برطانیہ میں اردو ادب کے معمار

فیضان عارف 


برطانیہ کو اس لیے اردو کا تیسرا بڑا مرکز کہا جاتا ہے کہ یہاں اردو کے اہل قلم نے ناسازگار حالات کے باوجود ادبی سرمائے میں اضافہ کیا۔ نثر نگاری اور شاعری کے ایسے چراغ روشن کیے جن کی تابناکی تادیر قائم رہے گی۔ نثر نگاروں میں عبداللہ حسین، قیصر تمکین، ساقی فاروقی،رضا علی عابدی، مقصود الہی شیخ، محمود ہاشمی،شاہدہ احمد، محسنہ جیلانی،صفیہ صدیقی، فیروز مکرجی،نجمہ عثمان،فیروزہ جعفر،جتندر بلو،بانو ارشد،آصف جیلانی،جمشید مرزا،ڈاکٹر سعید اختر درانی، مہ پارہ صفدر،جاوید اختر چوہدری، یعقوب نظامی،شریف بقا اور دیگر کئی ادیبوں نے گراں قدر تخلیقی اور تحقیقی کام کیا۔ اسی طرح سکاٹ لینڈ سے ویلز تک پورے یونائیٹڈ کنگڈم میں اردو کے سینکڑوں شاعر اور شاعرات ایسے ہیں جنہوں نے دیارِ غیر میں اردو شاعری کے باب میں اہم اضافے کیے اور ایک اجنبی ملک میں سخن وری کو اعتبار بخشا۔ ایسے سخن وروں میں ساقی فاروقی اور اکبر حیدر آبادی سے لے کر منان قدیر منان اور سہیل ضرار خلش کے نام شامل ہیں۔ جن شعرا کرام نے مختلف ادوار میں برطانیہ کے ادبی ماحول کو متحرک رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور اپنی شاعری سے سخن فہم لوگوں کو متاثر کیا ان میں بلبل کاشمیری، غلام نبی حکیم، عاشور کاظمی، باقر نقوی عطا جالندھری، سرمد بخاری، انجم خیالی، خالد یوسف، بخش لائلپوری، منصور معجز، اختر ضیائی، اطہر راز،جوہر ظاہری، سلطان الحسن فاروقی، رحمت قرنی،جمیل مدنی، موج فرازی، سوہن راہی، اعجاز احمد اعجاز،جاوید اختر بیدی،حفیظ جوہر اورعامی کاشمیری کے علاہ ڈاکٹر مختار الدین ناظر فاروقی،صفی حسن، صفدر ہمدانی، عقیل دانش، عابد ودود، جاوید اقبال ستار،صباحت عاصم واسطی، صابر رضا، باصر کاظمی، مصطفی شہاب،عدیل صدیقی، رشید منظر، اقبال نوید، یشب تمنا، ڈاکٹر ثاقب ندیم، ارشد لطیف، سلیم نگار، شہباز خواجہ اور اشتیاق زین کے علاہ اور بہت سے نام شامل ہیں۔ برطانیہ کے مختلف شہروں میں جن شاعرات نے اپنے سخن کا جادو جگائے رکھا ان میں نور جہاں نوری،نجمہ خان اور طاہرہ صفی کے علاوہ یاسمین حبیب، فرزانہ خان نیناں، راحت زاہد،عائشہ غازی، صدیقہ شبنم، پاکیزہ بیگ، شبانہ یوسف، نغمانہ کنول، غزل انصاری، سائرہ بتول،رضیہ اسماعیل، گلناز کوثر، ڈاکٹر نگہت افتخار اور تسنیم حسن کے نام بہت نمایاں ہیں۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران برطانیہ میں تخلیق ہونے والے اردو ادب کا جائزہ لیا جائے تو اس معاملے میں نثر کا شعبہ زیادہ معتبر نظر آتا ہے۔ پروفیسر رالف رسل اور ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز نے

 اردو کے کلاسیکی شاعروں کے کلام کے جو انگریزی تراجم کیے یا محمود ہاشمی اور رضا علی عابدی نے اردو سیکھنے والے بچوں کے لیے جو دلچسپ قاعدے اور کہانیاں لکھیں انہیں کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یونائیٹڈ کنگڈم میں ایک طویل مدت سے اردو روزنامہ جنگ شائع ہو رہا ہے جو اردو کے قارئین کی سماجی، سیاسی، ثقافتی اور ادبی ضرورتوں کو پورا کرتا رہا ہے۔ اسی طرح لندن سے ایک زمانے میں روزنامہ آواز اور ہفت روزہ مشرق بھی شائع ہوتے رہے اور یہاں سے روزنامہ اوصاف کا لندن ایڈیشن جبکہ مانچسٹر سے محبوب الہی بٹ کی ادارت میں سپیکر بھی باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ اردو اخبارات کے علاہ مختلف شہروں سے اردو کے جرائد بھی شائع ہوتے رہے اور کئی ادبی رسالوں کی اشاعت نے بھی باذوق لوگوں کو معیاری ادب پڑھنے کا موقع فراہم کیا جن میں لندن سے اقبال مرزا کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے صدا کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ برطانیہ میں اردو کی خواتین افسانہ نگاروں کی تخلیقات پر مبنی ایک اہم کتاب 90 کی دہائی میں ڈاکٹر گردیال سنگھ رائے نے ترتیب دی تھی۔ اس کتاب میں یو کے میں مقیم اردو کی 13 خواتین افسانہ نگاروں کی کہانیوں کو یکجا کیا گیا تھا جن میں شاہدہ احمد، عطیہ خان، امیر زہرا حسین، بانو ارشد، ڈاکٹر فیروز مکرجی، فیروزہ جعفر، محسنہ جیلانی،نجمہ عثمان،پروین مرزا،ستارہ لطیف خانم،صفیہ صدیقی،صبیحہ علوی اور طلعت سلیم کے نام شامل ہیں۔برطانیہ میں تخلیق ہونے والی اردو نثر کی جن کتابوں کی بھارت اور پاکستان میں بھی بہت پذیرائی ہوئی ان میں رضا علی عابدی کی جرنیلی سڑک، شیر دریا، ساقی فاروقی کی کتاب ہدایت نامہ شاعر اور آپ بیتی پاپ بیتی،محمود ہاشمی کی رپورتاژ کشمیر اداس ہے، عبداللہ حسین کا ناول نادار لوگ، ڈاکٹر سعید اختر درانی کی تحقیقی کتاب نوادر اقبال یورپ میں، قیصر تمکین کے مضامین کا مجموعہ تنقید کی موت اور ایک کہانی گنگا جمنی، جتندر بلو کا ناول وشواس گھات، شاہدہ احمد کا افسانی مجموعہ بھنور میں چراغ، یعقوب نظامی کی معلوماتی کتاب پاکستان سے انگلستان تک اور مہ پارہ صفدر کی خود نوشت میرا زمانہ میری کہانی عابد بیگ کی کتاب قومی ترانہ: اردو یا فارسی اور علی جعفر زیدی کی تصنیف باہر جنگل اندر آگ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ برطانیہ میں آباد مختلف شعبوں کی نمایاں پاکستانی شخصیات کے طویل انٹرویوز پر مبنی کتاب کامیاب لوگ بھی چند برس پہلے شائع ہوئی جس کی اوورسیز پاکستانی کمیونٹی میں بہت پذیرائی کی گئی۔برطانیہ کے چیدہ چیدہ شعرائے کرام کے کلام کا انتخاب چند برس پہلے نوجوان شاعرمنان قدیر منان نے سخن واران کے نام سے یکجا کیا جبکہ 1980 کی دہائی میں شعرائے لندن کے نام سے بھی ایک کتاب شائع ہوئی تھی۔شعری مجموعوں کی اشاعت کے سلسلے میں دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پورے برطانیہ میں آباد اردو کا کوئی باقاعدہ شاعر یا شاعرہ ایسی نہیں ہے جس کی کتاب شائع نہ ہوئی ہو بلکہ کئی اوورسیز شاعروں کے تو بہت سے مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ صرف یہی نہیں شاعر ہونے کے بہت سے دعویدار ایسے بھی ہیں جن کے مجموعے پہلے چھپ چکے ہیں لیکن وہ لکھنے کے بنیادی تقاضوں سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ اردو زبان و ادب کے بہت سے خیر خواہوں کا خیال ہے کہ مشاعروں اور ادبی تقریبات کے انعقاد سے اردو زبان کو فروغ ملتا ہے۔ معلوم نہیں یہ خیال کس حد تک درست ہے البتہ لندن، مانچسٹر، بریڈ فورڈ، برمنگھم، گلاسگو، ایڈنبرا اور دیگر کئی شہروں میں گزشتہ چالےس برسوں سے مشاعرے اور ادبی محفلیں منعقد ہو رہی ہیں۔ برطانیہ اور خاص طور پر لندن میں ان دنوں ادبی سرگرمیاں اور گہما گہمی عروج پر تھی جب یہاں بی سی سی آئی یعنی بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل کے تحت کام کرنے والا ادبی ادارہ اردو مرکز بہت فعال تھا اور نامور شاعر اور شاندار منتظم افتخار عارف اس کے سربراہ تھے۔ یہ سن 80 کی دہائی کا وہ دور تھا جب پاکستان میں مارشل لا لگا ہوا تھا اور اردو کے کئی نامور اہل قلم جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ بہت سے شاعر یورپ اور لندن میں پناہ گزین تھے۔ اردو مرکز نے اس زمانے میں نہ صرف شاعروں اور ادیبوں کی پذیرائی کی بلکہ مارشل لا کے ظلم اور جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے لکھنے والوں کو ایک مو ثر پلیٹ فارم فراہم کیا۔پردیس اور خاص طور پر یو کے میں اردو زبان کی بقا اور فروغ میں بھارت کی ہندی اردو فلموں کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان فلموں کی وجہ سے اردو زبان کے گیت پوری دنیا میں 

ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ آج بھی اگر لندن یا کسی اور شہر میں نئی ہندی فلم کی نمائش ہوتی ہے تو انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال یا موریشیس سے تعلق رکھنے والے ایسے نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی فلم دیکھنے آتی ہے جو نہ اردو زبان لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بول سکتے ہیں لیکن ہندی فلموں میں استعمال ہونے والی اردو زبان کو سمجھتے اور اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ یہ بحث بہت فرسودہ ہو چکی ہے کہ برطانیہ میں اردو زبان زندہ رہے گی یا نہیں؟ 1996 میں روزنامہ جنگ لندن میں ایک بہت بڑے مذاکرے کا اہتمام کیا گیا تھا جس کا موضوع اردو زبان کا مستقبل تھا۔ مذاکرے میں پورے برطانیہ سے اردو کے منتخب اہل قلم دانشوروں اور اساتذہ کو مدعو کیا گیا تھا۔ کئی شرکا نے پیش گوئی کی تھی کہ 2026 تک برطانیہ سے اردو زبان ختم ہو جائے گی لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ پورے یونائیٹڈکنگڈم اور یورپ میں آج بھی اردو ایک بڑی زبان کے طور پر زندہ ہے۔ بالخصوص برطانیہ میں اردو کا شمار پہلی بڑی پانچ زبانوں میں ہوتا ہے اور یہاں کے سکولوں اور کالجوں میں اردو کو ایک جدید زبان کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہر سال برطانوی تعلیمی اداروں کے سینکڑوں بچے اردو جی سی ایس اور اے لیول کا امتحان دیتے اور کامیاب ہوتے ہیں۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ زبان اس وقت تک نہیں مر سکتی جب تک برطانیہ میں مقیم والدین اور بچوں کے درمیان رابطے کی زبان اردو رہے گی۔زبان اور تہذیب و ثقافت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ برطانیہ میں پیدا ہونے یا پروان چڑھنے والے بچے جب تک اردو بولتے، سیکھتے اور سمجھتے رہیں گے وہ اپنی تہذیب و ثقافت سے بھی جڑے رہیں گے۔ ویسے بھی برطانیہ ایک ملٹی کلچرل ملک ہے۔ یہاں ہر طرح کی ثقافت اور زبان کی پذیرائی کی جاتی ہے بلکہ اس کے فروغ، بقا اور ارتقا کے لیے کی جانے والی کوششوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ہمیں برطانیہ کے ان اردو اہل قلم کی کوششوں، ہمت اور حوصلے کی داد دینی چاہیے جنہوں نے مشکل اور اجنبی ماحول میں نہ صرف اردو زبان کی آبیاری کی بلکہ ایسا اچھا اردو ادب تخلیق کیا جس کی وجہ سے برطانیہ اور خاص طور پر لندن کو اردو کا تیسرا بڑا مرکز کہا جانے لگا۔برطانیہ میں اردو ادب کے معماروں اور تخلیق کاروں کے کام کو یکجا کرنے کے لیے سنجیدہ تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس سرسری جائزے میں اردو کے جن شاعروں اور ادیبوں کے نام اور کام کا حوالہ دیا گیا ہے وہ مکمل نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں مزید تحقیق ہجرتی ادب کی اہمیت کو اجاگر کرے گی جو ایک اہم ادبی تقاضا بھی ہے۔