احسان علی دانش
آپریشن تھیٹر تک خدا کسی کو نہ پہنچائے مگر مرحلہ جب آتا ہے تو خود جاتا نہیں، لے جایا جاتا ہے ایسے میں ڈاکٹر کے سامنے ہتھیار ڈال کر لیٹنے کے علاوہ کوئی راہ فرار نہیں بچتی۔ یہ تھیٹر وہ واحد مقام ہے جہاں انسان ہوش و حواس کے ساتھ چل کے جاتا ہے اور سٹریچر پر بے ہوش واپس لایا جاتا ہے۔ ہم اس دور کے وہ بہادر لوگ ہیں جو اب تک کی زندگی میں دو بار آپریشن تھیٹر کی یاترا کر چکے ہیں۔ تھیٹر کا اپنا رعب داب ہوتا ہے جہاں بڑے سے بڑے تیس مار خان چوہے بن جاتے ہیں۔ اب سے قبل مثانے میں بننے والی پتھری کو توڑ کر نکالنے کے لئے لیزر آپریشن کرایا گیا اور خداوند عالم کے فضل و کرم اور ڈاکٹرز کی مہربانی سے بیماری دور ہوگئی۔ اب کی بار بھی ہم انشااللہ ٹھیک ہو جائیں گے چونکہ آر ایچ کیو سکردو میں ماہر آرتھوپیڈک ڈاکٹر مہدی علی نے اپنی پیشہ وارانہ مہارت اور خلوص و محبت سے ہمارے پاﺅں کا جیسے آپریشن کیا ہم دل و جان سے مطمئن ہوگئے ۔ڈاکٹر صاحب کی صلاحیت کے ہم پہلے سے قائل ہیں چونکہ اس شہر میں ہڈی کے تمام کیسز ڈاکٹر مہدی علی اور ڈاکٹر ناصر دیکھتے ہیں۔ گزشتہ ایک آدھ سالوں سے مقامی مریضوں کے علاہ قومی اور بین الاقوامی ٹورسٹ جن کے ساتھ یہاں کے پہاڑوں میں حادثات رونما ہوتے ہیں ان کا علاج بھی ڈاکٹر مہدی اور ڈاکٹر ناصر کرتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں بعض یورپی اور انڈین مریضوں کی ہڈیاں جوڑی تھیں وہ اپنے اپنے ممالک سے آج بھی واٹس اےپ پر ٹریٹمنٹ لے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ان کے اپنے ممالک کے ماہر ڈاکٹروں نے سکردو کے ڈاکٹروں کے علاج کو نہایت اعلی درجے کا اطمینان بخش قرار دیا۔ یہاں کے ڈاکٹر جیسے بھی ہوں ‘یہاں کے تھیٹر میں جانا بھی کوئی معمولی بات ہرگز نہیں۔ انساں بیمار ہو جاتا ہے تو علاج کے لئے لا محالہ ہسپتال کا رخ کرتا ہے اور ہسپتال کی آخری چارہ جوئی تھیٹر ہے جہاں بیماری کو کاٹ پھینکا جاتا ہے۔ ہمیں ہمارے آپریشن کے دوران ڈاکٹر نے ہوش اور بے ہوشی کے بین بین رکھا۔ ہمارے پاﺅں کی چیر پھاڑ کے دوران ہم تھوڑا تھوڑا بے ہوش بھی رہے اور تھوڑا تھوڑا ہوش میں ڈاکٹر سے بات چیت بھی کرتے رہے۔ ڈاکٹر نے جہاں کمال مہارت سے درد کے بغیر ہمارے پاﺅں میں ایک کیل ٹھونک دیا وہاں ہماری کمزوری کو بھانپتے ہوئے درد اور زخم پر اشعار سنانے لگے۔ بس تھیٹر میں شعر سننا تھا ہم بھول گئے کہ ہم تھیٹر کے ڈراﺅنے سٹریچر پر بے بسی کے عالم میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں یوں لگا جیسے خیال، گھائل، جرات اور ذیشان کے ساتھ شنگریلا جھیل کنارے مشاعرے میں ہیں۔میں آج بھی سوچ رہا ہوں آخر ایک ہڈی والے ڈاکٹر کو اتنے اشعار کیوں اور کیسے یاد ہیں۔ کیا انہوں نے میرے لئے راتوں رات اتنے اشعار کا رٹہ تو نہیں لگایا؟میرے سینے پر ایک سکرین تھی جو میرے پاﺅں کے آپریشن اور میری نظروں کے درمیان پردے کا کام کرتی تھی، اس لئے میری نظریں مسلسل چھت کی طرف تھیں۔ ایک گھنٹہ مسلسل چھت کے محدود حصے کو دیکھ کر اپنی نظروں پر ترس کھانے لگا جنہیں رنگینیاں دیکھنے کی عادت تھی۔دوران آپریشن میں نے ڈاکٹر سے درخواست کی۔ مہدی علی صاحب۔آپ آر ایچ کیو کے ایم ایس کو مشورہ دیں کہ باہر خرچہ کرنے کی بجائے تھیٹر چھت کی سیلنگ کی پینٹنگ کرائیں ۔ یا تو قرآنی آیات لکھوائیں۔ یا وطن عزیز کا نقشہ ہی لگوائیں تاکہ گھنٹہ دو گھنٹہ مریض وقت گزاری کے لئے وطن کے شہروں، شاہراہوں، پہاڑوں، دریاﺅں اور جھیلوں کا نظارہ کر سکیں۔ دل والے مریضوں کی دل پشوری کے لئے مشہور زمانہ مونا لیزا کی مسکراہٹ سے بھر پور سکیچ لگانے کا بھی مشورہ دے سکتے تھے مگر یہاں ایسی مسکراہٹوں پر شرعی دفعات لگنے کا امکان پیدا ہو سکتا تھا۔چلئے چھت کی پینٹنگ کرےں نہ کرےں سکردو کا آر ایچ کیو ہسپتال جس پر بلتستان بھر کے مریضوں کا بوجھ ہے۔ جہاں روزانہ ہزاروں میں مریض آتے ہیں اور اپنے درد کا درماں اسی ہسپتال کو مانتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہسپتال کے سبھی ڈاکٹر اپنے اپنے شعبوں میں ماہر ہیں، پیرا میڈیکل سٹاف کی بھی شکایت نہیں کی جاسکتی، تاہم دوائی سمیت دیگر سہولیات کے اعتبار سے یہ نا قابل بیان ہے۔ میں جب تھیٹر میں داخل ہوا تو دوائیوں اور دیگر ساز سامان کی ایک طویل فہرست تھمائی جس میں کل بےس سے زاید آئٹم درج تھے۔ مژدہ سنایا گیا کہ یہ تمام چیزیں باہر سے خریدنا ہیں۔ ہمارے پاس لائق ڈاکٹر موجود ہیں بس۔مجھے دو دن پہلے باور کرایا گیا تھا کہ آپ تیاری سے آئیں آپ کا آپریشن ہوگا۔ لہذا میں ذہنی اور مالی طور پر تیار ہوکر گیا تھا مگر خیال آیا کہ کسی غریب راہ گیر ، کسی سائےکل سوار کو کوئی بڑی گاڑی ٹھوک کر گزر جائے اور جائے حادثہ پر موجود لوگ اس بے ہوش زخمی کو اٹھا کر ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچائےں جس کی جیب میں واپسی کا کرایہ تک نہ ہو ایسے میں اس کے آپریشن کے لئے بےس سے زائد آئٹم والی لسٹ کس کو تھمائیں۔ سرجیکل ڈیپارٹمنٹ کے میل اینڈ فیمل وارڈ کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں اور تقریبا سب کے سب آپریشن کیس ہیں اور سب کو سارا سامان باہر سے خریدنا پڑتا ہے ۔ بس ایک ڈاکٹر کی فیس نہیں لگتی۔ ہمارے منتخب نمائندے خواہ وہ سکردو کے ہوں یا روندو کے، کھرمنگ کے ہوں یا خپلو کے۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ بہت سارے مریضوں کے پاس گھر سے آر ایچ کیو آنے کا ٹیکسی کا کرایہ تک نہیں ہوتا انہیں 15000 ہزار کی لسٹ تھمائیں تو ان پہ کیا گزرتی ہوگی۔ بات سوچنے کی ہے۔ جب بھی باہر سے دوائی خریدنے کی نوبت آئی تو مجھے اپنے گاﺅں سرمیک کے ڈاکٹر سکندر حیات خان کا مکمل فری ہسپتال یاد آیا جہاں کچھ بھی باہر سے لینے کی حاجت نہیں رہتی۔ وہ ایک تنہا انسان خواہ وہ اپنی جیب سے ڈالے یا کسی سے مانگ کر لائے مریض کو ایسی طویل لسٹیں نہیں تھماتے بلکہ سب دوائیاں اور دیگر ضروریات ہسپتال سے بالکل فری میں فراہم کی جاتی ہیں، مریض اور ایک اٹنڈنٹ کے تین وقت کے کھانے کے ساتھ ۔ لہذا انہیں اکےس توپوں کی سلامی پیش کرنے کو جی کرتا ہے۔ جبکہ یہ تو پورے ریجن کے لئے سرکار کا اکلوتا لاڈلا سب سے بڑا آر ایچ کیو ہسپتال ہے۔