صوبائی وزیر برائے بہبود آبادی دلشاد بانو نے کہاہے کہ لوگ نوکریوں کیلئے ہمارے پاس آتے ہیں ہم صاف صاف کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نوکریاں نہیں ہیں ‘نوکریاں ہم کہاں سے لاکر دیں؟ نوجوان محنت کریں‘ ہنر سیکھیں‘ نوجوانوں کو ترقی اور خوشحالی کے میدان میں آگے آنے کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ علاقے کی خواتین میرے دل کے قریب ہیں وہ میرے دل میں راج کرتی ہیں صوبائی وزیر راجہ ناصر سے گزارش ہے کہ وہ ہماری خواتین کی ترقی کیلئے فنڈز کی فراہمی میں کسی قسم کی کوئی کنجوسی نہ کریں نالہ جات میں بسنے والی خواتین تعلیم سے محروم رہتی ہیں اس لئے ان خواتین سے اپیل ہے کہ انہیں ہنر سیکھنے میں کبھی پیچھے نہیں ہونا چاہیئے۔ خواتین کا معاشرتی ترقی میں کلیدی کردار ہے ہمیں خواتین کے کردار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے صوبائی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی ثریا زمان نے کہاکہ خواتین کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کیلئے موثر اور جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے خواتین کو مختلف شعبوں میں آگے لانے کی ضرورت ہے انہیں ہنر مند بنانا ہوگا تاکہ معاشرتی ترقی میں وہ اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔ صوبائی وزیر ترقیات و منصوبہ بندی راجہ ناصر علی خان مقپون کے مطابق بے روزگاری کی وجہ سے خودکشیوں کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے جو انتہائی تشویشناک امر ہے ہمیں معاشرتی مسائل کے اسباب تلاش کرنا ہونگے نوجوانوں کو مصروف رکھنے کیلئے فنی تربیت دینا بہت ضروری ہے۔بدقسمتی سے آج دنیا میں انسانوں کی موت کادوسرا بڑا ذریعہ خود کشی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق خودکشی اب ایک عالمی وبا کی صورت اختیار کرچکی ہے جس پر قابو پانا فی الحال ممکن دکھائی نہیں دیتا۔اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں سالانہ دس لاکھ لوگ خود کشی کے نتیجے میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں ہر تین سکینڈ میں ایک فرد خود کشی کی کوشش کرتا ہے۔ خودکشی کی کوشش کرنے والوں میں ہر بیس میں سے ایک شخص اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جبکہ باقی انیس افراد ناکام رہتے ہیں۔ اس تناسب سے ہر چالیس سکینڈ میں ایک فرد خود کشی کے سبب موت کا شکار ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں روزانہ تین ہزار افراد خودکشی کے نتیجے میں لقمہ اجل ہورہے ہیں۔ ہمارے ملک میں آئے دن خود کشی کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے اور یہ رجحان ہر عمر کے طبقے میں دیکھا گیا ہے۔اعداد و شمار کی روشنی میں ہمارے ملک میں ہرایک لاکھ افراد میں سے چھتےس افراد خودکشی کر لیتے ہیں۔ خود کشی سے بچاﺅ کی عالمی تنظیم کے صدر برائین مشارا کے بموجب دنیا میں جنگوں، دہشت گردی اور تشدد کے واقعات کے باعث جتنی اموات واقع نہیں ہوئی ہیں اتنی خودکشی کے نتیجے میں دیکھنے میں آئی ہیں۔خودکشی کے ذریعے اپنی زندگی کو ختم کرنے کا رجحان پندرہ سے چوبیس سال کی عمریعنی نوجوان نسل کے افراد میں زیادہ دیکھنے میں آیاہے۔دنیا میں سب سے زیادہ خودکشیوں کی شرح ساتھ کوریا میں ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں۔ اسلامی ممالک میں خودکشی کی شرح دنیا کے باقی ممالک سے قدرے کم پائی گئی ہے۔یہ اسلام کی برکت ہے۔نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔طلبہ اور نوجوانوں میں منفی خیالات ا و رجحانات کا نمو پانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یقینا ہمارے تعلیمی اور سماجی نظام میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔کوئی ایسی بات یا فکر ہے جو ہماری نوجوان نسل کو خودکشی جیسے انتہائی ا قدام پر مجبور کر رہی ہے۔خودکشی کی خبروں خاص طور پر نوجوان نسل کی جانوں کے اتلاف کی خبریں ذہن ودل کو آئے دن ملول کر رہی ہیں۔نوجوان نسل ہمارے ملک کا بیش قیمت اثاثہ ہے۔ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کے کردار کو ہر گز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔خودکشی کی بے شمار وجوہات میں سماجی دباﺅ،ڈپریشن،خوداعتمادی کا فقدان،غربت،عشق و محبت میں ناکامی وغیرہ شامل ہیں۔ ان وجوہات میں سب سے زیادہ تشویش کا پہلو تعلیمی دباﺅ کی وجہ سے رونما ہونے والی خودکشیاں ہیں۔ہمارے ملک کے نوجوانوں کی موت کا دوسرا بڑا سبب خودکشی ہے۔ہمارے ہاں پندرہ تا تیس برس کے نوجوانوں میں خودکشی کا پریشان کن رجحان زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔مغربی ممالک میں خودکشی کا رجحان زیادہ تر عمر رسیدہ بزرگ افراد،غریب اور کم تعلیم یافتہ شہریوں میں پایا جاتا ہے لیکن اس کے برخلاف ہمارے ملک میں بےروزگاری بھی خودکشی کی اہم وجہ ہے ۔یہ بات ماہرین نفسیات کےلئے الجھن، بے چینی اور تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔کئی بچے والدین اور اساتذہ کی جانب سے لادے گئے تعلیمی دباﺅ کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوکر خودکشی کربیٹھتے ہیں۔دنیا میں ہر انسان کم از کم ایک بار ڈپریشن کا شکار ضرور ہوتا ہے۔یہ منفی رجحانات ذیل میں پیش کردہ شکلوں یا پھر کسی اور صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔بعض موقعوں پر ڈپریشن اتنی شدت اختیار کرجاتا ہے کہ اس سے باہر نکل پانا لوگوں کے لئے سخت مشکل کام ہوتا ہے۔ایسے حالات میں ناامیدی کا شکار نوجوان مسائل سے نجات پانے کے لئے اپنی زندگی کا چراغ بجھا دیتے ہیں۔ہر خودکشی کے پیچھے کوئی وجہ اور کوئی قاتل خواہ والدین کی صورت،اساتذہ،خاندان یا معاشرے کے کسی فرد کی شکل میں یا پھرمعاشرتی،معاشی،تعلیمی،مذہبی،سیاسی پالسیوں کی شکل میں ضرور چھپا ہوتا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ دنیا کے تقریباہر ملک میں کسی نہ کسی صورت میں سماجی ناہمواری اور عدم توازن موجود ہے جس کی وجہ سے لوگ ذہنی انتشار کا شکار ہورہے ہیں اور یہی ذہنی کیفیت بسا اوقات خود کشی جیسے حتمی اقدام پر افراد کو مجبور کر تی ہے اور جس کا منطقی انجام خودکشی جیسے بہت بھیانک روپ میں سامنے آتا ہے۔تحقیقات سے خودکشی کی مزید وجوہات سامنے آئی ہیں۔یہ ایک چونکادینے والی حقیقت ہے کہ خودکشی کے ہر واقعے کی اپنی ایک کہانی اور وجہ ہے۔ تاہم اہم وجوہات میں ذہنی و نفسیا تی امراض، غربت، بے روزگاری، منشیات کا استعمال، امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ زنی، بے عزتی کا خوف، منفی مقابلے کا رجحان، لامتنا ہی خواہشات وغیرہ شامل ہیں۔خودکشی ایک پیچیدہ سماجی مسئلہ ہے جس کے سد باب میں دنیا کے بہت سارے ترقی یافتہ معاشرے آج بھی ناکام ہیں۔ تاہم شعور، بیداری اور آگہی کے ذریعے اس رجحان کو کم کیا جاسکتاہے۔خود کشی کے عوامل کا عام جرائم کی تفتیش کی طرح پتالگانا ممکن نہیں ہے۔کیونکہ یہ عمل ایک فرد کی سوچ پر مبنی ہوتا ہے اور کسی شخص کی سوچ پر پہرہ نہیں لگا یا جاسکتا۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اہم تبدیلیوں کے ذریعے معاشرے کی مجموعی سوچ کو تبدیل کرتے ہوئے خود کشی کے واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے اور اس سمت حکومت اور انسانی حقوق کے لئے برسرکار انجمنوں کو پیش قدمی کرنا چاہئے۔انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پچاس فیصد نوجوان غربت، بیروزگاری اور اقتصادی مشکلات کے سبب خودکشی کرتے ہیں۔ جبکہ ماہرین نفسیات کے مطابق اسّی فیصد نوجوان ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کرلیتے ہیں۔ نفسیاتی امراض جےسے غیر خوش گوار تجربات‘ ایذا رسانی ڈرانا‘ دھمکانا وغیرہ،غیر ہموار شخصیت اور شخصیت سے وابستہ مسائل،نشیلی ادویات کا استعمال،غذائیت سے مربوط مسائل،بے روزگاری،اکیلاپن،رشتے اور تعلقات سے جڑے مسائل،جینیاتی امراض،غیر ضروری فلسفیانہ نکتہ نگاہ،فلسفیانہ خواہشات کی عدم تکمیل،وجود کا بحران،جان لیوا امراض،دائمی جسمانی اورذہنی درد و تکلیف،معاشی مسائل ڈاکٹرز کی جانب سے تجویزکردہ ادویات کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں وغیرہ شامل ہیں۔ان کے علاوہ جنسی و جسمانی تشدد،گھریلو تشدد، خانہ جنگی اور جنگ کی وجہ سے رونما ہونے والے اثرات بھی خودکشی کے اسباب میں شامل ہیں۔ذہنی طور پر نوجوان نسل کو مضبوط بنانے کےلئے والدین اور اساتذہ کو آگے آنا چاہےے ۔بچوں کو زندگی کے نشیب و فراز،سرد و گرم، تلخ و ترش حالات کا علم فراہم کےا جائے ۔ بچوں کو مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور انہیں حل کرنے کا ہنر سکھاےا جائے ۔بچوں پر کسی بھی طرح کا دباﺅ ڈالنے کے بجائے ان میں امید،حوصلہ اور ہمت کو جاگزیں کےا جائے۔والدین اور اساتذہ بچوں کے مسائل اور ان کی ذہنی حالت کا صحیح ادراک کریں۔ان کے ذہنوں میں محنت اور جستجو کی اہمیت کو اجاگر کریں۔بتائیں کہ مسلسل محنت و جستجو سے مشکل سے مشکل اور ناممکن سے ناممکن کام کو آسان اور ممکن بنایا جاسکتا ہے۔گلگت بلتستان میں خود کشی کی بڑی وجہ بے روزگاری بتائی جاتی ہے‘ ےہ درست ہے کہ حکومتی سطح پر ہر بےروزگار کو روزگار نہےں دےا جا سکتا لےکن رواےتی تعلےمی ڈگرےاں بانٹنے کی بجائے اگر طلباءکو ہنر پر مبنی تعلےم دی جائے جس سے وہ نوکرےاں تلاش کرنے کی بجائے اپنا کام خود کرنے کے اہل ہو سکےں تو بے روزگاری کی لعنت پر قابو پاےا جا سکتا ہے‘ حکومت کاروبار کے ضمن میں بلاسود قرضے جاری کر کے بھی نوجوانوں کو چھوٹے کاروبار کی تربےت فراہم کر سکتی ہے۔
