گلگت بلتستان میں پہلے خلائی ایپلی کیشن اینڈ ریسرچ سنٹر کا افتتاح کر دیا گیا' اس ریسرچ سنٹر کے ذریعے گلگت بلتستان میں گلیشیئرز کے پگھلائو اور موسمیاتی تبدیلیوں کے عمل کی نگرانی کی جائے گی۔ماحولیاتی چیلنجز کی سیٹلائٹ نگرانی مضبوط بنانے میں مدد ملے گی اور لینڈ سلائیڈنگ کے متعلق ڈیٹا بھی فراہم ہو سکے گا۔ اپنے سیاسی اور سماجی مسائل کے باوجود ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں کسی سے پیچھے نہیں،آئی ٹی ہو یا دیگر شعبہ جات پاکستانیوں نے اپنا لوہا منوایا ہے،خلائی ٹیکنالوجی کا تصور محض چاند تک پہنچنے تک کا ہے لیکن درحقیقت اب اس دنیا کی بقا کا بہت زیادہ دارومدار خلائی ٹیکنالوجی پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس دگرگوں حالت کے باوجود اس میں بھرپور کام کررہا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ قدرتی آفتوں کے بارے میں پہلے سے آگاہی اور تباہی کا اندازہ بھی اسی ٹیکنالوجی سے لگاکر نئے قصبے بسائے جاسکتے ہیں بس کچھ کمی ہے تو وہ فنڈز کی ہے جو یقینا منصوبہ بندی سے دور کی جاسکتی ہے۔ خلائی ٹیکنالوجی ایپلی کیشن سے سیلاب او ردیگر آفات کا بھی معلوم ہو سکتا ہے ، زراعت ، ماحولیات ، موسمیات ، کان کنی ، شہری منصوبہ بندی ، روڈ ٹریفک مینجمنٹ ،اور سول ایوی ایشن سمیت دیگر کئی شعبوں میں ، بیدو سیٹ لائٹ نیوی گیشن سسٹم بھرپور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسپیس سائنس کی اپیلی کیشن اور نقشوں سے سیلاب سے تباہی کا معلوم کرسکتے اور نئے قصبے بسانے کا منصوبہ بنا سکتے ہیں ۔جنگلات کم ہیں توماحول بہتر کیسے ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے آبادی کے ساتھ جنگلات میں بھی اضافہ کرنا ہو گا۔ نجی ٹیکسی کمپنیوں کی ایپس،گوگل، او ردیگر سرچ انجن جی آئی ایس کی مدد سے ڈیٹا حاصل کرتے اور معلومات فراہم کرتے ہیں۔حالیہ بارشوں اور سیلاب میں سارا ڈیٹا جی آئی ایس سے حاصل ہوتا رہا ہے،موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی اور جاسوسی کے نیٹ ورک میں ہماری خلائی ٹیکنالوجی کیا کام کررہی ہے؟آج کے دور میں سب سے بڑی ایپلی کیشن سیٹلائٹ تصاویر کی ہے جس کے ذریعے مختلف کام اور ریسرچ ہوتی ہے۔آج جدید دنیا ڈیٹا پرکام کررہی ہے وہی کامیاب بھی ہیں کیونکہ ڈیٹاکی بنیاد پر ہی معلومات اور اطلاعات کا حصول ممکن ہے۔ بے تحاشہ ادارے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے چیزوں کو لے کر چل رہے ہیں۔ موسمیاتی اورماحولیاتی تبدیلی اور دیگر شعبو ں کے ڈیٹاسے بہت فائدہ اٹھایاجاسکتاہے۔خلائی ٹیکنالوجی اتنا وسیع موضوع ہے جس پرجتنی بات کی جائے کم ہے۔دنیا بہت تیزی سے بدل اورترقی کررہی ہے ہم نے خلائی ٹیکنالوجی پر کام نہیں کیا توبہت پیچھے رہ جائیں گے ۔پہلے لوگوںکا خیا ل تھا کہ خلائی ٹیکنالوجی صرف ستاروں اور سیاروں کے علم کے بارے میںہوتی ہے لیکن اب یہ ٹیکنالوجی بہت جدید ہوگئی ہے ۔2013 میں انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی پاکستان نے پہلا کیوب سیٹ لائٹ لانچ کیا ،ا س کومزید بڑھاتے ہوئے تھری کیوب سیٹس لائٹس بنایج جا رہا ہے جس کی فنڈنگ حکومت اور ایچ ای سی کررہی ہے ۔اسی طرح ایک لیب میں گلوبل نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم پر کام ہورہا ہے ۔اس وقت دنیا کی تمام اپیلی کیشن جی این ایس ایس کی مدد سے کام کررہی ہیں ۔بیدو گلوبل سیٹ لائٹ نیوی گیشن سسٹم کے تمام سیاروں کی ترتیب مکمل ہونے سے چین اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کے مابین سیٹ لائٹ نیوی گیشن سسٹم کے شعبے میں مزید تعاون کو فروغ ملے گا۔اس وقت پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی چین کی شنگھائی ٹرانسپورٹ یونیورسٹی کے ساتھ دی بیلٹ اینڈ روڈکے فریم ورک کے تحت بیدو سگنل وصول کرنے کا نظام تیارکر رہا ہے۔ بیدو نیوی گیشن سسٹم کو پاکستان میں استعمال کیے جانے کے انتہائی وسیع امکانات موجود ہیں۔چین کے تیار کردہ عالمی سیٹ لائٹ نیوی گیشن سسٹم کے مکمل ہونے کے بعد ، یہ عالمی صارفین کو موسمیات ، نیوی گیشن اور اوقات کار کی چار وں موسموں کی خدمات فراہم کرے گا۔ پاکستان نا صرف بیدو کی خدمات حاصل کر سکتا ہے بلکہ بیدو کی ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کر سکتا ہے اورا س کے ساتھ متعلقہ سافٹ وئیر اور ہارڈ ویئر کے آر اینڈ ڈی پیداوار اور استعمال کو بھی فروغ دے گا ، جس سے پاکستان میں روزگار کے نئے مواقع اور معاشی ترقی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ پاکستان میں خلائی ایپلی کیشنز کے ذریعے پائیدار مستقبل کیلئے ملک کے تکنیکی محاذ کو مضبوط کر رہا ہے۔پاکستان کے اسکولز ،کالجز اور یونیورسٹیوں میں خلائی ٹیکنالوجی کے بارے میں آگہی دینا چاہیے تاکہ نوجوانوں کو جدید اپیلی کیشن کے بارے میں معلومات ہوں اور اعلی تعلیم حاصل کرکے اپنا اور ملک کا نام روشن کریں۔ ہماری یونیورسٹی ،کالجز او راسکولوں میں خلائی ٹیکنالوجی کی تعلیم نہیں ہے ۔ ہمارے شمالی علاقہ جات کے مسائل جن میں زلزلہ ،سیلاب،گلیشئرز ،معدنیات شامل ہیں،ان پر کام ہو رہا ہے ۔ایک لیب میں جنگلات پر کام ہورہا ہے جس میں جنگل میں اگنے والے پودوں پر تحقیق جاری ہے۔ایک لیب میں ماحولیات ،موسمیاتی تبدیلی ،ایروسول ،ریموٹ سینسنگ پر بہت کام ہورہا ہے ان سب کا تعلق اسپیس سائنس کی ایپلی کیشن سے ہے۔موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جو صورت حال سامنے آرہی ہے ،اس کی آگہی اور بادلوں کی حرکات سے جی آئی ایس کے ذریعے ڈیٹا اور معلومات حاصل کی جاسکتی ہے ۔میڈیا پر بارش کی پیشنگوئی اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے دی جاتی ہے۔بارش کی پیشنگوئی بھی بادلوں کی حرکت سے معلوم کرتے ہیں۔جی آئی ایس ایپلی کیشن بہت وسیع ہے جس میں مختلف سمتوں میںکام ہو رہاہے۔اس وقت ڈیٹا دستیاب ہونے کا ایشو نہیں۔ ناسا اور سیٹ لائٹ سے ڈیٹا مل جاتا ہے لیکن ہمارے پاس اپنا ڈیٹا نہیں ہے۔ ہمیں اپنا سیٹ لائٹ بنانا اور ڈیٹا جمع کرناہے،ہمیں اپنی ضروریات کے مطابق اپنے آلات تیار کرنے ہونگے۔ پیشنگوئی ہوتی ہے جو میڈیاکے ذریعے بتائی بھی جاتی ہے،پیشگی ڈیٹامعلوم ہوجاتا ہے،سیٹ لائٹ اور گوگل ہمارے اہم سورسز ہیں،بڑی آفات سے نمٹنے کیلئے ہمارے پاس ڈیٹا نہیں ہوتا۔ڈیٹا کی مدد سے فصلوںکا نقصان اور کتنا علاقہ متاثرہوا ہے معلوم کیاہے۔سیلاب کی پیشگی اطلاعات دستیاب ہوتی ہیں، پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کی طرف سے بھی انتباہ جاری کیا گیا تھا،ماضی میں سیلاب اور بارشوں سے اتنی تباہی نہیں پھیلی جس قدر اب ہوئی ہے۔ انسانی جانیں اب محفوظ ہیں لیکن فصلوں ،زمینوں ،مکانات اور جانوروں کے نقصانات کے ازالے میں برسوں لگ سکتے ہیں ۔اسپیس سائنس کی اپیلی کیشن سے معلومات لے سکتے ہیں اور نقشوں کی مدد سے معلوم کرسکتے ہیں کس علاقے میں کتنی تباہی آئی ہے اور نئے قصبے کیسے بسائے جاسکتے ہیں۔بدقسمتی سے وسائل کا استعمال نہ کرنے سے انسانی جانوں کا بہت نقصان ہواہے۔تجاوزات کی وجہ سے ہمار ا انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیاہے، ان چیزوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت انڈیپنڈنٹ ریسرچ گروپ، جی آئی ایس کی مدد سے گلوبل ڈیٹا حاصل کرکے ریسرچ اور دیگر کام کرتے ہیں اب ہماری آبادی دوسو گنا بڑھ چکی ہے اور جنگلات کم ہیں جنگلات پر کام کرنے کیلئے وسائل کی کمی ہے۔ہم ڈرون ٹیکنالوجی سے بھی کئی چیزوں کو بہتر کرسکتے ہیں۔ایک ماہ قبل الرٹ جاری کیا جا سکتا ہے تاکہ اس کے نقصانات سے محفوظ رہنے کی اقدامات کیے جا سکیں ہم جس خطے میں رہتے ہیں اس میں زلزلے کی لہر مختلف سمتوں میںحرکت کررہی ہیں، ہمیں اس پر بھی کام کرنا ہے۔پاکستان کو اللہ نے معدنیات سے مالا مال کیا ہے لیکن ہمیں معلوم نہیں وہ کہاں کہاںہیں،ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے نقشوں کی مدد سے معدنیات کا معلوم کرسکتے ہیں،طلبا کو خلائی ٹیکنالوجی کے شعبے کوسیکھنے کیلئے سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ، لیپ ٹاپ،انٹرنیٹ سے اسے بہت اچھی طرح سیکھا جا سکتا ہے ۔ان چیزوں کو سیکھنے کیلئے گوگل اور سیٹ لائٹ پر ڈیٹا آسانی سے اور مفت میںمل جاتاہے ،صرف دلچسپی ہونی چاہیے ان سہولتوں کو استعمال کرتے ہوئے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے ۔کچھ ملٹی پل سوفٹ ویئرز جو انٹرنیٹ پر آسانی سے ڈاون لوڈ ہوجاتے ہیں ان کو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔گویاکام کرنے کیلئے ڈیٹا اور سوفٹ ویئر دونوں مفت میں مل جاتے ہیں۔ کسی بھی علاقے میں سیلاب آتاہے تو وہاں کتنے گھر ،زمینیں ،جانور اور زرعی زمینیں ہیں ان کا ڈیٹا موجود ہے لیکن وہ ڈیٹا نہیں شیئر کیاجاتا۔ہم اس ڈیٹا پرکا م کریں تو پیشگی اطلاعات سے بڑے نقصانات سے بچ سکتے ہیں اور بھی کئی ادارے ہیں جو ڈیٹا شیئر نہیں کرتے حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس طرف بھی سوچنا چاہیے ۔کچھ سیٹ لائٹ ڈیٹا مختلف ادارے یاویب سائٹ مفت میں بھی دیتے ہیں۔ہمیں اپنے ذرائع پربھی انحصار کرنا چاہیے،اس مرحلے میں جی آئی ایس اور اسپیس ڈیٹاکو استعمال کرتے ہوئے منصوبہ بندی کرنی ہوگی تب ہی بہتر کام کرسکیں گے۔