گلگت بلتستان میں بجٹ کی ترجیحا ت

وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کی زیر صدارت مالی سال 25-2024کے بجٹ کی منظوری کے حوالے سے صوبائی کابینہ کا دسواں اجلاس منعقد ہوا،جس میں صوبائی وزرا، وزیراعلی کے مشیروں اور صوبائی محکموں کے انتظامی سیکرٹریز نے شرکت کی ۔سیکرٹری خزانہ نے نئے مالی سال 25-2024کے بجٹ کے حوالے سے بریفنگ دی۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا کہ نئے مالی سال کا بجٹ عوام دوست بجٹ ہوگا،جس کیلئے پوری کابینہ اور متعلقہ اداروں نے عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیدیا ہے۔تعلیم،صحت،زراعت اور آئی ٹی کے شعبے کی مزید بہتری کیلئے نئے مالی سال کے بجٹ میں ان شعبہ جات کو ترجیح دی گئی ہے۔وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کے انڈومنٹ فنڈ کی مد میں دس کروڑ روپے رکھے گئے ہیں،یہ ہماری صوبائی حکومت کی صحافت دوست پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ نئے مالی سال کا بجٹ بہت باریک بینی سے ترتیب دیا گیا ہے،ہماری حکومت کو عوامی مسائل کا مکمل ادراک ہے اور پوری سنجیدگی کے ساتھ مسائل کا حل نکال رہے ہیں۔گلگت بلتستان میں پانی، بجلی اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔آمدہ سردیوں سے قبل 32.5 میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوگی،جس سے علاقے میں لوڈ شیڈنگ میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔ وزےراعلی گلگت بلتستان نے ےہ باور کراےا ہے کہ بجٹ میں تعلیم،صحت،زراعت اور آئی ٹی کے شعبوں کو ترجےح دی گئی ہے جو ےقےنا مثبت امر ہے کےونکہ ےہی شعبے نسل نو کی تعمےر‘صحت کے مسائل کا حل اور معاشی بہتری کے لےے اہم کردار ادا کر سکتے ہےں۔ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے ایٹمی ترقی کا دور ہے سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے مگر اسکولوں میں بنیادی عصری تعلیم ،ٹیکنیکل تعلیم،انجینئرنگ ،وکالت ،ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضا ہے جدید علوم تو ضروری ہیں ہی اسکے ساتھ ساتھ انسان کو انسانیت سے دوستی کےلئے اخلاقی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے اسی تعلیم کی وجہ سے زندگی میں خدا پرستی ،عبادت ،محبت خلوص،ایثار،خدمت خلق،وفاداری اور ہمدردی کے جذبات بیدار ہوتے ہیں اخلاقی تعلیم کی وجہ سے صالح اورنیک معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے تعلیم کی اولین مقصد ہمیشہ انسان کی ذہنی ،جسمانی او روحانی نشونما کرنا ہے ۔ اگر آج کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ پیشہ تدریس کو آلودہ کردیا گےا ہے محکمہ تعلیمات اور اسکول انتظامیہ اور معاشرہ کل تک حصول علم کا جس کا مقصد تھاآج نمبرات اور مارک شیٹ پر ہے آج کی تعلیم صرف اسلئے حاصل کی جاتی ہے تاکہ اچھی نوکری مل سکے یہ بات کتنی حد تک سچ ہے اسکا اندازہ آج کل کی تعلیمی ماحول سے لگایا جاسکتا ہے جیسے بچوں کا صرف امتحان میں پاس ہونے کی حد تک اسباق کا رٹنہ ہے بدقسمتی اس بات کی بھی ہے کچھ ایسے عناصر بھی تعلیم کے دشمن ہوئے ہیں جو اپنی خواہشات کی تکمیل کےلئے ہمارے تعلیمی نظم کے درمیان ایسی کشمکش کا آغاز کررکھا ہے جس نے رسوائی کے علاوہ شاید ہی کچھ عنایت کیاہو ہم جانتے ہےں کہ جب بھی مسلمان علم اور تعلیم سے دور ہوئے وہ غلام بنا لئے گئے یا پھر جب بھی انہوں نے تعلیم کے مواقعوں سے خود کو محروم کیا وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے اس لےے ہمےں تعلےم پر بھرپور توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔دنیا بھر میں صحت کے شعبے نے ترقی کی ہے لیکن پاکستان میں اس شعبے میں دست یاب انسانی وسائل کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ ہیومن ریسورس پاکستان کی ضرورت کا صرف دسواں حصہ پورا کرتے ہیں۔ کوالٹی ہیلتھ کیئر کے لئے معیاری ڈاکٹر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔صحت کے انسانی وسائل کے لحاظ سے پاکستان اقوام عالم کی فہرست میں کافی نیچے ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بطور معاشرہ حکومت کو متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ، مختلف اداروں کے ساتھ مل کر اقوام عالم کے شعبہ صحت کو سامنے رکھتے ہوئے فی الفور کام شروع کریں اور اپنے آنے والے دنوں، سالوں میں بہتری لانے کے لیے بھر پور کردار ادا کریں۔کسی بھی ریاست میں رائے عامہ کے لیے صحت کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری ہسپتالوں کی حالت شروع سے ہی نازک رہی ہے۔ گورنمنٹ کے تمام بڑے ہسپتالوں میں مریضوں کی لمبی لائنیں اس پر مہر ثبت کرتی رہیں کہ اعلی افسران اپنے ماتحتوں کو ڈھیل دے کر ائر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر بھاری بھرکم تنخواہیں لے رہے ہیں۔اسی طرح زرعی شعبہ خصوصی اہمےت کا حامل ہے ہمارے ہاں ہمہ قسم کی غذائی اشیا کی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔اس کی 75فیصد سے زاید آبادی زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔ملک کی مجموعی قومی پیداوارمیں زراعت کا حصہ اکےس فیصد ہے۔یہ شعبہ ملک کے پنتالےس فیصد لوگوں کے روزگارکا ذریعہ ہے۔زراعت کا شعبہ لوگوں کو خوراک اورصنعتوں کو خام مال کی فراہمی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ملکی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ کا پنتالےس فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے۔ اہم شعبہ ہونے کے باوجود یہ بری طرح نظر انداز ہورہا ہے جس کے نتیجہ میں اس کو گوناں گوں مسائل کا سامنا ہے۔ اگر حکومت زراعت کے شعبہ کی اہمیت کے پیشِ نظر ،اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلے اور اس کے گوناں گوں مسائل پر توجہ دے تو یہ بآسانی حل ہو سکتے ہیں۔ اس سے زراعت کا شعبہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا۔ یوں ملک خوشحال ہوگا اور اس کے عوام آسودہ ہوں گے۔ےہ زمےن قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کو اللہ تعالی نے وافر افرادی قوت سے بھی نوازا ہے جو باصلاحیت اور ہنر مند ہے۔کمی، صرف باہمت اور پر عزم قیادت کی ہے۔جو دیانتدارہو اورمخلص بھی ہو۔ اگر زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر غور کیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ ہمارے کسان مہنگائی کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں۔ کھاد نہ صرف مہنگی ہو رہی ہے بلکہ کاشت کے دنوں میں ناپید ہو جاتی ہے۔ دیگر زرعی لوازمات بھی ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگے ہو رہے ہیں۔ ہماری حکومت نے زرعی ٹیکس اور دیگر کئی صورتوں میں اشیا کو شدید مہنگا کر دیا ہے۔ غریب پہلے مہنگائی کی وجہ سے سبزی کھانے کو ترجیح دیتا تھا مگر اب وہ بھی مہنگائی کے باعث غریبوں کی پہنچ سے دور ہو رہی ہے۔ موجودہ حالات میں کسان کھیتی باڑی کے بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کر کے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو ملکی زرعت حال مکمل طور پر ٹھپ ہو جائے گی۔ زراعت خود کفالت کا بہترین ذریعہ ہے۔ زرعی شعبہ ملک کی آبادی کو خوراک مہیا کرتا ہے اور یہی پاکستان کی آبادی کی روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور پاکستان کی زرعی حکمت عملی میں خود کفالت کے اصولوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ زراعت پاکستان کے لیے ایک جڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن زرعی شعبے کا حصہ ہماری معیشت میں کم ہوتا جا رہا ہے۔اس وقت ملک کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ پانی ہے۔ پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ہمیں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پانی کی قلت کے باعث کاشتکاروں کو فصلوں کی کاشت میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے باعث ہر آنے والے سال میں یا تو فصلوں کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے یا پھر فصلوں کی کوالٹی متاثر ہو رہی ہے۔ اچھی فصل کے حصول کے لیے مناسب اور بروقت پانی بہت زیادہ ضروری ہے۔ ہمارے کاشتکار اور کسانوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہے اور انہیں جدید طریقوں سے آگاہی حاصل نہیں ہے اس لےے اس جانب بھی توجہ ضروری ہے۔ملک کو درپیش معاشی بحران سے نکالنے کا واحد حل یہ ہے کہ برآمدات بڑھائی جائیں۔ اس کیلئے جہاں برآمدات میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش مشکلات ختم کرنے کی ضرورت ہے وہیں برآمدات میں فوری اضافے کیلئے دیگر شعبوں کی استعداد کار کو بڑھانا بھی ضروری ہے۔ اس حوالے سے آئی ٹی سیکٹر نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس شعبے میں برآمدات بڑھانے کے لامحدود مواقع موجود ہیں جبکہ اس کیلئے ٹیکسٹائل انڈسٹری یا دیگر پیداواری شعبوں کی طرح بہت زیادہ سرمایہ کاری کی بھی ضرورت نہیں ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ آئی ٹی کمپنیاں اور فری لانسرز پہلے ہی بغیر کسی بہت بڑی حکومتی مدد یا تعاون کے عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ تاہم اب یہ ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ اس شعبے کو باقاعدہ ایک انڈسٹری کا درجہ دے کر اس کیلئے درکار سسٹم کو بہتر بنایا جائے۔بجٹ میں صحافےوں کے لےے انڈومنٹ فنڈ کا قےام بھی خوش کن قرار دےا جاسکتا ہے ‘حکومت کو اس شعبے کے مسائل حل کرنے کےلئے ترجےحی بنےادوں پر مزےد اقدامات کی ضرورت ہے۔