وزیراعلی کے مثبت فیصلے

وزیراعلی گلگت بلتستان خالدخورشید نے کہا ہے کہ شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اورآبی نظام کی بہتری کیلئے آئی جی اورآبپاشی کے محکمے بنائیں گے۔غیرفعال سکولوں کوفعال،تمام اضلاع، دیہات اوریونین کونسلزکی ٹائون پلاننگ کرائی جائے گی۔سالانہ ترقیاتی پروگرام عوام کے معیارزندگی کی بہتری کومدنظررکھتے ہوئے تیارکیاجائے گا۔زراعت ،لائیوسٹاک پرخصوصی توجہ دیں گے جبکہ ترقیاتی منصوبوں کے ریویجن کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔گلگت اورسکردوکی مین شاہراہوں کوپیورمشین کے ذریعے میٹل کیاجائے گا۔ حکومت پسماندہ علاقوں کی تعمیر و ترقی اور عوام کی خوشحالی پر خصوصی توجہ دے گی۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام عوام کی معیار زندگی بہتر بنانے اور بنیادی ضروریات کو مدنظررکھتے ہوئے تیار کیا جائے گا۔  انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آبی نظام کو بہتر بنانے کیلئے آئی ٹی اور ایریگیشن کے محکمے قائم جائیں گے ۔ منصوبوں کے معیار اوررفتار کویقینی بنانے کیلئے مانیٹرنگ اور ایولیویشن کے نظام کوبہتر بنایا جائے گا۔ گلگت  بلتستان میں بیشتر آبادی کا انحصار زراعت اور لائیو سٹاک پر ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے زراعت اور لائیو سٹاک پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ گڈ گورننس کو یقینی بناتے ہوئے گلگت  بلتستان کو ایک ماڈل صوبہ بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں گے۔اکیسویں صدی کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں پل پل رو نما ہورہے واقعات کو بریکنگ نیوز کے نام سے ٹیلی ویژن،کمپیوٹر،انٹرنیٹ اور سیل فون کے ذریعے برق رفتاری سے لوگوں تک پہنچایا جارہا ہے۔ پہلے اخبار کا نامہ نگار کا غذ پر نیوز لکھ کر بس یا ٹرین کی سہولت اور پوسٹ کے ذریعے نیوز روانہ کرتا تھا جس میں کافی وقت لگتا تھا۔ جب کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سہولت سے یہ کام اب ای میل کے ذریعے فوری ہونے لگا ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات کا مطالعہ اور اپنی پسند کی کسی کتاب یا کسی مواد کو اپنے ڈیسک ٹاپ اسکرین پر تلاش کرنا اور پڑھنا اب خواب نہیں رہا اور ہماری روزمرہ زندگی کی حقیقت بن گیا ہے۔یہی حال زندگی کے دیگر شعبوں کا بھی ہے۔ اور انسان انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس طوفان میں مشینی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ پہلے پڑھنا لکھنا جاننے والے کو خواندہ کہا جاتا تھا۔ آج خواندگی کا مفہوم کچھ بدل گیا ہے اور جسے کمپیوٹر استعمال کرنے نہیں آتا اسے جاہل کہا جاتا ہے۔ اب کمپیوٹر کتابت اور الیکٹرانک ذرائع سے ہم آہنگ ہوکر ترقی کرتے ہوئے ای ذرائع سے ہم تک پہنچ رہی ہے۔ کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت سے موجودہ دور میں کسی کو بھی انکار نہیں ہے۔ شعبہ ہائے حیات کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں آج کمپیوٹر کی ضرورت یا اس کا استعمال نہ ہوتا ہو۔ گھر میں مختلف گیجیٹس سے لے کر ہوائی جہاز اور راکٹ چلانے تک کمپیوٹر کی معلومات اور اس سے متعلقہ کورسیس کی اہمیت و افادیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے۔ موجودہ دور میں اسکولوں میں رزلٹ اور فیس کا نظام، بینکنگ، کمپنیوں یا کارپوریٹس کے حساب کتاب کی دیکھ ریکھ، حکومتی و نجی شعبوں میں ڈیجیٹلائزیشن کا عمل،ریلوے ، بس، ہوائی جہاز کے ٹکٹوں کی بکنگ، رقوم کی ادائیگی کے اپلیکیشن پے ٹی ایم یا پھر اپنے موبائیل فون پر اپلیکیشن کی مدد سے اولا یا اوبر کی خدمات حاصل کرنا وغیرہ یہ ساری کرامات اور کرشمے کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرہونِ منت ہیں۔ کمپیوٹر کے شعبے میں انجینئرس کی مانگ ہندوستان اور بیرونِ ملک تیزی سے بڑھتی جارہی ہے اور اس میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔ کمپیوٹر نظام کا مطالعہ ، تجزیہ ، ڈیزائن ، آلات کی درستگی، نیٹ ورکنگ اور پروگرامنگ کمپیوٹر کی دنیا کے وہ اہم شعبے ہیں جہاں ایک کمپیوٹر سافٹ وئیر پروگرامر ، کمپیوٹر ہارڈ ویئر و نیٹ ورکنگ انجینئر ، سافٹ ویئر انجینئر اپنا کیرئیر بناسکتا ہے۔ کمپیوٹر انجینئر س مختلف کمپنیوں و صنعتوں کے لیے سافٹ ویئر پروگرام ترتیب دیتے ہیں اوران کی دیکھ ریکھ اور مسلسل اپ گریڈیشن کا کام انجام دیتے رہتے ہیں۔ ایک کمپیوٹر انجینئر جس کے مارکس، پروجیکٹ پر کام اور زبان دانی کی صلاحیت اچھی ہو اسے مشہور ومعروف ترین کمپنیاں ترجیحی بنیادوں پر ملازمت کے مواقع فراہم کرتی ہیں اور اچھی تنخواہ کے ساتھ دیگر سہولتیں بھی فراہم کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں ہارڈ ویئر ، سافٹ ویئر کے ساتھ نیٹ ورکنگ لازم و ملزوم ہے۔ ایک وقت تھا جب مختلف کمپنیاں ، ادارے بینکس وغیرہ اپنا بیشتر کام اپنے انفرادی کمپیوٹر سسٹم پر کرتے تھے لیکن جیسے جیسے ٹیکنالوجی نے ترقی کی ان اداروں نے اپنے سافٹ ویئر سسٹم کو مربوط کرکے پورے ملک میں موجود اپنے کاروبار کی شاخوں سے نیٹ ورکنگ کے ذریعے منسلک کردیا اور یہی وجہ ہے کہ آج بینکوں، ٹراویل و انشورنس کمپنیوں اور دیگر خدمات فراہم کرنے والے اداروں کا ایک مربوط نظام کا جال اندرون ملک اور بیرون ملک پھیلا ہوا ہے۔ ایسا نیٹ ورکنگ کی بنا پر ہی ممکن ہوسکا ہے۔ انٹرنیٹ کی دن بدن ترقی ، موبائیل ٹیکنالوجی اور انڈرائیڈ اپلیکیشن کے بڑھتے اثرات نے نیٹ ورک انجینئرز کی اہمیت میں اور بھی اضافہ کردیا ہے۔ ایک نیٹ ورک انجینئر کے لیے کمپیوٹر و انٹرنیٹ نظام کی نیٹ ورکنگ، ڈیزائن، ترتیب، بینڈ وتھ ڈیویلپمنٹ، نیٹ ورک پروٹوکالز وغیرہ کی فراہمی اس کے رکھ رکھائو میں مہارت حاصل ہونی چاہیے۔ آج بڑی بڑی کمپنیاں اپنے کمپیوٹر سسٹم کو نیٹ ورک سے جوڑے رکھنے ، معلومات محفوظ رکھنے اور انہیں خطرات سے بچانے کے لیے خطیر رقم خرچ کرنے کو تیار ہیں۔ ایسے میں نیٹ ورک انجینئرز کی مانگ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک نیٹ ورک انجینئرکو ابتدا میں سالانہ دو سے تین لاکھ روپے جبکہ قابل امیدوار کو اچھی کمپنی میں ملازمت ملنے پر چھ لاکھ روپے سالانہ تک کی تنخواہ بھی مل سکتی ہے۔لائیو سٹاک کا شعبہ زراعت میں بڑی اہمیت کا حامل ہے جو ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ زراعت کی پیداوارمیںاٹھاون فیصد اور ملکی پیداوار میں 11.4فیصد حصہ لائیو سٹاک کے شعبہ کا ہے۔ پینتیس سے چالیس ملین دیہی آبادی اس شعبہ سے منسلک ہے اپنی چالیس فیصد حصہ لائیو سٹاک کے شعبہ سے ہی حاصل کرتی ہے۔ پاکستان کے ذرائع آمدن میں مختلف نسلوں کے چھوٹے اور بڑے جانوروں کا بہت بڑا حصہ ہے مویشیوں اور بھینسوں سے دودھ اور بڑا گوشت جبکہ بھیڑ بکریوں سے چھوٹا گوشت حاصل ہوتا ہے ۔انسانی غذا میں شامل ہر جزو اپنی منفرد حیثیت رکھتا ہے مثلا شکراور چکناہٹ ہضم ہونے کے بعد بدن میں حرارت اور طاقت پیدا کرتی ہے۔ لحمیات، گوشت پوست، خون اور دماغ کی نشوونما ، بڑھوتری اور کام کاج کے دوران کم اور فرسودگی سے رونما ہونے والے نقصانات کی تلافی کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت بھی لحمیات ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ لحمیات دو قسم کی ہیں۔ اول نباتاتی قسم جو پودوں سے حاصل ہوتی ہیں اور دوسری قسم حیوانی لحمیات کی جو جانوروں سے حاصل شدہ چیزوں یعنی دودھ، گوشت، انڈہ وغیرہ سے حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ حیاتین وغیرہ انسان کے بدن میں رونما ہونے والے تمام قسم کے عوامل میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔دودھ بذاتِ خود ایک مکمل غذا ہے جس میں مطلوبہ غذائی اجزامناسب مقدار میں قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں۔اللہ تعالی نے اپنی اس نعمت میں غذائی اجزاکی مقدار اور تناسب کچھ اس طرح سے رکھی ہے کہ دودھ بچے سے لے کر نوجوان،مرد، عورت اور بوڑھے آدمی تک کے لیے مکمل غذا ہے۔ یہ نہ صرف زودہضم ہے بلکہ خوراک میں ہر مطلوبہ جزو کو بھی مناسب مقدار میں مہیا کرتا ہے۔ دودھ کی اہمیت نونہال بچوں، حاملہ عورتوں اور بیماروں کے لیے اور بھی زیادہ ہے کیوں کہ ان کو مطلوبہ مقدار اور تناسب سے لحمیات، شکر، چکناہٹ اور حیاتین وغیرہ مہیا کرتا ہے دودھ کے بغیر بچوں کی بالیدگی میں کمی رہ جاتی ہے اور گوشت پوست، ہڈی وغیرہ میں بڑھوتری نہیں ہوتی۔ دماغی صلاحیتوں میں کمی رہ جاتی اور بچے لاغر اور کمزور رہتے ہیں۔ یہی حال حاملہ خواتین کا ہے۔ اگر ان کی خوراک میں دودھ، گوشت وغیرہ کی کمی ہو تو نوزائیدہ بچے نحیف اور لاغر پیدا ہوتے ہیں جو کہ اوائل عمر میں ہی قوتِ مدافعت کی کمی کے باعث بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ حیوانی لحمیات کی اہمیت انسانی خوارک میں کیا ہے۔ حیوانی لحمیات گوشت وانڈے کی نسبت دودھ میں سستی، زودہضم اور وافر مقدار میں دستیاب ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی خوراک میں دودھ اور دودھ سے حاصل ہونے والی اشیاکی مانگ دنیا بھر میں کیوں زیادہ ہے۔ پاکستان میں انسانی خوراک میں حیوانی لحمیات کا دو تہائی حصہ دودھ سے حاصل ہوتا ہے۔