وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ایپکس کمیٹی میں آپریشن کا ذکر نہیں تھا،معاملے پر پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے، ہم پاکستان میں امن کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔پیرکے روز راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم بنے تو دہشتگردی میں کمی آئی تھی۔انہوں نے بتایا کہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ایک پالیسی بتائی گئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے، ہم لوگوں نے معاشی، جانی اور مالی طور پر بہت نقصان اٹھایا ہے، آج تک ہمارے لوگوں کو وہ پیسہ نہیں ملا جو ان کو ملنا چاہیے تھا، کوئی پتا نہیں کہ جو امریکا سے پیسہ ملا وہ کہاں گیا، اس طرح کی کوئی بھی چیز کی اجازت نہیں ہوگی، اگر انہوں نے ایسا کچھ بھی کرنا ہے تو جب پلان سامنے آئے گا تو بات ہوگی لیکن فی الحال کوئی پالیسی نہیں آئی ہے۔علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بلاول نے پوری دنیا کا چکر لگایا مگر افغانستان نہیں گیا، کیوں؟ کیونکہ ان کو پرواہ ہی نہیں ہے، ان کو پاکستان کے لوگوں، سیکیورٹی اداروں کسی کی بھی پرواہ نہیں اور ہوتے ہوتے بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نقصان بڑھتا چلا جا رہا ہے، ہم نے آفر کی میٹنگ میں کہ اگر یہ افغانستان کے ساتھ کوئی پالیسی بنانا چاہتے ہیں تو ہم اس میں کردار ادا کرسکتے ہیں، مدد کرسکتے ہیں، ان چیزوں پر دیکھنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ پہلے ہوا، کیا کسی اور نے ڈالا کسی اور پر اور جس طریقے سے ایک پارٹی کے خلاف باجوہ صاحب نے اس طرح کی تبدیلی کر کے اپنے کوئی اور مقاصد حاصل کرنے تھے تو اس کا نقصان صرف پاکستان کی عوام کو ہوا ہے، باجوہ کہاں ہے آج ؟ وہ تو چلے گئے ہیں، وہ پاکستان آتے بھی نہیں ہیں اب گھوم رہے ہیں مگر ہم نے یہاں رہنا ہے اور اسے بھگتنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں امن کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔علی امین گنڈاپور نے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ بانی پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے تیار ہیں، جو ملاقات ہو گی وہ سب کے سامنے ہو گی، میرے اداروں کے ساتھ اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی، اگرمحمود اچکزئی نے کوئی بات کی ہو تو مجھے نہیں پتا لیکن ان مذاکرات کی ٹرم اور کنڈیشنز مینڈیٹ چوری کے حوالے ہوں گی اور 9 مئی کے ایک کمیشن کی تشکیل سے متعلق ہوگی، اگر کوئی قانون موجود ہے تو سزا دیں لین اگر میں نے کوئی غلطی نہیں کی تو مجھے سزا کیوں دی جائے گی؟وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ میری آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں دہشتگردی میں نمایاں کمی آئی، حکومت میں آئے تو پولیس کو ٹریننگ دی، کمانڈو بھرتی کیے، بانی پی ٹی آئی کے دورمیں دہشتگردی میں کمی آئی تاہم جب ساری توجہ پی ٹی آئی ختم کرنے پر لگی تو دہشتگردی بڑھی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت میں دہشتگردی بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئی، ہماری پالیسی ہےعوام کو اعتماد میں لیا جائے، پارلیمنٹ،عوام اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جاناچاہیے، کوئی آپریشن یاپلان سامنے آئے گا تو بیٹھ کربات کریں گے۔ پالیسی،آپریشن کے علاقے، طریقہ کار سامنے آئے گاتو بات ہوگی۔انہوں نے کہا کہ گورنر کا صوبے میں کوئی کام نہیں، وہ روز بیٹھ کے مجھ پر الزام لگاتا ہے، اس کا کام نہیں سیاسی باتیں کرنا، میں اس کو برداشت کر رہا ہوں، ہمارا تو مینڈیٹ چوری کیا گیا، ہمارا نشان لے لیا گیا، لوگوں کو توڑا گیا، یہ سب جو ہوا اس کے بعد یہ امید کرنا کہ مینڈیٹ چوروں کے ساتھ ہم بیٹھیں گے تو یہ نہیں ہوگا۔وزیر اعلی خیبرپختونخوا کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی پاکستان کے لیے بیٹھنے کو تیار ہیں، مذاکرات میں مینڈیٹ چوری پر بات ہوگی، کمیشن کی تشکیل پر بات ہوگی، کمشنر راولپنڈی کو پاگل کہہ دینے سے کام نہیں ہوگا، اس طرح تو سب ہی پاگل ہیں، یہ ایک طویل بحث ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم بجلی بناتے ہیں مگر ہمیں بجلی نہیں ملتی، جو لائن لاسز ہورہے ہیں اس کی وجہ سسٹم ہے، ہم آئی پی پیز کو کرائے کے مد میں ڈھائی سو ارب دے رہے ہیں تو یہ معاہدے کس نے کیے؟ میری بجلی چوری کو آپ کہہ رہے ہیں مگر میرا جو 1510 ارب اپنے دینا ہے وہ کب دیں گے؟ ہم نے حقوق کی جنگ دیکھنی ہے، ہم حقوق لینا جانتے ہیں، ہم آئین کے مطابق چل رہے ہیں۔علی امین گنڈاپور نے بتایا کہ پہلا سوال ہے کہ کیا آپریشن ہونا ہے؟ کیسے ہونا ہے، کہاں ہونا ہے تو پہلے ہمیں اس پر وضاحت چاہیے پھر کوئی اور بات ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ٹیکس فری بجت دیا ہے، ہم محدود وسائل میں مفت تعلیم کی طرف جارہے ہیں، ہم روزگار دیں گے لوگوں، ہمارے صوبے کے مسائل وفاق کی وجہ سے ہیں
