وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے الشفا ٹرسٹ آئی ہسپتال کے سنگ بنیاد رکھنے کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن گلگت بلتستان کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ سابق ادوار میں بحیثیت صوبائی وزیر صحت ڈاکٹروں کی کمی دور کرنے اور ہسپتالوں میں جدید سہولیات کی فراہمی کے لئے ریفارمز کیں۔ صوبائی حکومت کے خصوصی اقدامات کے باوجود آنکھوں کے بیماریوں اور ذہنی امراض کے علاج معالجے کے لیے جدید ہسپتال کی ضرورت تھی جسکا سنگ بنیاد الشفاآئی ٹرسٹ اور روپانی فاﺅنڈیشن کے تعاون سے رکھا جارہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ الشفاآئی ٹرسٹ ہسپتال کے فعال ہونے کے بعد گلگت بلتستان سے آنکھوں کے علاج کے لیے ملک کے دیگر علاقوں میں جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہماری لیے باعث مسرت ہے کہ اس اہم منصوبے کا سنگ بنیاد ہمارے دور حکومت میں رکھا جارہا ہے۔ اس اہم منصوبے کے حوالے سے صوبائی حکومت ہرممکن تعاون فراہم کریگی۔ وزیر اعلی نے کہا کہ امید ہے یہ منصوبہ مقررہ مدت میں مکمل ہوگا۔ ہمارے ہاں صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کا نظام آزادی کے وقت برطانوی عہد سے ملا تھا۔یہ نظام صحتِ عامہ کی خدمات اور کچھ علاج معالجہ کی شکل میں تھا ۔ پاکستان میں صحت کی پالیسیاں بنانے اور منصوبہ بندی کا معاملہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی لیکن آئین میں کچھ ترامیم ہوئیں جس کے تحت اب صوبے بھی صحت عامہ کے معاملات کو خود دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم وفاقی حکومت کی طرف سے جو پالیسیاں بنائی جاتی ہیں صوبائی حکومتوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان پالیسیوں کے نفاذ کو یقینی بنائیں ۔ سب سے بڑا مسئلہ جو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں پبلک ہیلتھ سکولوں اور ٹیکنیشین ٹریننگ اداروں کو متعارف کروا کر میڈیکل پروفیشنلز کو تربیت دے کر صحت کی دیکھ بھال کے معیار کو بہتر بنانے میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ترقی میں اپنے محدود وسائل خرچ کر رہی ہیں۔آئینِ پاکستان کے مطابق سوائے وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں کے ، صحت کی دیکھ بھال بنیادی طور پر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ کورونا، ایڈز ، پولیو اور کچھ دیگر توسیعی پروگراموں کے نفاذ کی اور حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام کی ذمہ داری بڑی حد تک وفاقی وزارتِ صحت پر ہے ۔ہمارے ملک میں صحت کی دیکھ بھال کا شعبہ پرائیوٹ اور سرکاری شعبہ پر مشتمل ہے ۔پاکستان میں نظامِ صحت کی حالت یہ ہے کہ پرائیوےٹ شعبہ ، آبادی کا تقریبا 70 فیصد حصے کو سہولیات فراہم کر رہا ہے ۔ نجی شعبہ جو سہولیا ت لوگوں کو فراہم کر رہا ہے وہ اس کے لیے اپنی فیس وصول کرتا ہے اور یہ فیس ایک متوسط فرد یا غریب فرد ادا نہیں کر سکتا۔ صحت کا نظام اس قدر خراب ہے کہ نہ تو نجی اور نہ ہی سرکاری شعبے ریگولیٹری فریم ورک کے اندر کام کرتے ہیں ۔پاکستان میں کوالیفائیڈ پیرا میڈیکل اسٹاف، ڈاکٹر، نرسز کی کمی ہے۔ پاکستان میں خواتین کی صحت کے حوالے سے اقدامات کیے تو جار ہے ہیں لیکن اس کے کوئی دور رس نتائج نہیں آرہے۔ خواتین کے لیے صحت کے معاملات میں سب سے اہم زچگی اور زچگی کے دوران لاحق ہونے والے پچیدہ امراض ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات بہت زیاد ہ ہے۔ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں تےس فیصد سے بھی کم آبادی کو پرائمری ہیلتھ کیئر سینٹرز کی سہولیات تک رسائی حاصل ہے ۔ اوسط ہر فرد ایک سال میں ایک سال سے بھی کم ہیلتھ کیئر سینٹرز تک جاتا ہے ۔ ہیلتھ کیئرسینٹرز میں جانے میں عدم دلچسپی کی وجہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد اور خاص طور پر وہاں خواتین کی کمی ، غیر حاضری کی اعلی شرح ، سہولیات کا ناقص معیار اور ادویات کی عدم دستیابی شامل ہے ۔ جبکہ دوسری طرف پاک فوج ، پاکستان ریلوے ، اٹامک انرجی اور بہت سے دیگر ادارے ایسے بھی ہیں جو اپنے ملازمین کو بہترین صحت کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔صحت کی بہترین سہولیات عوام کو فراہم کرنا حکومتوں کی اولین ترجیح ہو نی چاہیے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ مل بیٹھ کر عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے لیے واضح اور جامع پالیسی مرتب کریں ۔ نئے جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل ہسپتال بنائے جائیں ۔نئے ڈاکٹرز اور لیڈی ڈاکٹرز کو ملازمتیں دی جائیں ۔ پیشہ ور نرسز کو تعینات کیا جائے ۔ ہسپتالوں میں دوائی کی فراہمی اور دستیابی کو یقینی بنایا جائے تاکہ غریب عوام کو بہتر اور مفت صحت کی سہولیات میسر آ سکیں اور انکا معیارِ زندگی بہتر ہو سکے ۔ہر فرد کے لئے اپنی صحت کی اہمیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ فرد کی صحت صرف ایک ذاتی معاملہ نہیں بلکہ پوری فیملی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ہر شہری کے لیے صحت کی سہولیات تک مساوی رسائی یقینی بنانا چاہےے علاج کی سہولتوں کے ساتھ صحت مند طرز زندگی کے شعور کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔حکومت صحت عامہ کی سہولتوں کی بہتری کیلئے وسائل فراہم کرے۔آنکھوں کی بےمارےاں ہمارے ہاں تےزی سے پھےل رہی ہےں۔مالی وجوہات، کبھی علاج یا ڈاکٹروں کی کمی اور کبھی معلومات یا بیداری کی کمی کی وجہ سے لاکھوں لوگ صحت کی ضروری خدمات بروقت حاصل نہیں کر پاتے اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر طبی اور صحت کی خدمات کے میدان میں کافی ترقی ہوئی ہے، لیکن پھر بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر فرد کو صحت کی تمام ضروری خدمات تک آسان رسائی حاصل ہو۔آشوب چشم آنکھوں کی ایک بیماری ہے جو آنکھ کے سفید حصے کو متاثر کرتی ہے۔ اس سے آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں اور سوج جاتی ہیں۔ اسے پنک آئی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وائرل یا بیکٹیریل انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ بہت متعدی ہے۔ اس کے ساتھ سردی یا سانس کے انفیکشن کی علامات بھی ہو سکتی ہیں، جیسے گلے میں خراش۔ بیکٹیریل آشوب چشم کنٹیکٹ لینز پہننے کی وجہ سے ہو سکتا ہے جو ٹھیک طرح سے صاف نہیں ہوتے یا جو لوگوں کے پاس نہیں ہیں۔آشوب چشم براہ راست رابطے سے پھیلتا ہے۔ اگر کوئی متاثرہ چیزوں کو چھونے کے بعد اپنی آنکھوں کو چھوتا ہے تو اسے بھی یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ڈاکٹروں کے مطابق جب بھی اس مرض میں مبتلا ہوں تو اپنے تولیے اور کپڑے دوسروں کے ساتھ شیئر نہ کریں کیونکہ دوسروں کو بھی یہ بیماری آپ سے لگ سکتی ہے۔عام طور پر دن بھر متاثرہ لوگوں کی آنکھوں سے پیلا یا سبز چپچپا پانی نکلتا ہے۔ آنکھوں میں خارش محسوس ہوتی ہے، اور پلکیں سوج جاتی ہیں۔ بیکٹیریل آشوب چشم کا اکثر انفیکشن کو صاف کرنے کے لیے اینٹی بائیوٹک آئی ڈراپس یا مرہم سے علاج کیا جاتا ہے۔الرجک آشوب چشم اور آنکھ کا فلو دونوں آنکھوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اس سے آپ کی آنکھوں سے مادے نکلتے ہیں۔ متاثرہ افراد کی آنکھیں سرخ ہوتی ہیں، لیکن یہ متعدی نہیں ہے۔آنکھ کا گلابی ہونا انتہائی متعدی ہے ہمارے دےہی علاقوں میں کالا موتےا بھی بڑھ رہا ہے۔ےہ ایک ایسا عارضہ ہے،جس میں پردہ بصارت سے دماغ کو معلومات منتقل کرنے والے اعصاب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں نظر کم زور ہونے لگتی ہے، یہاں تک کہ بینائی بھی ضائع ہوسکتی ہے۔ نابینے پن کی ایک بڑی وجہ یہی عارضہ قرار دیا گیا ہے۔ کالا موتیا، بصارت کا خاموش قاتل ہے اس عارضے میں آنکھ اور دماغ کو ملانے والی آپٹک نرومتاثر ہوجاتی ہے۔اصل میں آنکھ ایک کیمرے کی مانند ہے، جو صرف منظر قید کرسکتی ہے، دیکھ نہیں سکتی، جب کہ پردہ بصارت جو کہ ایک ڈیجیٹل سینسر کی طرح ہے، اس پر کسی بھی منظر یا شے کا عکس بنتا ہے اور برقی اشارات میں تبدیل ہوکر آپٹک نرو کے ذریعے دماغ کے سب سے پچھلے حصے میں منتقل ہوجاتا ہے اور پھر وہاں تصویر اپنے پورے خدوخال سے ظاہر ہوتی ہے۔ جب کسی وجہ سے آنکھ کا قدرتی اندرونی دباﺅ بڑھ جائے، تو یہ آپٹک نرو متاثر ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں کالا موتیا لاحق ہوجاتا ہے۔ آنکھ کاپانی بننے اور اس کے اخراج کا توازن برقرار رہنے کی صورت ہی میں آنکھ کا اندرونی دباﺅ بھی نارمل حالت میں رہتا ہے، لیکن جب یہ توازن بگڑ جائے یا اس کے اخراج میں کسی سبب رکاوٹ پیدا ہوجائے، تو کالے موتیے کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر یہ زاویہ اس قدر تنگ ہو جائے کہ پانی کا گزر اس سے ممکن نہ ہو، تو طبی اصطلاح میں یہ قسم تنگ زاویے والا کالا موتےا کہتے ہےں۔گلگت بلتستان کے عوام کا المےہ ےہ ہے کہ ےہاں اچھے ہسپتال نہےں ہےں جن کی وجہ سے علاج کے لےے ملک کے مختلف ہسپتالوں کا رح کےا جاتا ہے اس لےے ضرورت اس بات کی ہے کہ ےہاں تمام بےمارےوں کے علاج کا اہتمام کرنے کے لےے جدےد ہسپتال بنائے جائےں‘آنکھوںکے جس ہسپتال کا سنگ بنےاد رکھا گےا ہے اس سے ےقےنا آنکھوں کی بےمارےوں میں مبتلا افراد کو اپنے علاقے میں ہی علاج کی سہولےات دستےاب ہوں گی اس لےے ہسپتال کو ترجےحی بنےادوں پر تعمےر کر کے فعال کےا جائے۔