خون خاک نشیناں

رانا فیضان علی

سانحہ کارساز پاکستانی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتا اک نےا سانحہ ہے جس نے اےک بار پھر اس حقےقت کو اجاگر کےا ہے کہ غرےب و مظلوم کی کہےں شنوائی نہےں جبکہ کچھ طبقات قانون کو اپنی جےب میں لےے پھرتے ہےں۔کارساز کے مقام پر جہاں طوےل عرصہ قبل بے نظےر بھٹو کے قافلے پر خود کش حملہ کےا گےا تھا اسی مقام پر اےک امےر زادی آئس کے نشے میں مخمور گاڑی چلاتے ہوئے متعدد افراد کو اپنی گاڑی کے ٹائروں سے کچل دےتی ہے جس میں باپ بےٹی سمےت تےن شہری جاں بحق اور چھے زخمی ہو جاتے ہےں‘خون ناحق بہانے پر شرمندگی کے احساس تلے دبنے کے بجائے موقع واردات سے فرار ہونے کی کوشش کرتی ہے‘شہری اسے گرفتار کر کے پولےس کے حوالے کرتے اور پولےس اسے تھانے لے جا کر گھر بھےج دےتی ہے۔پولےس کی کےا مجال کہ وہ مےٹرو پاور گروپ کے چےئرمےن اور ممتاز صنعتکار کی اہلےہ کو حوالات میں رکھ سکتی عوام کے احتجاج پر ملزمہ کو تھانے بلاےا گےا‘ بادل نخواستہ اس کا اےک روزہ جسمانی رےمانڈ بھی دے دےا گےا‘ ےہ وہ رےمانڈ نہےں جس میں تھانے کی دےواروں سے بے گناہوں کی چےخےں ٹکراتی ہوئی دم توڑ دےتی ہےں بلکہ ےہ مہمان نوازی والا رےمانڈ ہے جس کی پاسداری سے جےبےں گرم ہوتی ہےں‘ اےف آئی آر تک کے الفاظ اپنے معنی کھو دےتے ہےں اور مجرم بے گناہی کا لبادہ اوڑھے فخر سے معاشرے کی بے بسی کا مذاق وکٹری کا نشان بنا کر اڑاتا ہے۔طبقہ اشراف کی گرفتار بے لگام ےہ اولادےں ےوں دھمکےاں دےتی ہےں گوےا ےہ ملک ان کی جاگےر ہو‘کبھی کہا جاتا ہے کہ تم نہےں جانتے میں کون ہوں‘ مےرا باپ کون ہے؟حالےہ واقعہ کی ملزمہ کی جانب سے بھی ےہ کہا گےا ’تم مےرے باپ کو نہےں جانتے‘ اتنی رعونت و تکبر تو شداد‘نمرود‘قارون اور ہامان میں بھی نہےں تھا۔کےس کو مزےد کمزور کرنے کےلئے ےہ ظاہر کےا گےا کہ ملزمہ و قاتلہ نفسےاتی و ذہنی مرےض ہے اور ےہ حادثہ اس کی نفسےاتی کےفےت کے باعث پےش آےا حالانکہ ذہنی مرےض وہ نظام ہے جو کھلے عام برآمد کردہ شراب کو شہد کی بوتلوں میں تبدےل کر دےتا ہے‘ذہنی مرےض وہ اہلکار ہےں جن کی دماغی نسوں کو نوٹوں کی چمک دمک متاثر کر دےتی ہے‘ وہ ڈاکٹر ہےں جو راتوں رات دولت کے انبار میں دب جانے کی خوشی لےے سرٹےفےکےٹ جاری کر دےتے ہےں۔کےا برطانےہ کا نظام بھی ذہنی مرےض ہے جو اےک مرےضہ کو ڈرائےونگ لائسنس عطا کر دےتا ہے۔وہ وقت دور نہےں جب ےہ اطلاع منظر عام پر آئے گی کہ مقتولےن کے ورثا نے دےت لے کر ملزمہ کو معاف کر دےا ہے اور ملزمہ جو جرم کے باوجود کسی خوف کے شائبے کے بغےر اپنی انگلی لہراتی رہی‘ وہ اپنے کارنامے پر وکٹری کا نشان بھی بنا سکتی تھی لےکن اس نے قانون کو محض انگلی دکھائی ہے کہ اس قانون اور اس کی مرتب کردہ شقوں کی مےرے نزدےک کوئی اہمےت نہےں‘ےہ شقےں جہاں بولتی ہےں‘ اثر انداز ہوتی ہےں‘ میں وہ مخلوق نہےں ہوں‘ قانون مےرے پاﺅں کی جوتی ہے جسے میں اپنے اشارہ ابرو سے جےسے چاہوں بدل سکتی ہوں۔شقاوت قلبی کا ےہ عالم ہے کہ دل کے نہاں خانوں میں ےہ احساس تک اجاگر نہےں ہوتا کہ میں نے اےک جےتے جاگتے خاندان کو موت کی نےند سلا دےا ‘اےک باپ کی امنگوں و خواہشوں اور اس کی بےٹی کے خوابوں کو سولی چڑھا دےا ہے‘ جرم کا احساس تو دردمندوں کی آنکھوں سے نےند کو دور کر کے اپنے آپ کو معاف کرنے کی اجازت نہےں دےتا۔ےہ کےسی بے رحمی ہے ‘ بے حسی ہے کہ جرم قبول کر کے قانون کے مطابق اس کی سزا کو خوش آمدےد کہنے کی بجائے فرار ہونے کے راستے تلاش کےے جا رہے ہےں۔سزا سے بچنے کےلئے ہر ناجائز ہتھکنڈہ اپناےا جا رہا ہے‘دباﺅ ڈال کر کےس کے خاتمے کی سعی کی جا رہی ہے‘ملزمہ کو بےرون ملک فرار کرانے کی کوششوں کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔

المےہ ےہ ہے کہ قانون ہمارے معاشرے میں موم کی وہ ناک ہے جسے طاقتور و بااثر افراد و طبقات جب اور جےسے چاہےں موڑ لےتے ہےں۔غالبا ےونانی فلاسفہ نے ےہ کہا تھا کہ” قانون مکڑی کا وہ جالا ہے، جس میں کیڑے مکوڑے تو پھنستے ہیں مگر بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں“۔ پاکستان آئےن و قانون کی پامالی کی سب سے بڑی آماجگاہ ہے اور عدلےہ کی بلند و بالا عمارتےں جو ”مےزان“ سے مزےن ہےں اس پامالی کو تحفظ فراہم کرنے کےلئے گرد کی دبےز تہہ میں لپٹی قانون کی کتابوں سے نت نئے قانونی نکات تلاش کرنے کی زنبےل ہےں۔اگر کوئی بااثر شومئی قسمت قانون کے شکنجے میں پھنس بھی جائے تو اوپر سے لے کر نےچے تک تمام قوتےں اس کے دفاع کےلئے متحرک ہو جاتی ہےں پھر چاہے قانون میں تبدےلی کی جائے ےا پھر مدعی کو دباﺅ میں لا کر مدعی کی مرضی میں اپنی مرضی کے ادغام کو ممکن بنانے کےلئے تمام حربے اختےار کےے جائےں۔ےہ صرف اےک ڈھکوسلہ ہی ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہےں اور ےہ کہ قانون اندھا ہوتا ہے‘ قانون نے کبھی سب کو برابر نہےں سمجھا‘ قانون اندھا بھی نہےں اس کی آنکھےں ہےں جوعمےق گہرائےوں میں موجود اپنے مفادات کو بھی باآسانی دےکھ لےتی ہےں۔عدلےہ کی عمارات کے باہر نصب مےزان عدل اب تو عدل کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔حالےہ واقعہ نےا نہےں ہے پاکستان کی تارےخ اےسے واقعات سے اٹی پڑی ہے۔اگر عوامی دباﺅ کے تحت اس نوع کے ملزموں کو سزائےں ہو بھی جائےں تو ان پر عمدرآمد کی نوبت نہےں آتی۔اسلام آباد میں سارہ انعام قتل کیس کے مرکزی ملزم سینئر صحافی ایاز امیر کے بیٹے شاہ نواز امیرکو سزائے موت سنا دی گئی ہے لےکن اس پر عملدرآمد شاےد برسوں نہ ہو سکے ےہ بھی ممکن ہے کہ کوئی راستہ نکال کر مجرم کی بچت کا راستہ نکال لےا جائے۔

 20 جولائی 2021کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون فور کے ایک مکان میں ستائےس سالہ نور مقدم کو سفاکانہ طرےقے سے قتل کر دیا گیا ‘پولیس نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو گرفتار کر لیا تھا۔ اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے 24 فروری 2022 کو ظاہر جعفر کو قتل کا الزام ثابت ہونے پر سزائے موت سنائے جانے کے ساتھ ساتھ ریپ کے الزام کے تحت پچےس سال قید بامشقت، اغوا کا جرم ثابت ہونے پر دس سال قید جبکہ دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے اس کیس میں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے نہ صرف ٹرائل کورٹ کی سزاﺅں کو برقرار رکھا بلکہ ریپ کے جرم میں ظاہر جعفر کو دی گئی پچےس سال قید بامشقت کی سزا کو بھی سزائے موت میں بدل دیا تھا لےکن مجرم کو تاحال سزائے موت نہےں دی گئی ۔

سپریم کورٹ نے چودہ برس قبل کراچی میں شاہ زیب خان نامی نوجوان کے قتل کے مقدمے میں مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت تمام ملزمان کی سزاﺅں کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے انہیں مقدمے سے بری کر دیا تھا۔شاہ زیب خان کی ہلاکت کا واقعہ 24 دسمبر 2012کی شب کراچی میں ڈیفینس کے علاقے میں پیش آیا تھا جہاں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں نے تلخ کلامی کے بعد فائرنگ کر کے شاہ زیب کو قتل کر دیا تھا۔اس مقدمے میں ٹرائل کورٹ نے شاہ رخ اور ان کے ساتھی سراج تالپور کو سزائے موت جبکہ دیگر دو مجرموں سجاد تالپور اور غلام مرتضی لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔2019 میں سندھ ہائی کورٹ نے ہی شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی جانب سے دائر بریت کی اپیل مسترد کر دی تھی تاہم ان کی سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔پھر عدالت کو بتاےا گےا کہ فریقین کے درمیان صلح ہو چکی ہے لہذا صلح نامے کی بنیاد پر تمام مجرمان کو بری کر دیا جائے۔مقدمے کے وکےل کا کہنا تھا ملزم اٹھارہ سال کا بچہ تھا، تواس عمر کے بچوں کو اصلاح کا موقع دینا چاہیے۔ےوں اصلاح کا موقع دے دےا گےا ۔اسی طرح بلوچستان کی ماڈل کورٹ نے بلوچستان اسمبلی کے سابق رکن اور پشتونخوا میپ کے رہنما مجید خان اچکزئی کو ٹریفک سارجنٹ کی ہلاکت کے مقدمے میں بری کردیا تھا حالانکہ ٹریفک سارجنٹ کو کھلے بندوں سڑک پر مار دےنے کی فوٹےج موجود تھی مگر کورٹ نے بلوچستان اسمبلی کے سابق رکن اور صوبائی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے سابق چیئرمین مجید خان اچکزئی کو عدم ثبوتوں کی بنا پر بری کردیا ۔ابتدائی طور پر پولیس نے ٹریفک پولیس انسپکٹر کی ہلاکت کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا تاہم جب اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میڈیا پر نشر ہوئی تو مجید خان اچکزئی کو گرفتار کیا گیا لےکن بعد میں وہ ضمانت پر رہا ہوگئے ۔ کوئٹہ کے ٹریفک سارجنٹ عطااللہ کو دن دہاڑے روڈ ایکسیڈنٹ میں اگلے جان پہنچانے والے ایم پی اے مجید اچکزئی کو تمام تر ویڈیو ثبوتوں اور سی سی ٹی وی فوٹیجز کے باوجود باعزت بری قرار دیا جانا ”انصاف کا قتل عام تو ہرگز نہےں“ ۔ےہ بات ثابت شدہ ہے کہ پاکستان میں غریب کو انصاف ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہوتا کہ عدالت اپنے ہاتھ کھڑے کر دیتی کہ مجھ سے طاقتور کے خلاف انصاف نہیں ہوتا۔نہ جانے کب تک خون خاک نشےناں رزق خاک ہوتا رہے گا۔