محکمہ لائیو اسٹاک و ڈیری ڈیولپمنٹ گلگت بلتستان کے ضلعی دفتر ہنزہ کے زیر اہتمام ہنزہ کے علاقے مرتضی آباد، حسن آباد اور حیدر آباد میں 14 ہیچری فارمز کے 280 خواتین کسانوں میں دو ماہ کے دو ہزار سے زائد چوزے تقسیم کردئیے گئے۔ جن کا مقصد گھریلو پیمانے پر انڈے کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔اس کے علاہ اس پروجیکٹ کا ایک اور مقصد ان مرغیوں کے پیدا شدہ انڈوں سے مشینوں کے ذریعے چوزے نکلوا کر مقامی زمینداروں کے چوزوں کی ضرورت کو پورا کرنا ہے۔اس سلسلے میں ایک شاندار تقریب علی آباد میں منعقد ہوئی ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوے سابق سینئر وزیر اور رکن گلگت بلتستان اسمبلی کرنل ریٹائرڈ عبید اللہ بیگ نے کہا کہ کسانوں کے لیے ایسے پروجیکٹس کی وجہ سے نہ صرف غذائی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملتی ہے ، بلکہ تعلیم سے لیکر صحت کی اخراجات کے لیے بھی آمدنی کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔ ممبر اسمبلی نے شرکا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ایسے پروجیکٹس کی سرپرستی کرنا ہے۔ جبکہ انکی کامیابی کا دارومدار آپ کسانوں کی محنت پر ہے۔ کرنل ریٹائرڈ عبید اللہ بیگ نے مزید کہاکہ ہنزہ اور سکردو گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ سیاحوں کی میزبانی کرنے والے علاقے ہیں، ایسے میں ان علاقوں میں خالص غذا کی فراہمی کو یقینی بناکر مزید سیاحوں کی توجہ مبذول کروایا جاسکتی ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں آئندہ اے ڈی پی میں کسانوں کو اعلی نسل کے دودھ دینے والی بکریوں کی فراہمی کے لیے رقم مختص کرنے کا بھی اعلان کیا۔چھوٹے کاروبار اور گھرےلو صنعتوں کی اہمےت سے انکار نہےں کےا جا سکتا لےکن ہمارے ہاں ےہ صنعت تقرےبا ختم ہو چکی ہے۔سےد بابر علی کے مطابق دنیا بھر میں صنعتوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ بڑے پیمانے کی صنعتیں، درمیانی صنعتیں اور چھوٹی یا گھریلو صنعتیں جن میں دست کاریاں بھی شامل ہیں۔ کسی زمانے میں جاپان کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری نے پوری دنیا کی منڈیوں پر قبضہ کر رکھا تھا، لیکن چین کے مارکیٹ میں آنے سے مسابقت میں اضافہ ہوا اور پاکستان سمیت دنیا کے بیش تر ممالک کو بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی ملی۔ چین نے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو فروغ دیا۔ دنیا کی مینیوفیکچرنگ انڈسٹری میں ممتاز مقام حاصل کیا۔اس کام کے لیے چینی حکومت نے چھوٹے سرمایہ کاروں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے، بجلی، گیس کے نرخوں اور ٹیکس کی مد میں رعایت دی۔ چینی حکومت نے دست کاروں کو گھریلو صنعتیں لگانے کےلوے قرضے فراہم کیے اور پانچ سال کے لیے انہیں ٹیکس کی ادائیگی سے بری الذمہ قراردیا۔ حکومت نے گھریلو صنعتوں میں بننے والی مصنوعات کو بین الاقوامی منڈی تک پہنچانے کا فریضہ بھی خود ہی سر انجام دیا۔ ان حکومتی اقدامات کی وجہ سے آج بین الاقوامی منڈیوں پر چین کا قبضہ ہے۔ چین نے خریدار کی قوت خرید کے مطابق مصنوعات تیار کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جس کی بدولت آج مارکیٹ میں چینی ساختہ مصنوعات کی ایک وسیع رینج موجود ہے، جو ہر خریدار کی دسترس میں ہے۔ہمارے ہاں لوگوں کی ایک کثیر تعداد گھریلو صنعتوں سے روزگار کما رہی ہے۔ ملک کے طول وعرض میں دیہات و شہروں میں قایم قالین بافی، ٹیکسٹائل، ایمرائیڈری، زیورات، ہینڈی کرافٹ، کھیلوں کے سامان کی صنعتیں ملک میں کثیر زرمبادلہ لانے میں پیش پیش ہیں۔ اگر گھریلو صنعتوں کی بات کی جائے تو پاکستان کے دیہی علاقے اس کے فروغ میں نہایت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ سندھ اپنی ثقافتی اشیا، دست کاری کے کام کے لیے مشہور ہے تو بلوچستان میں ہونے والے سلائی کڑھائی کے کام کی دنیا بھر میں بہت زیادہ طلب ہے۔ پنجاب جراحی کے آلات، کھیلوں کا سامان، مٹی کے برتن جب کہ خیبر پختون خوا دیدہ زیب اور نفیس شالوں اور عمدہ پشاوری چپلوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ لیڈیز چپل، چمڑے کے پرس، موم بتی، کھیس، چنری، کڑھائی، جیولری، بیڈ شیٹس، کھلونے، چنگیر، ہاتھ کے پنکھے اور دیگر بہت سی اشیا بڑے پیمانے پر تیار کی جاتی ہیں۔ صنعتی طور پر پس ماندہ ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں کم سرمایہ ر کھنے والے لاکھوں افراد گھریلو صنعتوں سے وابستہ ہیں۔ گھریلو صنعتوں میں عام طور پر مشینری کے استعمال کے بجائے دست کاری اور مہارت کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ گھر میں کارخانہ قائم کرنے کے لیے نہ تو زیادہ سرمائے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ زیادہ وسیع جگہ کی۔ اگر حکومت گھریلو صنعتوں کو فروغ دے تو پھر ملک سے بے روزگاری کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ ان صنعتوں کا فروغ بڑی صنعتوں کے قیام کی راہ ہم وار کرتا ہے۔ اسمال انڈسٹریز کا ملک کی گراس ڈومیسٹک پراڈکٹس میں حصہ پانچ فی صد بھی نہےں ہے، جس کا اہم سبب توانائی کا بحران، امن و امان کی مخدوش صورت حال اور حکومتی سرپرستی کا نہ ہو نا ہے۔ اگر حکومت پڑوسی ملک چین کی طرح چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کرے، بجلی، گیس اور ٹیکس کی چھوٹ دے تو کوئی بعید نہیں کہ ہماری اسمال انڈسٹریز میں بننے والی مصنوعات بھی چین کی طرح عالمی منڈیوں میں اپنا تسلط قائم کر سکیں۔ چکنی مٹی سے بننے والے دیدہ زیب و خوب صورت برتنوں کو پاکستان سے دنیا بھر میں برآمد کیا جاتا ہے۔ گھروں میں قائم ان کارخانوں میں تیار ہونے والے کھانے کے برتن اور آرائشی ظروف دیکھنے والے کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتے ہیں۔ اس میں استعمال ہونے والا خام مال پاکستان میں ہر جگہ باآسانی دستیاب ہے۔ہوزری کی صنعت بھی پاکستان میں ترقی پذیر ہے۔ ملک کے ہر شہر اور دیہات میں اس صنعت کے مرا کز قائم ہیں جہاں بنیانیں، جرابیں، رومال اور سویٹر وغیرہ تیار ہوتے ہیں۔ چھوٹے پیمانہ پر تیار شدہ ہوزری کی مصنوعات کھلی مارکیٹ میں نسبتا ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں۔ تاہم تیزی سے تباہ ہوتی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے منفی اثرات بھی اس صنعت پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔مختلف علاقوں میں گھروں میں قائم چھوٹے کارخانوں میں خواتین کی سینڈلز اور جوتوں کو بڑے پیمانے پر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ کارخانے خواتین اور مردوں کے لیے روزگار کے وسیع مواقع پیدا کر رہے ہیں۔ یہ صنعت ملکی ضرورت کا کافی حصہ پورا کر رہی ہے، جب کہ یہاں بننے والی سینڈلز کو پورے ملک میں سپلائی بھی کیا جاتا ہے۔بعض علاقوں میں گھروں اور دکانوں میں قاوم چھوٹے کارخانے پیکیجنگ میں استعمال ہونے والے گتے کے بڑے کارٹنز سے لے کر جوتے کے ڈبے بنانے میں بھی کافی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کارخانوں میں کام کرنے والے افراد کی اکثریت مردوں اور بچوں کی ہے تاہم کچھ کارخانے مال بنانے کے لیے گھروں میں بھی خام مال فراہم کردیتے ہیں اور خواتین گھر بیٹھے انہیں بنا کر باعزت طریقے سے روزگار کما رہی ہیں۔ خواتین کے گلے، بنارسی ساڑھیاں اور دوپٹوں کو نہ صرف پاکستان بل کہ دنیا بھر میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، لیکن دوسری گھریلو صنعتوں کی طرح یہ صنعت بھی حکومت کی توجہ کی طلب گار ہے۔ اگر اس صنعت کو فروغ دیا جائے تو ہم بین الاقوامی منڈی میں انڈیا، بنگلادیش اور دوسرے ممالک کی مارکیٹ کا خاطر خواہ حصہ لے سکتے ہیں، جس سے ملک کو خطیر زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے۔کھیل کے سامان کی صنعت پاکستان میں کثیر زرمبادلہ بھی لاتی ہے۔ملک کی مجموعی برآمدات میں چھوٹے کارخانوں میں بننے والے قالینوں کا حصہ قابل قدر ہے۔ اس صنعت کے لیے سب سے اہم خام مال کپاس ہے۔ قالین بافی کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی اکثریت خواتین او ر بچوں پر مشتمل ہے۔ دوسری صنعتوں کی طرح مزدوروں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کا رجحان یہاں بھی کافی زیادہ پایا جاتا ہے۔ ہر چھوٹے بڑے شہر اور دیہات میںچمڑے کی مصنوعات بنانے کے مرا کز قائم ہیں۔ جہاں بننے والے خوب صورت جوتے، پرس، بیلٹ، بچوں کی جیکٹس ملکی ضروریات کو کافی حد تک پورا کرتے ہیں، جب کہ محدود پیمانے پر کچھ کارخانے اٹیچی کیس وغیرہ بھی تیار کرتے ہیں۔ چمڑے سازی کی صنعت سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔گھریلو میں قایم صنعتیں نہ صر ف ملک سے بر روزگاری کا خاتمہ کرتی ہیں بل کہ یہ ملک میں کثیر زر مبادلہ بھی لاتی ہیں۔ کاٹیج انڈسٹریز ایسی خواتین کے لیے بھی روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہیں جو کسی وجہ سے گھر سے باہر جا کر نوکری نہیں کر پاتیں۔ قالین سازی، موم بتی سازی، اور ہینڈی کرافٹ کی صنعت ایسی خواتین کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرتی ہے۔گھریلو صنعتوں کے فروغ سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، اس سے غربت میں بڑی حد تک کمی آئے گی اور ملک کی معیشت کو وسعت حاصل ہوگی، چناں چہ حکومت اور متعلقہ اداروں کو پاکستان میں گھریلو صنعتوں کے قیام، ان کی ترقی اور فروغ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے چاہیں۔گھرےلو طور پر مرغےاں‘بکرےاں‘گائے بھےنسےں پال کر گھرےلو معےشت کے ساتھ ملکی معےشت کو فروغ دےا جا سکتا ہے جس کے لےے اقدامات اشد ضروری ہےں۔
سپیشل اکنامک زون کے قیام کیلئے حکومت گلگت بلتستان سرمایہ کاروں کو ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی،وزیر اعلیٰ
ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے دو میں دو ہائر سیکنڈری سکول قائم کرنے کی حامی بھرلی،گورنر
غیر ضروری التوا ،دیا میر بھاشا ڈیم کی لاگت 750ارب تک پہنچ چکی ، احسن اقبال
2ڈپٹی سیکرٹریزکے تبادلے،6سیکشن آفیسرزکی ترقی