آل لائن ڈیپارٹمنٹس ایمپلائز ایسوسی ایشن کا احتجاج

آل لائن ڈیپارٹمنٹس ایمپلائز ایسوسی ایشن کی کال پر گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں ملازمین نے ہڑتال شروع کردی ہے جس سے سرکاری امور ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں ،ہڑتال کے پہلے روز تمام اضلاع میں ملازمین نے مطالبات کے حق میں احتجاجی مظاہرے کئے  اور ڈپٹی کمشنرآفسز کے سامنے دھرنے دیئے جبکہ گلگت میں وزیراعلی ہائوس کے سامنے دھرنا دیا گیا ہے، ملازمین نے اعلان کیا کہ وزیراعلی ہائوس کے سامنے دھرنا مطالبات پورے ہونے تک جاری رہے گا ،گلگت بلتستان میں آل لائن ڈیپارٹمنٹس ایمپلائز ایسوسی کی کال پر25محکموں کے 52ہزار ملازمین نے چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد کے لئے ہڑتال کردی ،دھرنے کے شرکا کا کہنا ہے کہ جب تک آل لائن محکموں کے ملازمین کو ڈی آر اے الائونس اوور ٹائم سکیل پرموشن سمیت چھ نکاتی مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے دھرنا جاری رہیگا اور اگرحکومت نے چارٹر آف ڈیمانڈپر عملدرآمد نہ کیا تو اگلے36گھنٹوں میں تمام سرکاری دفاتر کی تالہ بندی کرتے ہوئے بجلی اور پانی کی سپلائی بند کردی جائے گی ،  پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں کسی کے ساتھ ناانصافی ہونے نہیں دینگے صوبائی حکومت فوری طور پر ملازمین کے مسائل کو حل کرے اور اس کے مطالبات کو مان لے۔گلگت بلتستان میں صوبائی حکومت ناکام ہوتی جارہی ہے کچھ مہینوں میں ہی حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے آ گئی ہے۔  ملازمین کتنے مہینوں سے میڈیا کے ذریعے  اپنے مسائل سے حکومت کو آگاہ کر رہے ہیں مگر حکومت ملازمین کے مسائل کو کیو ںحل نہیں کر رہی ۔ دھرنے کے شرکا کے مطابق حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ تمام ملازمین کو  25فیصد الائونس دیا جائیگا اور الائونس مئی کی تنخواہوں میں شامل ہوگا لیکن ایسا نہیں کیا گیا پورے پاکستان میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں برابر ہیں لیکن گلگت بلتستان میں ملازمین سے سوتیلی ماں کا سلوک ہورہا ہے حکومت ملازمین سے کئے گئے وعدے پورے کرے۔ہمارے ہاں احتجاج اور ہڑتالیں آئے روز کا معمول بن چکی ہیں' دفاتر کی تالہ بندی کر دی جاتی ہے' سڑکیں بلاک کی جاتی ہیں' دھرنے دیے جاتے ہیں۔اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جب تک احتجاج نہ کیا جائے اور اس میں شدت نہ لائی جائے حکام بالا ٹس سے مس نہیں ہوتے'سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے وعدے ہی کیوں کیے جاتے ہیں جنہیں پورا کرنے میں تاخیر سے کام لیا جاتا ہے۔ جب احتجاج کے بعد بھی مطالبات ماننے ہیں تو پہلے ہی مان لیے جائیں تاکہ ملک و قوم کا نقصان نہ ہو لیکن یہ رویے ہمارے ہاں پنپ نہیں سکے۔ عموما ملازمین کافی انتظار کے بعد احتجاج پر مجبور ہوتے ہیں ۔اب تو ہڑتال اور احتجاج ایک کلچر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سرکاری ملازمین اپنے مطالبات کے حق میں آئے روز سڑکوں پر ہوتے ہیں جس سے کار سرکار متاثر ہوتا اور سڑکیں بند ہونے پر عوام عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہڑتال اور مظاہروں کی نوبت ہی نہیں آنی چاہئے۔ ملازم معاملات حکومت کے ساتھ بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر حکومت بات نہیں سنتی تو عدالتیں موجود ہیں ان سے رجوع کیا جائے۔ وکلاء کی ہڑتالوں کے بارے میں کچھ عرصہ قبل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ اس سے عام طور پر غریب سائلین متاثر ہوتے ہیں۔وکالت ایک معزز پیشہ ہے اور وکلا معاشرے کا سب سے سنجیدہ اور دانشور طبقہ ہیں وہ معاملے کی نوعیت کا اچھی طرح ادراک کریں لیکن ہڑتالیں وکلا تک ہی محدود نہیں اسپتالوں میں ڈاکٹر، تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور اسی طرح دوسرے لازمی پیشوں سے متعلق کارکن اپنی شکایات کے ازالے کیلئے ٹریڈ یونین کے تقاضوں سے ماوراء ہڑتالیں کرتے رہتے ہیں عام آدمی کے مفاد میں یہ سلسلہ بھی رکنا چاہئے۔احتجاج کا کلچر کسی ایک شعبے اور کسی ایک علاقے تک محدود نہیں اور درجہ بدرجہ ہر جگہ موجود ہے، حتی کہ بعض سیاست دان بھی اسلام آباد کو بند کرنا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں، ان کے خیال میں موجودہ حکمران ان کے سیاسی عزائم کی راہ میں حائل ہیں اِس لئے انہیں ہٹانے کے لئے اسلام آباد بند کرنا ان کا حق ہے، وہ ایئر پورٹ، میٹرو ٹرین اور گاڑیاں بھی بند کرنا چاہتے ہیں اور لاکھوں لوگوں کے راستے بھی، گویا احتجاجیوں کا خیال ہوتا ہے کہ سارے حقوق ان کے نام الاٹ ہوگئے اور باقی لاکھوں لوگوں کے حقوق سلب کرنے کا لائسنس انہیں مل گیا۔ بنیادی حقوق کی یہ تشریح دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں قبول نہیں ہوتی، امریکہ جیسے ملک میں جہاں اتنے زیادہ بنیادی حقوق ہیں جن کا پاکستان جیسے ممالک میں کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا، وہاں پولیس کا اکلوتا سپاہی اگر کسی سڑک پر زرد ٹیپ لگا کر اس سڑک کو ٹریفک کے لئے ممنوع کر دے تو اس کی خلاف ورزی کا کوئی تصور پورے امریکہ میں موجود نہیں۔قانون پر عملدرآمد کرانا بنیادی طور پر تو حکومت کی ذمہ داری ہے،لیکن اگر حکومتی ادارے اِس سلسلے میں صرفِ نظر کریں تو پھر لوگ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔ دنیا میں وہی معاشرے سربلند ہوتے ہیں جو قانون کی بالادستی کا احترام و اہتمام کرتے ہیں۔احتجاج کوئی شجرِ ممنوعہ نہیں۔ایک جمہوری معاشرے میں، جہاں عدلیہ آزاد ہو، میڈیا آزاد ہو آزادی اظہارِ رائے کو بطور قدر مانا گیا ہو، وہاں احتجاج کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ احتجاج اس لیے ہوتا ہے کہ بات کی شنوائی نہ ہو۔ جہاں یہ مسئلہ نہ ہو وہاں احتجاج کا کوئی جواز نہیں بنتا؛ تاہم اس کے باوجود احتجاج لوگوں کا جمہوری حق ہے لیکن اس کے کچھ آداب بھی ہونے چاہئیں۔ پاکستان کا آئین نقل و حرکت کو ایک شہری کے بنیادی حقوق میں شامل کرتا ہے۔ وہ احتجاج کس طرح آئینی ہو سکتا ہے جو ایک شہری کو اس بنیادی حق سے محروم کر دے؟احتجاج کے لیے جلسہ کیا جا سکتا۔ کم و بیش ہر شہر میں اس کے لیے مقامات مخصوص ہیں۔  دھرنے کا معاملہ دوسرا ہے۔ یہ دراصل زندگی کو مفلوج کر نے کا نام ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ کسی حکومتی نظم کو معطل کر دیا جائے۔ یہ کامیاب بھی وہاں ہوتا ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو جائیں کہ عملا امورِ ریاست سرانجام دینا محال ہو جائے۔ محض چند سو افراد جمع کرنے سے عوام کو چند دن اذیت پہنچائی جا سکتی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ دھرنے اور جلسے جلوس میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ جلسہ یا جلوس بالعموم چند گھنٹوں کی سرگرمی ہے۔ دھرنا تو کئی دن کی درد سری ہے۔جس ملک میں آئے دن جلسے جلوس ہوتے ہوں وہاں زندگی معمول کے مطابق نہیں چل سکتی۔ ٹریفک دنیا بھر میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کسی وجہ سے چند منٹ کے لیے ٹریفک رک جائے تو اسے دوبارہ بحال ہونے میں گھنٹوں لگتے ہیں۔ اس میں وقت اور انسانی جان جیسی قیمتی چیزوں ضائع ہو جاتی ہیں۔احتجاج کا یہ کلچر ہمیں کہاں لے جا رہا ہے؟ یہ سوال اس وقت سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے۔ مطالبے اور احتجاج کی نفسیات ایک قوم کی قوتِ عمل کو سلب کر لیتی اور اسے نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔ مذہب انسان کو سماجی سطح پر مہذب بناتا ہے۔ جمہوریت اسے سیاسی سطح پر مہذب بناتی ہے۔ مذہب کی تعلیمات میں کہیں احتجاج کا گزر نہیں۔ مذہب میں صبر اور حکمت ہے۔ احتجاج سیاسی لغت کا لفظ ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ جن لوگوں نے اپنے سیاسی تصورات کو مذہبی لبادہ پہنایا، انہوں نے احتجاج کو زبردستی مذہبی لغت کا حصہ بنایا۔ ہمارے مذہبی اکابر اس لفظ سے ناآشنا تھے۔یہی معاملہ جمہوریت کا بھی ہے۔ وہ اختلاف رائے کو آداب کے سانچے میں ڈھالتی ہے۔ وہ دوسروں کی رائے کے احترام کا درس دیتی ہے۔ بد کلامی اور بد تہذیبی کا تو جمہوریت سے دور کا واسطہ نہیں۔ آج مذہب اور سیاست دونوں  جذبات کے استحصال سے متعلق ہو گئے ہیں۔ مذہبی جذبات کا استحصال ہے یا پھر سیاسی جذبات کا۔ اس کے نتیجے میں سماج کی چولیں ہل گئی ہیں۔فکری پراگندگی کا دائرہ انتشارِ عمل تک پھیل چکا۔ المیہ یہ ہے کہ سب اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اپنا مقدمہ شائستگی اور دلیل کے ساتھ پیش کرنا چاہیے یہ حق انہیں قانون کے دائرے میں استعمال کرنا چاہیے۔حکام بالا پر بھی لازم ہے کہ وہ ملازمین کے جائز مطالبات کی منظوری میں تاخیر سے کام نہ لیں احتجاجی کلچر ہمارے لیے تباہ کن ہے۔احتجاج کا اپنا حق استعمال کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دوسرے کے حقوق مجروح کیے جائیں۔جب دوسروں کے حقوق پر زد پڑتی ہے تو احتجاج کرنے والے لوگوں کی ہمدردیاں کھو دیتے ہیں'عقلمندی یہی ہے کہ مطالبات کی تکمیل کے وہ راستے اختیار کیے جائیں جن سے معمولات زندگی متاثر نہ ہوں۔