیچ کمپنیوں میں ریکوری نسبتا بہتر ہے جبکہ پشاور، حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ اور آزاد جموں و کشمیر میں ڈسکوز کو 60 فیصد تک نقصان ہو رہا ہے۔سرکاری ادارے پوری قوم کی ملکیت ہیں، اور ان کی چوری بھی اسی طرح جرم ہے جس طرح کہ کسی ایک فرد کی چوری حرام ہے، بلکہ سرکاری اداروں کی چوری کسی خاص فرد کی چوری سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ےہ کہا جا چکا ہے کہ اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے جس میں ہر ٹرانسفارمر پر سمارٹ میٹر لگایا جائے گا۔ گرڈ سٹیشن اور فیڈرز پر پہلے ہی سمارٹ میٹر لگے ہوئے ہیں۔ اب ٹرانسفارمر پر تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے تعینات کیے گئے افسران نفع و نقصان کی تفصیل بھی دیں گے اور بجلی کے ذمہ داران ہوں گے، اس سے حالات بہتری کی جانب جائیں گے۔اصلاحات میں آئی ایم ایف نے بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام بہتر بنانے، نجی بجلی گھروں کی طلب کو قومی گرڈ پر منتقل کرنے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں اصلاحات کے ذریعے بجلی کی چوری کے خاتمے کے اقدامات شامل ہےں۔ہمارے پاس بجلی کی پیداوار پنتالےس ہزار میگاواٹ ہے جو ضرورت سے زیادہ ہے۔ ملک میں مانگ کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اہداف کے مکمل ہونے کے بہترین اثرات ہوں گے۔ ملک بھر میں پاور ایمرجنسی لگائی جانی چاہیے۔ کسی فرد کو، خواہ وہ کسی بھی عہدے پر ہو بجلی چوری کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ چوری روکنے سے بجلی کی قیمتوں میں کمی واقع ہونا شروع ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ بنیادی ڈھانچے پر کام، ٹرانسمیشن لائن پر سرمایہ کاری، ڈسکوز کی نجکاری اور بجلی چوری پر سخت سزائیں دینے سے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ سابق چیئرمین نیپرا کے مطابق اس کے ساتھ گورننس بہتر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اگر توانائی کے شعبے میں متعلقہ افراد تعینات کیے جائیں گے تو اہداف حصول ممکن ہے۔ کسی بھی اصلاحاتی کوشش کی کامیابی کا انحصار آئی پی پیز کو اور غیر موثر سبسڈی کے مسائل کو حل کرنے پر زور دےنا ہوگا۔پنجاب حکومت نے بھی بجلی چوری کے سدباب کے لیے ٹاسک فورس قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ بجلی چوری روکنے اور ریکوری کے لیے قوانین میں ترمیم کا بھی اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز کے زےر صدارت اجلاس میں بجلی چوری سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا جبکہ ڈیسکوزحکام نے لاہور سمیت تمام اضلاع میں بجلی چوری کی مفصل رپورٹ پیش کی۔رپورٹ کی روشنی میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز کی جانب سے ڈسٹرکٹ لیول پر بجلی چوری کے سدباب کے لیے ٹاسک فورس قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جس میں پولیس، مجسٹریٹ، انٹیلی جنس، ریکوری، ڈی آفس، پراسیکیوشن اور محکمہ قانون کے نمائندے شامل ہوں گے۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ چھے سو سے زائد سپیشل پولیس فورسز ٹیمیں بھی انسداد بجلی چوری مہم میں حصہ لیں گی، بجلی چوری روکنے اور ریکوری کے لئے قوانین میں ترمیم کا بھی اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے بجلی چوری کے مقدمات میں مضبوط اور موثر پراسیکیویشن کی ہدایت کی۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی بھی بجلی اور گیس چوروں کے خلاف کریک ڈاﺅن کا اعلان کر چکے ہےں اور اس کی کامیابی کے لیے ایف آئی اے کی خصوصی فورس بنانے کی ہدایت جاری کی ہے۔اس کے ساتھ ہی ایف آئی اے نے ملک بھر میں بجلی چوروں کے خلاف کارروائیوں کے بارے میں میڈیا کو اطلاعات جاری کرنا شروع کر دیں۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سال 23-2022 میں خیبرپختونخوا میں 137 ارب روپے، بلوچستان میں 97 ارب روپے، سندھ میں بجلی کی مجموعی ترسیل کی تقریبا 50 فیصد اور پنجاب میں 14 سے 16 فیصد تک بجلی چوری ہوئی۔چوری کی سب سے زیادہ شکایات صوبہ خیبر پختونخوا سے آتی ہیں اور وہاں سے وصولیاں کرنے میں بھی مشکلات ہوتی ہیں جس کی ایک وجہ گزشتہ برسوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ہم آہنگی نہ ہونا بھی ہے۔اس معاملے پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی حکمت عملی میں بھی فرق رہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں حکمران پاکستان تحریک انصاف کے اہم رکن شوکت یوسفزئی نے محسن نقوی کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کی جماعت بجلی چوری کے خلاف آپریشن میں وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے ساتھ وفاق کو صوبے کے بقایا 1500 ارب روپے بھی جاری کرنے چاہیں۔گزشتہ برس اگست میں آنے والی نگراں حکومت کے دور میں بھی بجلی چوروں کے خلاف ایک آپریشن شروع کیا گیا تھا جس کے دوران تقریبا چھ ماہ میں 43023 افراد گرفتار اور 70.20 ارب روپے وصول کیے گئے۔بجلی چوری روکنے کے لیے آپریشن کا اعلان تقریبا ہر حکومت کرتی رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی خصوصی ٹیمیں تشکیل دے کر اس کے خاتمے کا اعلان کیا جاتا رہا ہے لیکن ابھی تک کسی ادارے کو اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔اس مرتبہ کیے جانے والے آپریشن میں انتہائی سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں اور نہ صرف یہ کہ بجلی چوری کرنے والوں کے کنکشنز فوری طور پر منقطع کیے جا رہے ہیں بلکہ ان کو موقع پر گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔اس مرتبہ شروع کیے گیے آپریشن میں گیس چوروں کے خلاف کارروائی کا بھی اعلان کیا گیا تھا تاہم ترجمان ایف آئی اے کے مطابق اس وقت پہلی ترجیح بجلی چوروں کے خلاف کارروائی ہے۔ گیس کمپنیوں کی جانب سے چوروں کی نشاہدہی پر ایف آئی اے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کارروائی کرے گی۔ایف آئی اے پہلے ہی بہت سارے معاملات منی لانڈرنگ، سائبر کرائم، حوالہ ہنڈی، انسانی سمگلنگ وغیرہ پر کام کر رہی ہے اور حکام کئی مرتبہ وسائل کم اور مسائل زیادہ ہونے کی نشاندہی کر چکے ہیں۔کچھ طبقات کا ےہ بھی کہنا ہے کہ بجلی چوری روکنے کے لیے ایک بار پھر ٹیمیں تشکیل دینا محض رسمی کارروائی ہے۔ اس سے بجلی کا شعبہ بہتری کی طرف نہیں جا سکتا کیونکہ بجلی چوری میں بھی کچھ سرکاری عناصر ملوث ہوتے ہیں۔اس مسئلے کے حل کے لیے چھاپے مارنے سے زیادہ ضروری ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔بجلی شعبے کا ترسیلی نظام بہتر بنا کر اور میرٹ پر قابل افسران تعینات کر کے ہی بجلی چوری اور نقصانات کم کیے جا سکتے ہیں۔ بجلی چوری روکنے کے لیے تقیسم کار کمپنیوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ بجلی تقیسم کار کمپنیاں ٹیکنالوجی اور گڈ گورننس کے ذریعے بجلی نقصانات کو تو کم کر سکتی ہیں تاہم بجلی چوروں کو شکنجے میں لانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تعاون درکار ہوتا ہے۔ہم سمجھتے ہےں کہ بجلی چوری کی روک تھام ازحد ضروری ہے اس کے لےے کسی سمجھوتے سے کام نہےں لےا جانا چاہےے کےونکہ چوری کے نتائج عام عوام کو بھگتنے پڑتے ہےں۔