مریم نواز کا پہلا قدم۔۔۔۔

 رانا فیضان علی

حکومتوں کی کارکردگی کےلئے عموما ان کے پہلے 100 دن کی کارکردگی کو جانچ پرکھ کر ےہ فےصلہ کےا جاتا ہے کہ اس حکومت کا دورانےہ کےسا ہو گا۔ اسی لےے زےادہ تر حکومتےں ےہ سعی کرتی ہےں کہ ابتدائی سو دن میں اےسے اقدامات کرےں جن سے عوام خوش اور اپوزےشن کا منہ بند ہو سکے۔عام طور پر حکومتےں محض زبانی دعوﺅں‘ وعدوں اور نعروں کے سہارے پانچ سال گزارنے کی کوشش کرتی ہےں اور ان وعدوں کو پس پشت ڈال دےا جاتا ہے جو الےکشن مہم کے دوران عوام سے ووٹ لےنے کےلئے کےے جاتے ہےں لےکن جونہی اقتدار کا ہما ان کے سر پر بےٹھتا ہے تو وہ اس سنگھاسن پر بےٹھتے ہی عوام کو ےوں فراموش کر دےتی ہےں گوےا ان کا عوام سے کوئی رشتہ ناتا ہی نہ ہو ‘کرسی پر براجمان ہوتے ہی عوام اور حکمرانوں میں فاصلے اس قدر بڑھ جاتے ہےں کہ ان کا رابطہ آئندہ پانچ سال تک ہونا ناممکنات میں سے ہوتا ہے۔ درحقےقت ہمارا سےاسی کلچر عوامی خدمت سے عبارت ہی نہےں ہے‘ سےاستدانوں کی اکثرےت عوام کی بجائے اپنی خدمت پر ےقےن رکھتی ہے ےہی وجہ ہے کہ اسمبلےوں کی ےاترا کرنے والے اکثر اراکےن جب اگلے الےکشن کےلئے نکلتے ہےں تو سابقہ الےکشن میں قرض اٹھا کر مہم چلانے والوں کے بےنک بےلنس لبالب بھرے ہوتے ہےں کےونکہ ان کا مطمح نظر صرف اور صرف اپنی حےثےت‘ وقعت اور قےمت ہوتی ہے‘ےہ قےمت انہےں کہےں بھی ملے اسی در پر سجدہ رےز ہو جاتے ہےں‘خزاں رسےدہ پتوں کی مانند اڑتے گرتے رہتے ہےں‘ فصلی بٹےروں کی طرح اےک سے دوسری پارٹی کی منڈےر پر جا بےٹھتے ہےں اور پھر اس کی تعرےف میں رطب اللسان رہتے ہوئے اسے ملکی ترقی کا ضامن قرار دےتے ہےں۔ تاہم بعض سےاستدان حقےقی معنوں میں عوامی خدمت پر ےقےن رکھتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود کو اپنی سےاست کا محور و مرکز بنائے ہوئے ہےں ۔عوامی مشکلات و تکالےف کا ازالہ ان کا اےجنڈا ہوتا ہے‘ عوام اےسے ہی حکمرانوں کو پسند کرتے ہےں ۔پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس کی وزارت اعلی کے منصب پر مختلف شخصےات فائز رہی ہےں ‘ان میں سے بعض آج بھی عوام کے دلوں میں بستی ہےں اور بعض کے ادوار عوام کےلئے سوہان روح ثابت ہوئے۔ماضی کے جھروکوں میں جھانکے بغےر ہم حال کی صورتحال پر اےک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہےں۔ تین بار کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف صوبہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیرِ اعلی کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہےں۔پنجاب ملک کا خوشحال ترین، گنجان آباد اور سیاسی طور پر اہم ترین خطہ ہے۔جو بارہ کروڑ سے زیادہ نفوس پر مشتمل پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے۔پنجاب میں ملک کا سیاسی درجہ حرارت ہمےشہ عروج پر رہتا ہے۔ ےہاں پارلیمنٹ کی 326 نشستوں میںسے173 نشستیں ہیں ‘یہ ملک کی سیاسی، فوجی اور صنعتی اشرافیہ کا مرکز ہے۔ پچاس سالہ مرےم نواز شرےف اپنے والد کی پاکستان مسلم لیگ نون میں ایک بااثر کردار ادا کرتی رہی ہیں ان کے والد مریم کو اپنی سیاسی وارث کے طور پر سامنے لائے ہےں ۔ وہ پارٹی کی سینئر نائب صدر ہیں۔مریم نواز شریف وہ سےاستدان ہےں جنہوں نے سیاست کے گرم و سرد میں مسلم لیگ نون کو مستحکم رکھا۔ انہوں نے پارٹی کی تعمےر نو کی اور اب پنجاب کی تعمیرِ نو میں مصروف ہےں۔سیاست میں آنے سے قبل مریم نواز شریف خاندان کی فلاحی تنظیموں سے وابستہ تھیں۔ شریف ٹرسٹ، شریف میڈیکل سٹی اور شریف ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ کی چیئرپرسن کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں۔ انہوں نے 2012 میں باضابطہ طور پر سیاست میں اس وقت شمولیت اختیار کی جب انہیں 2013 کے عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم کا انچارج بنایا گیا جس میں پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور ان کے والد تیسری بار وزیرِ اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔انتخابات کے بعد انہیں وزیرِ اعظم یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن مقرر کیا گیا‘ 2014 میں وہ اس عہدے سے مستعفی ہو گئےں ۔آپ2017 میں سیاسی طور پر اس وقت زیادہ سرگرم ہوئیں جب ان کے والد کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے نااہل قرار دیا گیا انہوں نے لاہور کے حلقہ این اے 120 میں نواز شریف کی خالی کردہ نشست پر ضمنی انتخابات کے دوران اپنی والدہ کلثوم نواز کےلئے مہم چلائی۔مریم اپنے والد کی برطانیہ میں چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی کے دوران سیاست میں فعال کردار ادا کرتی رہےں ۔انہوں نے ملک بھر میں حکومت مخالف اہم ریلیوں کی قیادت کی اور اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کی شدید مذمت کرتے ہوئے ےہ باور کراےا کہ پی ٹی آئی ‘ فوج اور عدلیہ نے ان کے والد کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے ہٹانے کےلئے تمام ناروا حربے اپنائے ۔آٹھ فروری کے عام انتخابات میں انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست این اے 119 لاہور تےن اور صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 159 لاہورکےلئے انتخاب لڑا۔ یہ ان کا پہلا عام انتخاب تھا۔ انہوں نے دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔پنجاب میں قیامِ پاکستان کے سات عشروں سے زیادہ عرصے کے بعد کسی خاتون کو وزےر اعلی منتخب کےا گےا ہے۔حےرت انگےز بات ےہ ہے کہ خاتون ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی حکومت کے پہلے سو دن میں جس کارکردگی کا مظاہرہ کےا اس کی نہ صرف اندورن ملک بلکہ بےرون ملک بھی تحسےن کی جا رہی ہے ۔عالمی مےڈےا بھی ان کی کارکردگی کو بےان کر رہا ہے‘ وہ انتھک محنت کرتے ہوئے صوبے کی عوام کو زےادہ سے زےادہ سہولےات فراہم کرنے کےلئے کوشاں ہےں ۔خاتون ہونے کے باوجود ان کی کارکردگی کئی مرد وزراءاعلی سے کہےں بہتر ہے‘ عوام مطمئن ہےں‘ مہنگائی پرکنٹرول پاےا جا رہا ہے ‘ صحت‘ تعلےم پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے‘ترقےاتی کاموں کی رفتار کو تےز کر دےا گےا ہے‘انفراسٹرکچر کی بحالی میں ان کی کاوشےں محتاج بےان نہےں۔ ان کی حکومت کے ابتدائی سو دنوں سے باآسانی ےہ اندازہ لگاےا جا سکتا ہے کہ وہ کےا چاہتی ہےں اور ان کی ترجےحات کےا ہےں ؟اپنی پارہ صفت طبےعت کی بدولت انہوں نے ان اےام میں ہمہ وقت متحرک اور سرگرم رہ کر اداروں کے ہنگامی دورے کےے اور ان کی کارکردگی کو جانچتے ہوئے انہےں بہتری لانے کے الٹی مےٹم دےنے کے ساتھ ساتھ معاملات کو کسی تاخےر کے بغےر درست کرنے کے احکامات جاری کےے۔اتنے مختصر سے عرصے میں انہوں نے پنتالےس منصوبے شروع کرائے۔ مہنگائی، بے روزگاری، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، امنِ عامہ اور نوجوانوں کے مسائل ان کی ترجےح اول قرار پائے۔بےس روپے میں ملنے والی روٹی کے نرخ چودہ روپے کرنا ان کا بے مثل کارنامہ ہے ۔آٹے ،دالوں، چینی، گوشت، سبزیوں اور خوردنی تیل سمیت متعدد اشیا کی قیمتوں میں کمی کے لےے انہوں نے خاص طور پر دلچسپی لی جس سے عوام کو رےلےف ملا۔ ان کی جےبوں پر پڑنے والے بوجھ میں کمی واقع ہوئی‘ ٹےکس فری بجٹ بھی ان کا اہم کارنامہ ہے ۔انہوں نے رمضان رےلف پےکج کے لےے تےس ارب جاری کرائے جس سے پےنسٹھ لاکھ گھرانے اور ساڑھے تےن کروڑ افراد مستفےد ہوئے۔ ہتک عزت بل کی منظوری ‘ورچوئل تھانے‘ ڈے کےئر سنٹر‘خواتےن کے لےے محفوظ ہاسٹل‘چےف منسٹر پنک گےمز کا انعقاد‘ پنک سکوٹےز‘ پنک بٹنز کی تنصےب ‘صاف ستھرا پنجاب پروگرام‘فیلڈ ہسپتال، امراض قلب کے مریضوں کو گھر گھر ادویات کی فراہمی ، ڈائلیسز اور کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات دینے اور کسان کارڈ متعارف کرا کر انہوں نے ہر طبقہ زندگی کو آسانےاں فراہم کرنے کی کوشش کی ۔اس پس منظر میں ےہ کہا جا سکتا ہے کہ خاتون صرف گھرےلو ذمہ دارےاں ہی بخوبی ادا نہےں کر سکتی اگر اسے موقع ملے اور وہ باصلاحےت ہونے کے ساتھ ساتھ بھرپور وژن کی حامل بھی ہو تو مملکت کا کاروبار چلانا اس کےلئے کچھ مشکل نہےں۔ ان کی حکومت کے پہلے سو دن بلاشبہ قابل ستائش ہےں اور ےہ سو دن ان کی حکومت کی حقےقی سمت اور مستقبل کے اقدامات کو ظاہر کرتے ہےں۔ان دنوں کو پہلا قدم قرار دےا جا سکتا ہے اور پہلا قدم ہی طوےل مسافتوں کو طے کرنے کا موجب ہوتا ہے ۔