عوامی طاقت کا کوئی نعم البدل نہیں


 بنگلادیش سے فرار ہونے والی وزیراعظم حسینہ واجد اور بھارت کی مودی سرکار کا گھنائونا گٹھ جوڑ بے نقاب ہوگیا ہے۔مودی کی سفارتی سطح پر ایک اور بڑی ناکامی سامنے آ گئی، بھارتی حمایت یافتہ شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ بدترین انداز سے ہوا اور حسینہ واجد کے بھارتی کٹھ پتلی ہونے کا ثبوت اس طرح ملا کہ بنگلادیش سے فرار ہونے کے بعد بھگوڑی حسینہ واجد کا ائرپورٹ پر بھارتی مشیر اجیت ڈوال اور وزارت خارجہ کے افسران نے استقبال کیا ۔بھارت عرصہ دراز سے بنگلا دیش کو اپنے مذ موم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہا ہے ۔ حسینہ واجد نے بھارت کی کٹھ پتلی بن کر اپنے ہی عوام کے خلاف پالیسیاں بنائیں اور ظلم کیے۔ پاکستان کی نفرت میں بنگلا دیش نے جماعت اسلامی کو بھی نشانہ بنایا اور اس پر پابندی عائد کی ۔2014  میں عام انتخابات کے دوران اپوزیشن پارٹی کے لیڈر کو محض جماعت اسلامی کی حمایت پر نظر بند کیا گیا ۔ حسینہ واجد کی غداری اور اسلام دشمنی کی واضح مثال یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے دور حکومت میں سیاسی جماعت اسلامی کے متعدد رہنمائوں کو دہشت گردی کے مختلف مقدمات میں پھانسی دی ۔1971 میں بھارت اور شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان دشمنی میں جو بیج بویا تھا وہ آج انہی کے لیے نفرت کا تناور درخت بن چکا ہے۔ 1971 میں جس اگرتلہ میں بیٹھ کر شیخ مجیب نے پاکستان کے خلاف سازش کی آج وہیں پناہ لینے پر مجبور ہیں ۔حسینہ واجد اور اس کے تشدد پسند گروہ نے بھارتی ایجنسی را کے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے بنگلا دیشی عوام کی آزادی کا گلا گھونٹے رکھا۔ حسینہ واجد اور مودی سرکار کے اس گٹھ جوڑ نے سیکڑوں مظلوم بنگلا دیشی شہریوں کی جان لے لی۔ بھارت اس تمام خوں ریزی میں برابر کا شریک ہے جو پچھلے ماہ سے بنگلا دیش میں جاری تھی ۔بنگلادیش کے عوام نے اس نفرت انگیز گٹھ جوڑ کو مسترد کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دے دیا ہے۔ادھر سابق وزیر اعظم اور بنگلادیش نیشسلٹ پارٹی کی چیئرپرسن خالدہ ضیا نے ساڑھے چھے سال بعد جیل سے رہائی کے بعد ویڈیو لنک کے ذریعے پہلا عوامی خطاب کیا۔کرپشن مقدمے میں 2018  سے قید خالدہ ضیا کی رہائی حسینہ واجد کے مستعفی ہونے کے بعد صدر شہاب الدین کے حکم پر ہوئی۔78 سالہ خالدہ ضیا نے اس اہم موقع پر اپنے کارکنوں اور عوام کے جم غفیر سے ویڈیو لنک پر خطاب کیا۔اپنے خطاب میں خالدہ ضیا نے حسینہ واجد کے دور کو ظلم اور جبر کا دور قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں سب کو معاف کرتی ہوں اور کسی سے انتقام نہیں لوں گی۔ ملک کو آگے چلتے دینا چاہیے۔خالدہ ضیا نے فی الحال اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اپوزیشن رہنما خالدہ ضیا کے صاحبزادے اس وقت بیرون ملک جلا وطن ہیں اور جلد وطن واپس لوٹیں گے۔یہ پتہ نہیںحسینہ واجد انڈیا میں مستقل طور پر قیام کریں گی یا کچھ دنوں کے بعد کسی اور ملک چلی جائیں گی۔ ڈھاکہ کی انتہائی کشیدہ اور مشتعل صورتحال کے پیش نظر انھوں نے برطانیہ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا  لیکن ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ تاہم بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کے پیش نظر انڈین اسٹیبلشمنٹ یہی چاہے گی کہ وہ کسی اور ملک میں پناہ لے لیں۔دلی میں شیخ حسینہ کے پہنچنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی رہائش گاہ پر بنگلہ دیش کی صورتحال پر ایک اہم میٹنگ ہوئی جس میں انڈیا کے وزیر خارجہ، وزیر دفاع ، وزیر داخلہ، وزیر خزانہ اور قومی سلامتی کے مشیر شریک ہوئے۔بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ جب انڈیا میں ہینڈن کے فضائی اڈے پر پہنچیں تو ان کے استقبال کے لیے ملک کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال اور وزارت خارجہ کے اعلی اہلکار بھی موجود تھے۔انڈیا شیخ حسینہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے اور 1971 میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی عوامی لیگ پارٹی کو انڈیا کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ سابق خارجہ سیکرٹری ہرش وردھن شرینگلہ نے کہا کہ شیخ حسینہ کے تعلقات صرف حکومت سے ہی نہیں انڈیا کی سیاسی قیادت سے بھی بہت گہرے ہیں۔1975 میں جب ان کے والد شیخ مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو قتل کر دیا گیا تھا، اس وقت شیخ حسینہ یورپ میں تھیں۔ وہاں سے وہ دلی آئیں اور یہاں کئی برس مقیم رہیں۔اس وقت حسینہ کے شوہر جو ایک سائنسدان تھے انہیں ایک سرکاری ادارے میں ملازمت بھی دی گئی تھی۔ شیخ حسینہ کے شوہر ڈاکٹر واجد میاں ایک سائنسدان تھے جو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا حصہ رہ چکے تھے اور سقوط ڈھاکہ سے قبل کراچی نیوکلیئر پلانٹ کے چیف سائنسدان بھی تھے لیکن پھر حالات خراب ہونے کے بعد ان کی سیکیورٹی کلیئرنس ختم کر دی گئی تھی۔شیخ حسینہ تقریبا اکیس برس بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہ چکی ہیں۔ وہ گزشتہ سولہ برس سے مسلسل وزیراعظم کے عہدے پر فائز تھیں۔ مودی حکومت کے قیام کے بعد انہوں نے انڈیا سے پانی کی تقسیم کا سمجھوتہ کیا، نئے نئے تجارتی راستے کھولے، بنگلہ انکلیو کے تبادلے اور امن معاہدہ کیا۔انہوں نے جنرل حسین محمد ارشاد کی فوجی حکومت کے دوران دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے کیے۔اس تحریک نے شیخ حسینہ کو مقبولیت کی بلندی پر پہنچا دیا اور وہ ایک قومی رہنما بن کر ابھریں۔وہ 1996 میں پہلی مرتبہ ملک کی وزیراعظم بنیں ان کی حکومت پر نہ صرف کرپشن کے الزامات لگتے رہے بلکہ وہ انڈیا سے زیادہ قربت کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنتی رہیں۔2001  میں وہ اپنی سابق اتحادی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی رہنما بیگم خالدہ ضیا سے الیکشن میں شکست کھا گئیں اور انہیں وزیرِ اعظم کا منصب چھوڑنا پڑا۔بنگلہ دیش کی سیاست پر یہ دونوں خواتین تقریبا پچھلی تین دہائیوں سے چھائی رہیں اور انہیں ملک میں جنگجو بیگمات کے نام سے پکارا جانے لگا۔ ان دو رہنمائوں کی لڑائی کے سبب نہ صرف ملک میں بم دھماکے ہوئے، لوگ لاپتہ ہوئے اور لوگوں کا ماورائے عدالت قتل ہونا ملک میں معمول بن گیا۔2009  میں ایک عبوری حکومت نے ملک میں انتخابات کروائے اور شیخ حسینہ ایک بار پھر ملک کی وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔اپنے سیاسی سفر کے دوران بطور اپوزیشن رہنما شیخ حسینہ متعدد مرتبہ گرفتار ہوئیں اور ان پر حملے بھی ہوئے۔کئی مرتبہ انہیں ملک بدر کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور مبینہ کرپشن کے سبب ان پر عدالتی مقدمات بھی قائم کیے گئے۔بنگلہ دیش کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ غریب ممالک میں ہوتا تھا لیکن 2009  کے بعد شیخ حسینہ کی قیادت میں ملک کی معیشت میں بہتری آتی ہوئی نظر آئی۔ورلڈ بینک کے مطابق گمشتہ ایک دہائی میں تقریبا ڈھائی کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے باہر آئے ۔ملک میں سب سے زیادہ ترقی کپڑوں یعنی گارمنٹس کے شعبے میں نظر آئی اور بنگلہ دیش میں بنائے گئے کپڑے کو یورپ، شمالی امریکہ اور ایشیا تک رسائی ملی۔ملک کی اپنی دولت، قرضوں اور غیر ملکی اداروں سے معاونت کا استعمال کرتے ہوئے شیخ حسینہ نے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کیے، جن میں دو ارب نوے کروڑ ڈالر کی لاگت سے بننے والا پدما برج بھی شامل ہے۔حالیہ پرتشدد مظاہرے شاید شیخ حسینہ کے سیاسی کریئر کا سب سے بڑا چیلنج تھے اور اس سے قبل ملک میں ہونے والے انتخابات بھی تنازعات کا شکار ہوئے تھے۔ان انتخابات کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی جماعت لگاتار چوتھی مرتبہ اقتدار میں آئی تھی۔ان کے استعفے کے مطالبات کیے جاتے رہے لیکن شیخ حسینہ نے مزاحمت جاری رکھی۔ انہوں نے احتجاجی مظاہرین کو نہ صرف دہشتگرد قرار دیا بلکہ اپیل کی کہ ان دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔بنگلہ دیش میں سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہ کی وجہ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے تاہم تقریبا نصف نوکریاں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہے، مخصوص گروہوں کے لیے مختص ہیں۔سرکاری نوکریوں کا ایک تہائی حصہ ان افراد کے اہلخانہ کے لیے مخصوص ہے جنہیں بنگلہ دیش میں آزادی کی جنگ کا ہیرو مانا جاتا ہے۔ دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد بنگلہ دیش میں مہنگائی بڑھ گئی تھی، زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہو گئے اور بیرونی قرضہ تقریبا دو گنا بڑھ گیا تھا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کی اصل وجہ شیخ حسینہ کی حکومت کی بدانتظامی تھی۔  ماضی میں ملک کی معاشی کامیابیوں کا فائدہ صرف انہیں ہی ہوا ہے جو عوامی لیگ کا حصہ تھے۔ اس دوران ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں اور جمہوریت کا معیار گرتا گیا۔ وہ شیخ حسینہ پر آمرانہ طرزِ حکمرانی اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم نے اپنے سیاسی مخالفین اور میڈیا پر پابندیاں عائد کیں۔حالیہ مہینوں میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سینیئر رہنمائوں اور ہزاروں سیاسی کارکنان کو حکومت مخالف مظاہروں کے درمیان گرفتار کیا گیا۔انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق  2009 کے بعد ملک میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا۔بہرحال یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ حکام کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ عوام ہی بڑی طاقت ہیں جو عوام اقتدار دلا سکتی ہے وہ اقتدار سے بے دخل بھی کر سکتی ہے۔