بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی ایک اور یقین دہانی

وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا ہے کہ صاف و شفاف انتخابات کےلئے آئی ٹی لیب کا قیام معاون ثابت ہوگا۔ نئے نظام کے تحت کوئی بھی ووٹر اپنے حق رائے دہی سے محروم نہیں ہوگا ۔ ووٹرز کی رہنمائی اور شفاف الیکٹرول ووٹر لسٹوں کی تیاری ممکن ہوگی۔ گلگت بلتستان کے رہائشیوں کے علاوہ عارضی پتہ پر ووٹ کاسٹ کرنے کو روکا جاسکے گا۔ وزیر اعلی نے کہاکہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہماری حکومت کی ترجیح ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے ذریعے عوام کے بنیادی مسائل ان کے دہلیز پر حل کئے جاسکیں گے۔ انہوں نے کہاکہ پچےس سال بعد ڈی لمٹیشن کا عمل شروع ہورہا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہو جس کےلئے الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کےساتھ ہر ممکن تعاون اور وسائل فراہم کئے جائیں گے۔اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان راجہ شہباز خان کا کہنا تھا کہ لیب کے قیام سے صاف شفاف اور غلطیوں سے پاک انتخابی فہرستیں تیار کریں گے، جو آنے والے صوبائی اور بلدیاتی انتخابات میں جمہوری عمل کو مضبوط اور مستحکم کرے گا۔ الیکشن کمیشن گلگت بلتستان نے انتخابی فہرستوں کی ڈیجیٹیلائزیشن کا آغاز 2013 سے نادرا کی معاونت سے شروع کیا۔اس پورے عمل میں نادرا نے الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کی ہر طرح سے معاونت کی،کمپیوٹرائزڈ الیکٹورل رول سوفٹ وئیر نادرا کی مدد تیار سے کیا گیا ہے وہ گلگت بلتستان کے ووٹرز کی آسانی کے لئے کیا گیا ہے تا کہ وہ الیکشن میں بھر پور حصہ لے سکیں۔گلگت بلتستان کے حکام کی جانب سے بارہا بلدےاتی انتخابات کے حوالے سے نوےد سنائی جا چکی ہے اس ضمن میں اقدامات تو نظر آتے ہےں لےکن تاحال کوئی پےشرفت دکھائی نہےں دیتی۔کچھ عرصہ قبل صوبائی وزیر بلدیات حاجی عبد الحمید نے کہا تھا کہ بلدیاتی الیکشن کیلئے فنڈز کا بندوبست ہوگیا ہے حد بندی اور حلقہ بندی کے پچھہتر فیصد امور بھی نمٹا لئے گئے ہیں الیکشن کے انعقاد کیلئے ایک ارب دس کروڑ روپے درکار تھے جو وفاق نے فراہم کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے اس طرح بڑا مسئلہ حل ہوگیا ہے لہذا الیکشن رواں سال مئی یا جون میں کرانے کی کوشش کریں گے۔ ہم جانتے ہےں کہ بلدیاتی نظام حکومت کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے ۔کسی ملک میں جمہوریت کتنی مضبوط ہے اس کے لیے اس ملک کا بلدیاتی نظام اور ان اداروں کو حاصل اختیارات ملاحظہ کرلیں آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا۔بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری ہوتے ہیں،انہی اداروں سے قوم کو مستقبل کی قیادت قوم کو میسر آتی ہے لیکن بد قسمتی سے اکثر سیاسی ادوار میں جمہوریت کی ا س بنیادی اکائی کو نظر انداز ہی کیا گیا ہے جس کے اثرات آج قوم بھگت رہی ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والی قیادت ہی مقامی مسائل کو بہتر طریقے سے سمجھتی اورحل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔بلدیاتی الیکشن جمہوری سیاست کا ایک اہم حصہ ہیں۔ الیکشن میں اسی لیے حصہ لیا جاتا ہے کہ عوام ووٹ دیں گے اور اس کے بعد وہ عوام کیلئے کام کریں گے۔ بنیادی طور پر تو سب اپنا یہی مقصد بتاتے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ عوام کے کام کرنے کیلئے انہیں فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ فنڈز کے بغیر تو کوئی بھی کام نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی امیدوار ایسا ہوتا ہے جو اپنی جیب سے رقم خرچ کرے۔ چند ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی جیب سے ترقیاتی کام کروا بھی دیتے ہیں لیکن ایسے لوگ انتہائی کم ہوتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں کیلئے اچھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے، اس کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز درکار ہوتے ہیں، اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ حکومت انہیں فنڈ جاری کرے اور وہ عوام کیلئے کام کریں۔ جن کاموں کا وعدہ کرکے انہوں نے عوام سے ووٹ حاصل کیے تھے۔وطن عزیز پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر بلدیاتی نظام مضبوط نہیں ہوسکا اور اس کی راہ میں خود جمہوری نمائندے ہی رکاوٹ بنتے ہیں، جو خود کو جمہوری تو کہتے ہیں لیکن وہ بلدیاتی نظام کو منظم یا مضبوط نہیں کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ جمہوریت کی دعویدار سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ سے ہی بلدیاتی نظام حکومت سے پہلوتہی اختیار کی ہے اور اس نظام کے پنپنے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے رہے جبکہ اس کے برعکس جسے ہم آمرانہ ادوار حکومت کہتے ہیں ان ادوار میں بلدیاتی نظام نہ صرف مضبوط ہوا بلکہ منتخب نمائندوں کو اتنے اختیارات اور وسائل دیئے گئے جن سے عوامی مسائل کے حل میں نہایت مدد ملی ۔دنیا کے جمہوری ملکوں میں برسر اقتدار جماعتوں کی ساری توجہ عوام کے مسائل حل کرنے پر مرکوز رہتی ہے کیونکہ ان ملکوں کے عوام اپنے منتخب نمائندوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں کہ وہ اپنے منشور اور انتخابی مہم کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد کر رہے ہیں یا نہیں۔جمہوری ملکوں کے حکمرانوں کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ترقی یافتہ جمہوریتوں میں صوبائی یا قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے سے پہلے بلدیاتی انتخابات جیت کر علاقائی عوام کے مسائل حل کرنا ضروری ہوتا ہے اور بلدیاتی کارکردگی ہی وہ سرٹیفکیٹ ہوتا ہے جو قانون ساز اداروں میں رسائی کا ذریعہ بنتا ہے۔ لیکن ہماری جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ یہاں بلدیاتی انتخابات کی زحمت کی جاتی ہے نہ بلدیاتی اداروں کو کام کرنے دیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ علاقائی مسائل کے حل کے لیے منتخب نمائندوں کے پاس نہ انتظامی اختیارات ہوتے ہیں نہ مالی وسائل ہیں ایسے بے اختیار منتخب نمائندے بھلا کس طرح عوامی مسائل حل کرسکتے ہیں؟ بلدیاتی اداروں کو انتظامی اور مالی اختیارات دینے سے گریز کی ایک وجہ جاگیردارانہ نظام بھی ہے ۔کیونکہ جاگیردارانہ ذہنیت سارے اختیارات اپنے ہاتھوں میں مرکوز رکھنا چاہتی ہے۔ ہماری صوبائی حکومتیں اپنے کلی اختیارات سے دست بردار ہونا نہیں چاہتیں کیوںکہ اس سے ان کے مالی اور سیاسی مفادات وابستہ ہیں۔ہماری سیاسی اشرافیہ اگر بلدیاتی نظام کی مخالفت کرتی ہے اور کمشنری نظام پر اصرار کرتی ہے تو اس کی یہ پالیسی سمجھ میں آجاتی ہے کہ وہ صوبائی حکومتوں کے اقتدار میں تقسیم کو پسند نہیں کرتی اور اقتدار کلی کی مالک بنی رہنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے انہےں یہ ڈر بھی لاحق ہے کہ خاندانی حکمرانیوں کے ذریعے اس نے سیاست اور اقتدار پر جو ناجائز قبضہ جما رکھا ہے، بلدیاتی نظام سے اسے خطرہ لاحق ہوجائے گا اور نچلی سطح سے سیاسی قیادت کے ابھرنے کے امکانات پیدا ہوجائیں گے۔لیکن عوامی سیاست کرنے والوں اور عوام کی طاقت پر بھروسہ کرنے والوں کو تو بلدیاتی نظام سے ہرگز خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ مڈل کلاس اپنی بے عملی، سیاسی بصیرت کی کمی، منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے یہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بلدیاتی انتخابات میں عوام کی پذیرائی حاصل نہیں ہوگی تو اس کا علاج سرگرم منصوبہ بند اور عوامی منشور کی سیاست ہے نہ کہ بلدیاتی انتخابات کی مخالفت اور کمشنری نظام کی حمایت۔انتظامیہ کی مکمل ناکامی کے بعد بلدیاتی نظام ہی ایک ایسی امید ہے جو گلی محلوں تک پھیلی ہوئی اور تیزی سے مضبوط ہوتی ہوئی شدت پسندی اور دہشت گردی کے آگے ایک مضبوط دیوار بن سکتا ہے۔جمہوری معاشرے کے لیے بلدیاتی نظام انتہائی اہم ہوتا ہے کیونکہ بلدیاتی نمائندے ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو عوام کے بہت قریب ہوتے ہیں اور عوام اپنے مسائل باآسانی ان تک پہنچا سکتے ہیں۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کا تو ایک بہت بڑا حلقہ ہوتا ہے، وہ پورے حلقے کے لوگوں کے مسائل نہیں سن سکتے، انہیں قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی شرکت کرنا ہوتی ہے، قومی اسمبلی کے اندر قانون سازی کے عمل میں شریک ہوتے ہیں، دیگر بڑے اجتماعات میں شرکت کرنا اور کئی طرح کے کام ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے حلقے میں زیادہ نہیں جاسکتے۔ جس کی وجہ سے عوام اپنے مسائل حکومت تک نہیں پہنچا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی نظام کو اہمیت حاصل ہے کیونکہ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے جو نمائندے منتخب ہوتے ہیں وہ عوام کے قریب ہوتے ہیں، اس کے ذریعے اختیارات انتہائی نچلی سطح تک عوامی حقیقی نمائندوں تک منتقل ہوجاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر گلگت بلتستان میں بلدیاتی الیکشن کے لیے فنڈز کا بندوبست ہو گیا ہے کہ تو بلدیاتی الیکشن کے انعقاد میں تاخیر نہیں کی جانی چاہیے تاکہ عوام کے مسائل نچلی سطح پر حل ہو سکیں۔ پاکستان میں اشرافیہ نے کرپشن کو جس طرح اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی کا ہر شعبہ کرپشن زدہ ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر بلدیاتی نظام بھی کرپشن سے کسی حد تک آلودہ تھا تو اس نظام میں عوام کی براہِ راست شرکت اور علاقائی سطح پر جواب دہی کی وجہ سے اس نظام میں موجود خرابیوں کے دور ہونے کی قوی امید بھی موجود تھی۔ بلدیاتی نظام خصوصا ناظمین کے نظام کی وجہ اس کے صوبائی اختیارات نہ صرف چھن جاتے ہیں بلکہ سیکڑوں ناظمین کو کنٹرول کرنا اس کے بس سے باہر ہوجاتا ہے جب کہ ایک کمشنر اور چند ڈپٹی کمشنروں کو قابو میں رکھنا اس کے لیے انتہائی آسان ہوتا ہے۔بہرحال اگر ےہ فےصلہ کر ہی لےا گےا ہے تو اسے عملی جامہ پہنانے کے لےے نتےجہ خےز کوششےں بھی ضروری ہےں۔