حکومت، اپوزیشن میں معاملات طے، ڈپٹی سپیکر کیخلاف تحریک عدم اعتماد واپس

 سپیکراسد قیصر کی کوششوں سے قومی اسمبلی میں افہام وتفہیم کی فضا بحال ہوگئی حکومت اور اپوزیشن میں قومی اسمبلی کا اجلاس پرامن انداز سے چلانے،قواعد کی خلاف ورزی پر سخت تادیبی کارروائی کرنے،حالیہ قانون سازی پر نظرثانی کیلئے 12رکنی کمیٹی قائم کرنے کے معاہدے طے پاگئے جس کے بعد اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لے لی اور جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلاس تین بعد پرسکون ماحول میں ہوا،سپیکرنے معاملات کو سلجھانے اور ماحول خوشگوار رکھنے کیلئے  ہنگامہ آرائی کی پاداش میں سات ارکان کے قومی اسمبلی میں داخلے پر پابندی ختم کردی،جبکہ سپیکر اسدقیصر نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو اپوزیشن کا حق قرار دیتے ہوئے  کہا ہے کہ جانبدار نہیں، 7 ارکان کو ویڈیوز دیکھ کر معطل کیا، ایوان کو قواعد و قانون کے مطابق چلائوں گا،کسی رکن کو اٹھا کر باہر نہیں پھینک سکتا،جمعرات کو سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی کوششیں رنگ لے آئیں اور بالآخر قومی اسمبلی میں افہام وتفہیم کی فضا بحال ہوگئی،سپیکر کی کوششوں سے حکومت اور اپوزیشن میں معاملات طے پاگئے، گزشتہ روز اپوزیشن نے حکومتی وفد سے براہ راست مذاکرات سے انکار کردیا تھا، جس کے بعدسپیکر کو مفاہمت کے لئے خود آگے بڑھنا پڑا، اور اسپیکر نے مفاہمت کی غرض سے ہی حکومتی و اپوزیشن کے 7 ارکان کے قومی اسمبلی میں داخلے پرلگائی گئی پابندی ہٹادی۔اپوزیشن  نے گزشتہ روز ا سپیکر کو بھیجے گئے مراسلے میں ممبران پر پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیاتھا جن ارکان پر پابندی ختم کی گئی ہے ان میںحکومتی بینچز سے تعلق رکھنے والے علی نواز اعوان، عبدالمجید خان اور فہیم خان،اپوزیشن کے   شیخ روحیل اصغر،علی گوہر،چودھری حامد حمید اور آغارفیع اللہ شامل ہیں ۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت حکومت اور اپوزیشن رہنمائوں کا سپیکر آفس میں  اہم اجلاس ہوا،جس میں گزشتہ 3دنوں سے  قومی اسمبلی اجلاس میں پیدا ہونے  صورتحال کا جائزہ لیا گیا،جس کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قومی اسمبلی کا اجلاس پرامن انداز میں چلانے اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے رکن کیخلاف سخت تادیبی کارروائی کرنے کا معاہدے طے پا گیا۔بعد ازاں قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان طے پائے جانے والے معاہدے کو سپیکر  اس قیصر نے ایوان میں پڑھ کر سنایا اور کہا کہ  معاہدے کے تحت حکومت نے 10جون کو جو قوانین (الیکشن ترمیمی بل،کلبھوشن یادیو سے متعلق بل سمیت30بل )ایوان سے منظور کروائے ان پر اپوزیشن کا موقف ہے کہ وہ قانونی تقاضے پورے کئے بغیر عجلت میں منظور کروائے گئے،جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ قانون سازی قانون اور آئینی تقاضے پورے کر کے کی گئی ہے۔حکومت اور اپوزیشن میں طے ہوا ہے کہ ان بلوں پر  ایک کمیٹی بنا کر انکا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا،وہ تمام بل اب سینیٹ میں پیش ہو چکے ہیں اور سینیٹ کی قانون و انصاف کمیٹی کو  ارسال ہو چکے ہیں اس لئے قائم کی گئی کمیٹی اس  کے قانونی طریقہ کار کا جائزہ بھی لے گی،ان بلوں کی وجہ سے اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کیخلاف عد م اعتمادکی تحریک پیش کی تھی اس لئے کمیٹی کے قیام کے بعد اپوزیشن ڈپٹی سپیکر کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لے گی۔اس موقع   لیگی رہنما رانا ثناء اللہ نے معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ بالکل اسی طرح طے پایا تھا۔اس موقع پر سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ کمیٹی 12ارکان پر مشتمل ہو گی جن میں 6ارکان اپوزیشن اور6حکومت کے شامل ہونگے۔پیپلزپارٹی رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ہمیں قانون سازی پر اعتراض تھا ہمیں اس دن سنا نہیں گیا تھا جس کے جواب میں ڈپٹی سپیکر کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی،قانون سازی پر ہمارے سنگین خدشات تھے،امید کرتے ہیں کہ آئندہ اسطرح عجلت میں قانون سازی  نہیں کی جائے گی۔سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ معاہدے میں یہ بھی طے ہوا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے لیڈران کی تقریر پر غیر ضروری مداخلت نہیں ہو گی،قائد ایوان،اپوزیشن لیڈر،پارلیمانی لیڈرز  سمیت  تمام ارکان کا ذاتی احترام ملحوظ خاطر رکھا جائے گا اورذاتی حملے کرنے،رولز کا احترام نہ کرنے،گالم  گلوچ  پر سخت تادیبی کارروائی کی جائیگی،غیر پارلیمانی طرز عمل اور الفاظ  کی اجازت نہ ہو گی اور اگر کسی رکن نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی تو اسکے خلاف کارروائی ہو گی۔قبل ازیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے  سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد لانا اپوزیشن کا حق ہے، جانبدار نہیں، 7 ارکان کو ویڈیوز دیکھ کر معطل کیا، ایوان کو قواعد و قانون کے مطابق چلائوں گا، قومی اسمبلی میں پیش آنے والے واقعات افسوسناک ہیں، ایک دوسرے کو سنا جائے بجٹ پر فیصلہ عوام کرے، حکومت اپوزیشن دونوں ایوان کے ڈیکورم کا خیال رکھے، سب کو برابر کا موقع دیتا ہوں، 2020 میں 114 گھنٹے حکومت کو ملا 103 گھنٹے اپوزیشن کو ملا، ہاوس چلانے کے لیے کسی کو اٹھا کر ایوان سے باہر تو نہیں پھینک سکتا، کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں، ایوان کے تقدس کے لیے اقدام اٹھایا۔  اسد قیصر نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے وزرا کے خلاف ایکشن سے نہیں روکا ہے۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور بلاول بھٹو سے رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسپیکر کا استعفیٰ مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی کی خواہش ہو سکتی ہے تاہم میری کوشش ہے کہ ایوان کو قانون کے مطابق ہی چلایا جائے۔ اسد قیصر نے کہا کہ بجٹ اجلاس میں سب کو دلیل سے بات کرنی چاہیے اور فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ بجٹ کیسا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف اور حکومتی اراکین سے بھی رابطے کیے ہیں بہر حال کسی کو ایوان سے اٹھا کر باہر تو نہیں پھینک سکتا۔ کچھ اراکین پر ایوان میں داخلے پر پابندی لگائی تو اس پر بھی اعتراض کیا گیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ جو ایکشن لیا وہ اس وقت تک لیا جب تک اجلاس چلتا رہا۔ اجلاس کے بعد کی ویڈیوز دیکھ کر ایکشن لیا اور جومینڈیٹ ملا ہے اس کے مطابق کام کروں گا