محمد قاسم نسیم
دنیا کی نظروں سے اوجھل سرفہ رنگا نامی گائوں وادی شگر کا ایک نہایت ہی پسماندہ گائوں ہے ۔یہ گائوں ماضی میں بمشکل آٹھ سے دس گھرانوں پہ مشتمل تھا۔نظروں سے اوجھل اس لئے کیونکہ ماضی میں یہاں تک پہنچنے کے ذرائع آسان نہ تھے۔ سکردوسے جاتے ہوئے دریا سندھ کشتی کے ذریعے عبورکرنے کے بعد پیدل ہی یہاں تک پہنچنا ہوتا تھا۔ یہ گائوں دریاشگر کے کنارے ایک خوبصورت اور میٹھے پانی کے چشمے کے ساتھ آباد ہے۔ جس کے ایک طرف خوبصورت صحر ا جسے چاروں طرف سے سنگلاخ کالے پتھروں کی چٹانوں نے گھیر رکھا ہے۔اس گائوں کے قریب دنیا کی خوبصورت ترین جھیل'' جربہ ژھو'' بلائنڈ لیک بھی واقع ہے جو اس گائوں کی خوبصورتی اور اس کی سیاحتی اہمیت و افادیت کو اور بڑھا دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ زمانہ قدیم میں یہ گائوں سکردو کے مقپون حکمرانوں کی شکار گاہ کے طور پہ استعمال میں رہا۔سرفہ رنگا اس وقت ضلع شگر کی حدود میںشامل ہے لیکن شگر کے علیحدہ ضلع بننے کے بعد بھی کچھ عرصے تک سرفہ رنگا کی زمینوں کے معاملات سکردو سے دیکھے جارہے تھے۔ یہاں ہونے والی پہلی اور دوسری جیپ ریلی بھی سکردو انتظامیہ کے زیر اہتمام منعقد کرائی گئی تھی ۔ اس پسماندہ اور گمنامی کی گھٹائوں کی اوٹ میں چھپا یہ گائوں اچانک شہرت کی بلندیوں کو اُسوقت چھونے لگا جب سال2019ء میں سکردو اور شگر اضلاع کے سنگم پہ واقع اس گائوں سے متصل صحرا میں جیپ ریلی کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ابتدا ء میں ضلعی انتظامیہ سکردو نے انتہائی کم وسائل کے ساتھ اس ریس کا آغاز کیا لیکن اس صحرا کا مخصوص محل وقوع اس ایونٹ کی کامیابی اور اسے ملکی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح تک شہرت دلانے کا باعث بنا۔ جہاں پہ یہ جیپ ریس ہوتی ہے وہ بیشتر میدان ژھے تھنگ کہلاتا ہے لیکن بس اللہ کو سرفہ رنگا کو شہرت دینا مقصود تھا کہ میدان سرفہ رنگا سرد صحرا سے جانا اور پہچانا جانے لگا۔ چاروں اطراف سے کالی سیاہ چٹانوں میں گھرے اس صحرا کے ایک طرف شیر دریا توایک طرف دریا شگر ،ساتھ میں قدیم تاریخی شاہراہ کرگل جبکہ اس صحرا کے سینے کو چیرتی ہوئی شاہراہ کے ٹو اس کی بین الاقوامی اہمیت کو چار چاند لگا دیتے ہیں ۔یہاں جیپ ریلی کے لئے ملک بھر سے نامور ریسرز اور اس ایونٹ کی کوریج کے لئے ملکی و بین الاقومی میڈیا کی یہاں آمد کے ساتھ ہی یہ صحرا دنیا کے بلند ترین سرد صحرا کے طور پر متعارف ہوا۔ اس صحرا کی خوبیاں یہیں پہ ختم نہیں ہوتیں بلکہ اس جیپ ریس میں شامل ہونے والے ریسرز کے انٹرویو کاموقع ملا تو اُن کی زبانی معلوم ہوا کہ اس صحرا کی اب تک اُوپرگِنی گئی خوبیاںتو اس صحرا کے ساتھ قدرت کی عطا کردہ خوبیاں ہیں لیکن یہ صحرا اپنے دامن میں بہت ساری اور بھی خوبیاں سمیٹے ہوئے ہے جو ابھی تک یہاں کے مقامی افراد پر بھی وا نہیںہوئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم چولستان اور تھر میں جب ریس کے لئے جاتے تھے تو وہاں کا موسم ہمارے لئے ناقابل برداشت ہوتا ۔ صحرا میں ایستادہ خیموں میں رات گزارنا ہمارے لئے ناممکن نہ سہی تو مشکل ضرور تھا۔ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اُن علاقوںکے لوگوں کو کسی حوالے سے بھی مہمان نواز نہیں کہا جاسکتا۔ ہم بہت خرچہ کر کے خیمے کھڑے کرتے تھے اگلی صبح دیکھتے تو بیشترخیمے چھریوں سے پھاڑے ہوئے ہوتے تھے۔جس سے ہمیں جس طرح مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا تھا وہ ا پنی جگہ لیکن ہم ایونٹ کے اختتام تک ذہنی طور پر کوفت اور اذیت میں مبتلا رہتے ۔ اس کی نسبت یہاں نہ صرف سازگاراور خوشگوار موسم سے ہم فرحت محسوس کرتے ہیں بلکہ یہاںہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم گھر سے دور کسی پسماندہ خطے میں موجود ہیں۔ یہ وہ عوامل تھے کہ جن کی بدولت صرف اورصرف تین سے چار سال کے عرصے میں سرفہ رنگا کی یہ ریلی علاقائی سے ملکی اور اب بین الاقوامی سطح کی ریلی میں بدل گئی ہے۔سرفہ رنگا ایک برانڈ کا نام بن چکا ہے۔ریلی تو دنیا کی بڑی ریلیوں میں شامل ہو ہی گئی۔ اب سرفہ رنگا کے نام سے کوئی بھی کاروبار یا مقامی پیداوار شروع کی جائے تو وہ بھی راتوں رات کامیابی کی منزلیں طے کرنے کی پوزیشن پہ آگئی۔ لیکن بد قسمتی سے نہیں معلوم اس ایونٹ کو کس کی نظر لگ گئی کہ اب اس سال سیزن اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے لیکن جس طرح کے حالات پیدا ہوگئے یا کئے گئے ہیں کہ یہ ایونٹ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ یوں تو اس ایونٹ کی تیاری اور انتظامات میں ہر سال رہ جانے والی خامیوں اور کمزوریوں کے باعث عوامی سطح پر بداعتمادی اور خدشات و تحفظات کا عنصر عوامی حلقوں کو شروع دن سے لاحق رہا تھا لیکن وہ اس سکیل پر نہیں تھے کہ اِن کو بنیاد بنا کر اتنی بڑی ریلی کو ملتوی یا منسوخ کیا جاتا۔اس سرد صحرا سے متعلق حقوق رکھنے والی آبادیوں کے مکینوں کو ماضی میں فقط یہ شکایت تھی کہ جس صحرا پر یہ ریلی منعقد ہورہی ہے یہ ہماری چراہ گاہ ہے اور یہاں ریلی کے انعقاد سے چراہ گاہ کو نقصان پہنچ رہا ہے لیکن یہاں ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لئے ریلی کے منتظمین نہ ہی حکومت ایونٹ کی آمدنی میں سے ہماری اشک شوئی کی حد تک کوئی مدد کرتی ہے۔ ابتدا میں عوامی سطح پر سٹیک ہولڈرز بالخصوص عوامی حلقوں کو ساتھ رکھتے توشاید معاملات لوگوں کے مطالبات اسی حد تک رک جاتے اور اگر عوامی حلقوں کا ایسا کوئی حق نہیں بنتا تھا تو وہ واشگاف الفاظ میں موقع پہ واضح کر دیتے۔ لیکن معاملہ چھوڑے رکھے جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب کمیونٹی اس موقف کے ساتھ سامنے آئی ہے کہ ژھے تھنگ میدان پر ملکیت کا دعوی کر بیٹھی ہے اور موقف اختیار کر رہی ہے کہ ہم یہاں کسی صورت جیپ ریس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم نے ان عمائدین کا موقف اور وہ کس جواز کے ساتھ اس صحرا پہ ملکیت کا دعوی کر رہے ہیں یہ جاننے کے لئے اِن کے عمائدین سے رابطہ کیا تو اِن کا کہنا تھا کہ'' ژھے تھنگ صحرا کمیونٹی کی ملکیتی زمین ہے جسے ہم نے حقوق رکھنے والے بارہ مواضعات کے باشندوں میں تقسیم کررکھا ہے ۔ ہم اس صحرا کو آباد کرنے جارہے ہیں لہذا یہاں جیپ ریلی کا انعقاد نہیں ہو سکتا ہے۔ صحرا پہ ہمارا دعوی آج کا نہیں ہے بلکہ بندوبستی کاغذات میں اِسے ہماری چراہ گاہ ظاہر کیا گیا ہے۔سال 1972 تک حقوق رکھنے والے مواضعات کے لوگ اپنی چراہ گاہ ہونے کی بنیاد پر اس میدان کے مالیہ کی رقم حکومت کوادا کرتے رہے ہیں۔ سال1998ء زمین متعلقہ علاقوں کے لوگوں میں تقسیم کی گئی اور حکومت نے خود اس صحرا کوہمارے لئے آباد کرنے کے لئے نرو سے یہاں تک پانی لانے کے لئے کوہل بنانے کے منصوبے کی منظوری دی۔اُس وقت کے وفاقی وزیر اُمور کشمیر عبدالمجید ملک نے اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا۔منصوبے پر سرکاری خزانے سے تین کروڑ روپے بھی صرف ہوچکے ہیں ۔اس صحرا پہ حقوق رکھنے والوں میں سکردو الڈئنگ کے لوگ بھی شامل ہیں ۔باہمی تقسیم میں صحرا کا جوحصہ الڈینگ والوں کے حصے میں آیا انہوں نے محسنِ ملت علامہ شیخ محسن علی نجفی کی علمی و دینی خدمات سے متاثر ہو کر اپنے حصے کی زمین شیخ صاحب کے سپردکی ۔ شیخ صاحب نے زمین کا فوری قبضہ لیا اور شجر کاری کروائی ۔یہاںلگنے والے پودے اب نہ صرف تن آوردرخت بن چکے ہیں بلکہ یہاںبڑی عمارت بھی تعمیر ہو چکی ہے۔اس عرصے میں حکومت نے کسی مرحلے پہ بھی کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ انتظامی حکام کی سفارش پر ایفاد کے تحت میدان کی آباد کاری کا منصوبہ بھی منظوری کے لئے بھجوایا جاتا رہا۔سال بھر اس صحرا میں کھیلوں کی جو سرگرمیاں جاری رہتی ہیںصرف اُن پارٹیز کو شگر کا اسسٹنٹ کمشنر اجازت نامہ جاری کرتا ہے جو اس میدان پہ حقوق کا دعوی رکھنے والا موضع کوتھنگ کے عمائدین سے این اوسی حاصل کرتا ہے۔سال2018 میں شگر کے کچھ علاقوں میں سیلاب آیا اور ان کے رہائشی مکانات کو بھی نقصان پہنچا ۔اُن علاقوں کو سیلاب سے لاحق خطرات والے علاقوں میں گنا جانے لگا اب ان لوگوں کے پاس اِسی میدان کے علاوہ ایسی دوسری جگہ نہیں جہاں اپنے بچوں کے لئے سر چھپانے کی کوئی جگہ بنا سکے۔ میدان کی تقسیم کے اسی تسلسل کے تحت اب یہاں حقوق رکھنے والے دیگر مواضعات کے لوگ زمین باہم تقسیم کر کے اس پہ تصرف کا حق استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔زمین ماضی میں محلوں کی بنیاد پر اجتماعی اور اب انفرادی بنیادوں پر تقسیم کرکے پلاٹ بندی کی جا چکی ہے ۔اپنے حصّے میں آنے والی زمینوں پہ کئی لوگوں نے بورنگ کر کے پانی نکال کر اب باقاعدہ آباد کاری کے مرحلے پہ پہنچ چکا ہے۔ تواب جا کے حکومت کس جواز کے ساتھ آباد کاری کے اس عمل پہ معترض ہو سکتی ہے؟'' شگر کے عمائدین کے موقف کے رد عمل میں جب گلگت بلتستان حکومت کا موقف جاننے کے لئے حکومتی ایک اعلی عہدہ دار سے رابطہ کیا اور عمائدین شگر کے موقف کی روشنی میں ژھے تھنگ ' سرفہ رنگا میدان کی قانونی پوزیشن اور اس سال یہاں جیپ ریلی کے انعقاد کے امکانات کے بابت دریافت کیا تو انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی بنیادپر بتایا کہ'' ژھے تھنگ سرفہ رنگا میدان سرکار کی زمین ہے البتہ یہاں شگر اور سکردو کی کئی مواضعات کے گھاس چرائی حقوق ہیں ۔ اُن کے اِن حقوق کو حکومت تسلیم کرتی ہے اور کبھی گھاس چرائی میں رکاوٹ نہیں ڈالی ہے۔ سال 1998ء میں یہاں کوہل کا منصوبہ اس لئے رکھا حکومت اپنی زمینوں کو آباد کرنا چاہتی تھی۔اس سوال کے جواب میں کہ سکردو الڈینگ کے حصے کی زمین جس شخصیت کو دی گئی جس نے فوری آباد کاری شروع کی جسے اب کئی سال گزر چکے اُن کا کہنا تھا کہ کسی کی شجر کاری پہ فوری اعتراض نہ کرنے کا مطلب اس کی ملکیت کو تسلیم کرنا نہیں ہوتا ۔ حکومت درختوں کی قیمت ادا کر کے زمین کسی بھی وقت واگزار کراسکتی ہے ۔ ایسی کارروائی کسی بھی لمحے شروع ہو سکتی ہے۔ یہ تاثر بھی درست نہیں کہ ماضی میں کسی ڈپٹی کمشنر نے یہ زمینیں لوگوں کو تقسیم کرکے دی ہیں کیونکہ سرکاری ریکارڈ میں ایسا کوئی اندارج نہیںہے۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ اس سال سرفہ رنگاجیپ ریلی کے انعقاد کے لئے حکومتی سطح پر بڑی کوششیں ہوئیں مگر کمیونٹی آمادہ نہیں ہے۔حکومت کا فیصلہ ہے کہ کمیونٹی کی کسی شرط کے ساتھ ہم ایونٹ کرانے کے لئے تیار نہیں۔ایونٹ کرانے میں خطے کے عوام کامفاد ہے اگر عوام خود تیار نہیں تو ہم زبردستی نہیں کرائیں گے۔زور زبردستی اور ڈنڈے کے ساتھ ایونٹ کرانے کا آپشن ہم نے نہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔زمینوں کا فیصلہ ہمیشہ کے لئے حل کرنے کی غرض سے لینڈ ریفارم کی نئی سفارشات اور مسودہ قانون کے ساتھ مجاز حکام چند روز میں سکردو پہنچ رہے ہیں''۔بہت ہی مختصر عرصے میں سرفہ رنگا جیپ ریلی مقامی و علاقائی ایونٹ سطح سے شروع ہو کر بین الاقوامی سطح تک مقبولیت حاصل کرلینا یقینا حکومت کی کاوشوں کی کامیابی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس جیپ ریلی کے دوران سکردو مارکیٹ میں اکیس کروڑ روپے سے زائد آمدنی ہوئی ہے۔یہ حقائق اپنی جگہ لیکن شروع دن سے اس میدان پہ گھاس چرائی کے حقوق رکھنے والوں کو بالخصوص اور بلتستان کے لوگوں کو بالعموم اس ایونٹ سے متعلق تحفظات لاحق رہے ہیں۔بدقسمتی سے ان معاملات پر بر وقت توجہ نہیں دی گئی جس کے باعث لوگوں کی شکایتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اب جا کے اس میدان پہ حقوق رکھنے والے مواضعات کے لوگ ماضی کی چھوٹی موٹی شکایتوں کو چھوڑ کرباقاعدہ میدان پر ملکیت کا دعوی ہی کر بیٹھے اور یہاں مزید جیپ ریلی کرانے سے نہ صرف سرے سے ا نکاری ہے بلکہ واشگاف الفاظ میں یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ میدان ہماری ملکیت ہے ۔ہم نے اس میدان پر حقوق رکھنے والے بارہ مواضعات کے باشندوں کے حصّے میں فی کس جتنی زمین آتی وہ تقسیم کرکے دی ہے۔ عنقریب یہاں تعمیرات شروع کرنے والے ہیں بلکہ بعض نے تو یہ عمل شروع کر بھی دیا ہے۔اہل شگر کے اس دعوی کے حوالے سے ان کے پاس اپنے دلائل ہیں ۔جن کا ہم نے اوپر جائزہ بھی لیا۔لیکن سرکار کا اس میدان کے حوالے سے جو موقف ہے وہ خاصا کمزور اور مبہم ہے۔ سرکار کے اختیار کئے گئے موقف پہ یہ سولات اُٹھتے ہیں کہ اگر یہ سرکار کی زمین ہے تو اس میدان کی آباد کاری کی غرض سے پانی لانے کے لئے سال 1998 میں منصوبے کی منظوری کیوں دی؟ اگرچہ بعد میں حالات نے اس منصوبے کو ناقابل عمل اور ناکام منصوبہ ثابت کردیا ۔اُس وقت کے ذمہ دار حکام نے اس ناقابل عمل منصوبے پہ سرکار کے خزانے سے تین کروڑ روپے کیوں صرف کئے؟جب موضع الڈینگ والوں نے اسی میدان میں اپنے حصے کی زمین کو خطے کی ایک اہم شخصیت کو عطیہ کیا اور وہاں فوری شجر کاری اور اب تعمیرات شروع کی تو حکومت تب کہاں تھی؟گزشتہ چند سالوں میں اس میدان کو انہی مواضعات کے مکینوں میں پلاٹ بندی کرکے تقسیم کیا جانے لگا توصوبائی حکومت ، ضلعی انتظامیہ اورمحکمہ مال کہاں سوئی ہوئی تھی؟بلکہ عوامی حلقے یہ تک کہتے ہیں ایک ڈپٹی کمشنر کی شہ پر یہ زمینیں تقسیم ہوئیں وگرنہ ہزاروں کنال اراضی پہ مشتمل رقبہ کی پلاٹ بندی میںمہینے نہیں تو کئی ہفتے لگے ہی ہونگے تو اس سارے عرصے میں کیا واقعی ضلعی انتظامی کوخبر تک نہیںہوئی؟یہ زمینیں اگر سرکار کی ہیں یا پھر عوام کی ہیں دونوں صورتوں میں مسئلے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں بالخصوص شگر اور بالعموم بلتستان بھر کے وزراء نے کیوں چپ سادھ رکھی ہے اور اپنے آپ کو سارے قضیے سے کیوں دور رکھا ہوا ہے؟ وہ بھی ایک ایسے مرحلے پہ کہ اس عالمی شہرت کے حامل جیپ ریلی کے نہ ہونے سے خطے اور حکومت دونوں کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور معاملہ چھوڑے رکھنے سے ممکنہ طور پر نقص ِ امن کے خطرات بھی سروں پہ منڈلا رہے ہیں۔تاہم اس سال سرفہ رنگا ایونٹ کو روکے جانے کے بعد اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں اور کلکٹر کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ اپنے اضلاع میں سرکار کی زمینوں کا تحفظ یقینی بنائے۔ساتھ ہی غیر قانونی طو ر ہونے والی الاٹمنٹ کو منسوخ کیا جائے ۔اس حکم کے تناظر میں شگر میں اب تک 1200 کنال جبکہ گانچھے میں1906 سے زائد کنال زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کی جاچکی ہے ۔ یہ عمل دوسرے اضلاع میں بھی شروع کئے جانے کا عندیہ دیا جارہا ہے ۔سرفہ رنگا میدان پر لوگوں کی ملکیت ہونے کے دعوی کی بنیاد پہ جیپ ریلی روکے جانے پہ حکومت نے دوسرا قدم یہ اُٹھایا ہے کہ کافی سالوں سے التوا کا شکار لینڈ ریفارمز کے عمل کو پھر سے تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لئے زمینوں سے متعلق اصلاحات کے لئے مسودہ تیار کیا گیا ہے ۔کمیشن کے ارکان پہلے مرحلے میں بہت جلد سکردو پہنچنے والے ہیں۔ کمیشن ارکان یہ مسودہ عوامی حلقوں کے سامنے رکھیں گے۔مشاورت عمل مکمل ہونے کے بعد قانون سازی کے ذریعے زمینوں کے معاملے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل کیا جائے گا ۔اس تاثر میں کوئی صداقت نہیںکہ حکومت یا بعض حکام اس ریلی کو کسی دوسرے ضلع میں منتقل کرنے جارہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے حکومت ہر ممکن حد تک کوشش کررہی ہے کہ یہ ریلی اوّل تو سرفہ رنگا میں ہی ہو ،ایسا ممکن نہ ہوا تو بلتستان میں کسی دوسرے مناسب مقام پر اس ریلی کے انعقاد کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ پاک وویل والوں کی بھی یہی خواہش ہے کہ ریلی یہاں منعقد ہو۔ جیپ ریلی کے لئے اب وقت بھی نکلتا جا رہا ہے۔ ایسے میں حکومت کو اس سرد صحرا سے متعلق اپنی واضح موقف کو لے کر سامنے آنا چاہیے۔ کاغذات کی رو سے بارہ مواضعات کے حقوق مسلّم ہیں توپھر لوگوں کو کسی متبادل مقام پر زمین فراہم کی جائے اور اس میدان کو جیپ ریلی کے لئے مختص رکھا جائے ۔ان آبادیوں کے مکینوں کے اگر صرف گھاس چرائی کے حقوق ہیں تو جیپ ریلی کے نتیجے میں چراہ گاہ کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کے لئے ہر سال جیپ ریلی کے موقع پہ انہیں ایک معقول رقم بطور رائلٹی ادا کرنے کاسلسلہ شروع کیا جائے۔تیسری صورت میں اگر حکومت اس میدان کو سرکار کی زمین تصور کرتی ہے تو بھی حکومت کو اب تک کی اختیار کیے ہوئے معذرت خواہانہ رویہ اور مبہم پالیسی کو ترک کرتے ہوئے دو ٹوک موقف کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔ زیادہ عرصہ تک معاملہ حل کئے بنا چھوڑے رکھا جائے تو اس سرد ترین صحرا کا درجہ حرارت خاصا اوپر جا سکتا ہے۔دانشمندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ خدا نخواستہ کسی ناخوشگوار واقعے کے رونما ہونے سے پہلے حکمت عملی کے ذریعے مسئلے کا سب کے لئے قابل قبول وقابل عمل حل نکالا جائے۔