امن و امان اور گلگت بلتستان کی ترقی

وزیراعلی سیکرٹریٹ چنار باغ میں حکومت گلگت بلتستان کے زیر اہتمام پیغام پاکستان کانفرنس میں گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کی ترقی امن و امان سے مشروط ہے، مذہبی ہم آہنگی علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ دین اسلام ہمیں احترام انسانیت، مذہبی ہم آہنگی اور تشدد سے پاک معاشرے کا درس دیتا ہے۔ پیغام پاکستان وہ عظیم بیانیہ ہے جس نے انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے کے مقدسات کے احترام سے ہی صحت مند معاشرے کا قیام ممکن ہے اور ماضی کی غلطیوں کو دور رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے ہر ایک کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کانفرنسز کے انعقاد سے پرامن معاشرے کی تشکیل کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اس حقےقت سے انکار نہےں کےا جا سکتا کہ ترقی امن سے مشروط ہے ۔گلگت بلتستان کی ترقی بھی امن سے مشروط ہے ۔ امن کے بغیر کبھی ترقی نہیں ہو سکتی۔اپنے اندر پائے جانے والے اختلافات اور ایشوز کو باہمی گفت و شنید سے حل کےا جانا چاہےے ۔ امن کے قیام کے لئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔علماءکرام کو حکومت اور کمیونٹی کے درمیان پل کا کام کرنا چاہےے تاکہ علاقے میں مذہبی ہم آہنگی ،بھائی چارے، رواداری کا ماحول پیدا ہو۔ انتہاپسندی سے پاکستان میں معاشی سرگرمیاں بدترین صورتحال کا شکار ہیں، ملک مشکل ترین دورسے گزر رہا ہے، ایسی صورتحال کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جا سکتا ملکی معیشت قرضوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے، ایک کشکول بدست ایٹمی ملک اپنی اقتصادی آزادی،اقتصادی ترقی سرمایہ کاری کی محتاج ہوتی ہے اور سرمایہ امن کا مطالبہ کرتا ہے، وہ معیشت جسے یومیہ اربوں روپے کے خسارے کا سامنا ہو جہاں سماجی سیاسی اور معاشی صورتحال کا منظر نامہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سے لالہ زار ہو، انسانی جان کی کوئی قیمت نہ ہو، قانون شکن دندناتے پھرتے ہوں وہاں معاشی استحکام ایک ہرکولین ٹاسک ہوتا ہے۔ ملکی سلامتی، خود مختاری اور معاشی آسودگی کی منزل تک پہنچنے کے لیے حکمران انقلابی اور غیر معمولی فیصلوں سے ملکی معیشت کا نقشہ بدل سکتے ہیں ےہ اس وقت ممکن ہو گا جب دہشت گردی سے قوم کو نجات ملے تب ہی جمہوریت اور معیشت کے ثمرات عوام کو ملیں گے۔ہم جانتے ہےں کہ دہشت گردوں کو لگام نہ ڈالی گئی تو یہ ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے۔ ہلاکتوں کی کیمسٹری دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ عناصر منظم طریقے سے ملکی معیشت کی تباہی کے کسی وحشیانہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور ان کے نیٹ ورک کو نیست و نابود کیے بغیر معیشت کے استحکام اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ ملک میں برسوں سے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ یہ کیوں ہوا؟ ان معروضات میں غور و فکر کا وافر سامان موجود ہے، معاشی مبصرین، حکومتی اکابرین دہشت گردی کے بنیادی اسباب و علل پر توجہ دیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اشتراک عمل کو یقینی بنائیں۔ جو قوتیں جمہوری نظام، اسلامی اقدار و افکار اور طرز حکمرانی کے خلاف ٹکراﺅ اور ہلاکتوں کو اپنا ہتھیار بنائے ہوئے ہیں، ان سے نمٹنے کے لیے سیاسی و عسکری قیادت اور معاشی ماہرین کو سیاسی، اقتصادی اور عسکری سطح پر یک ذہن ہو کر اپنی اسٹرٹیجی اور دہشت گردی مخالف میکنزم کی تیاری کا ہدف مکمل کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ادارہ جاتی احتساب ہو، کرپشن کو لگام دی جائے، عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد ہو، اور دہشت گردوں کو ملک گیر سطح پر شکست دینے کا عزم کیا جائے۔اسلام امن ، محبت، عدل و انصاف اور میانہ روی کا دین ہے اور اس کا دہشت گردی اور خون ریزی سے کوئی تعلق نہیں ۔اسلام نے غیر مسلم افراد سے کاروبار، تجارت، لین دین اور معاملات کو درست رکھا ہے اسلام میں مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ کتنے پاکیزہ طریقہ پر معاملات کرتے آئے ہیں کہ ظلم و زیادتی اور حق تلفی کا کوئی شائبہ تک نہیں ۔افسوسناک امر ےہ ہے کہ امن وامان کی صورتِ حال قابو میں آنے کی بجائے مزید خراب ہوتی جا رہی ہے اور سماجی انتشار کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بدامنی سے نہ صرف ملکی معیشت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ اس بدامنی سے کچھ قوتیں اپنے بعض سیاسی اور دیگر اہداف بھی حاصل کرتی ہیں۔ہمیں امن و امان قائم کرنے کیلئے بھرپور کوشش کرنی ہوگی، اسکے لئے ہمیں جس چیز کی بھی قربانی دینے پڑے ہمیں اس سے گریز نہیں کرنا چاہئے، حتی کہ ہم امن و امان قائم کرلیں۔اسلام امن وآشتی اور صلح وسلامتی کا مذہب ہے، اس نے انسانی زندگی کی حرمت کو اتنی اہمیت دی ہے کہ ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے اور اگر کسی مسلمان ملک میں غیر مسلم اقلیت آباد ہو تو اس کی جان ومال اور عزت وآبرو کے تحفظ کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے اور انہیں اپنی نجی زندگی میں اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی دی گئی ہے۔اسلام نے ظلم وتعدی سے منع کیا ہے، بلکہ ظلم کے جواب میں بھی دوسرے فریق کے بارے میں حد انصاف سے متجاوز ہونے کو ناپسند کیا ہے اور انتقام کے لئے بھی مہذب اور عادلانہ اصول وقواعد مقرر کئے ہیں۔عملی طور پر بھی ایک مسلمان کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ معاشرے میں امن و سلامتی کا پیغامبر بنے، نہ کہ تشدد، نا انصافی اور ظلم و زیادتی کا سفیر، مسلمان وہ ہے جو دوسروں کے لیے امن وسلامتی کاباعث ہو جس کے طرز عمل سے دوسرے لوگوں کو امن و طمانیت کا احساس ہو اس میں کسی مذہب وملت کی قید نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ ساری انسانیت پر محیط ہے۔یہ واحد مذہب ہے جس کی تعلیمات میں امن وسلامتی کا عنصر زیادہ ہے، وہ تمام معاملات میں ان پہلوﺅں کو اختیار کرنے پر زور دیتا ہے جن میں نہ خود کوئی زحمت اٹھانی پڑے اور نہ دوسروں کو کوئی تکلیف ہو، اللہ تعالی نے مومنین کا یہ وصف بیان کیا ہے، وہ صلح جوئی کو ترجیح دیتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جبکہ فریق ثانی سے زیادتی اور جھگڑے کا اندیشہ ہو۔ اسلام کا وہ لائحہ عمل ہے، جس کی روشنی میں ممکنہ حد تک قوت اور اثرات کے ذریعے مظلوم کی دستگیری کی جائے اور ظالم کو ظلم سے روک دیا جائے۔اسلام راواداری، محبت، شائستگی، شرافت اورمعقولیت کی تعلیم ضرور دیتا ہے۔غرضیکہ اسلام کی تعلیمات واحکام سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ ایک دین رحمت ہے اسلام میں ظلم و جبر، دہشت گردی اور جارحیت کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اس لیے جو لوگ اسلام دشمنی میں اس کی جانب دہشت گردی کو منسوب کرتے ہیں ،ان کا یہ رویہ بجائے خود ایک دہشت گردی ہے ، اس لیے انہیں اپنے اس ناروا رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اسلام ہمیشہ امن و آشتی سکون اور سلامتی، محبت و اخوت کا پیغام دیتا رہا ہے۔ اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ زمین پر فتنہ و فساد ختم ہو اور امن و سکون عدل و انصاف کا دور دورہ ہو۔چنانچہ اسلام کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہم یہ دیکھیں گے کہ اسلام آغاز ہی سے امن و امان اور سکون و سلامتی کا پیغام لے کر آیا ہے۔ اسلام سے قبل دور جاہلیت میں لوگ آپس میں ذرا ذرا سی بات پر لڑ پڑتے تھے، خون و خرابہ کرتے تھے، زمین پر ہر طرف فتنہ اور فساد برپا تھا۔ انسانوں کو خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ غرض یہ کہ انسان اپنے مقصد وجود کو بھول چکا تھا ۔ اخلاقی قدریں پامال ہو رہی تھیں۔ ایسے میں اسلام ایک امید کی کرن بن کر دنیا کے سامنے آیا اور دنیا کو وہ پیغام امن و انسانیت دے گیا جس کی مثال کہیں نہیں ملتیں۔زمین پر امن و امان اور سلامتی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے یہ چیز بہت بڑا رول ادا کرتی ہے کہ انسان دوسرے انسان کی تکریم و تعظیم کرے، اسے قابل احترام سمجھے، اس کو نا حق نہ ستائے، اس پر ظلم و ستم نہ کرے۔یہ جذبہ جب پیدا ہو گا تو امن و امان قائم ہو سکتا ہے، ورنہ مال و دولت ،منصب و عہدہ لوگوں کے اندر تفاخرو خود سری کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے اور وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ تکبر اور غرور انسان کو اپنے رب کی یاد سے غافل کر دیتا ہے، لہذا اس کے نتیجے میں زمین پر فساد پھیلتا ہے۔ انسان حیوان بن جاتا ہے، ناحق قتل وغارت گری پھیلاتا ہے اور فحاشی و بدکاری کا بازار گرم ہوتا ہے ۔اسلام اسے انسانیت کے لیے نہایت خطرناک بتاتا ہے اور اخلاقی قدروں کی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام امن و سلامتی کا پیغام لے کر آیا ہے ۔ لہذا اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی اصل تعلیم کو عام کیا جائے اورامن و سلامتی کےاس پیغام کو لوگوں تک پہنچایا جائے ۔یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے اور ہمارا فریضہ بھی۔زمین پر امن و امان اور سلامتی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے یہ چیز بہت بڑا رول ادا کرتی ہے کہ انسان دوسرے انسان کی تکریم و تعظیم کرے، اسے قابل احترام سمجھے، اس کو ناحق نہ ستائے، اس پر ظلم و ستم نہ کرے۔یہ جذبہ جب پیدا ہو گا تو امن و امان قائم ہو سکتا ہے۔