میزان عدل کا شہسوار:قاضی فائز عیسی

رانا فیضان علی

قاضی فائز عےسی بھی رخصت ہو گئے‘حےرت ہے انہوںنے اپنی ملازمت میں توسےع کےلئے کوئی حربہ اختےار کےا نہ حکومت کو بلےک مےل کرنے کی کوشش کی ‘نہ اسٹےبلشمنٹ کے در دولت پر حاضری دی ‘نہ آئےن و قانون سے ماوراءکوئی فےصلہ صادر کےا‘بشری تقاضوں کے پےش نظر ےہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سے بھی غلطےاں سرزد ہوئی ہوں گی لےکن انہوں نے طاقتور حلقوں کے خلاف جو فےصلے دےے ماضی میں ان کی نظےر نہےں ملتی۔اپنے خلاف جھوٹے رےفرنس کا سامنا کرتے ہوئے سرخرو ہوئے ‘ےہاں تک کہ رےفرنس دائر کرنے والے ےہ تسلےم کرنے پر مجبور ہوئے کہ وہ غلطی کے مرتکب ہوئے۔سپرےم کورٹ کے وہ ججز جو کروڑوں روپے مالےت کے پلاٹ لےتے رہے اور اپنی بےگمات کے لےے بھی انہوں نے اپنی مرضی کے کارنر پلاٹ حاصل کےے اور کارنر نہ ملنے پر برہمی کا اظہار بھی کےا‘لگژری گاڑےاں لےتے رہے لےکن قاضی فائز عےسی نے نہ پلاٹ لےے‘ نہ پروٹوکول اگر وہ پروٹوکول لےتے تو کسی بےکری کے بہکائے گئے ملازم کو ان کی تضحےک کی جرات نہ ہوتی اور پروٹوکول کا عملہ دےکھ کر ہی اس کی گھگھی بندھ جاتی۔انہوں نے تو زےارت میں اپنی پشتےنی زمےن بھی گورنمنٹ آف پاکستان کے نام کردی تاکہ قائداعظم کی ےادگار میں توسےع کی جا سکے۔الوداعی ڈنر پر صرف ہونے والے قومی خزانے کے بےس پچےس لاکھ بھی بچا گئے ۔دوسری جانب ےہاں وہ ججز بھی انصاف کی مسند پر براجمان رہے جنہوں نے پلاٹوں اور پلازوں پر قبضے کےے مگر ےہ عدالت انہےں سزا نہ د ے سکی بلکہ انہےں مستعفی ہو کر عزت سے مراعات سمےت رخصت کی اجازت دی۔ ےہ کےسا انصاف ہے کہ وہ سزا سے محفوظ رہے اور سارے ججز منہ انگلےاں ڈالے خاموش رہے ۔کےا مستعفی ہونا جرم کی سزا سے بچا لےتا ہے ےا پھر انصاف ہی محدود اور مخصوص ہو چکا ہے۔ قاضی فائز عےسی کو ےہ داد نہ دےنا زےادتی ہو گی کہ انہوں نے مدت ملازمت میں توسےع قبول کی نہ آئےنی عدالت ےا آئےنی بنچ کی سربراہی جس کی انہےں پےشکش کی جا رہی تھی حالانکہ ےہاں تو توسےع کےلئے سازشوں‘رےشہ دوانےوں‘دھمکےوں‘منتوں‘ترلوں اور سفارشوں سے کام لےا جاتا ہے۔ کےا جنرل باجوہ نے اپنی توسےع کےلئے مارشل لاءلگانے کی دھمکی نہےں دی تھی ۔قاضی فائز کا ہمےشہ سے ےہ موقف رہا کہ پارلےمنٹ قانون ساز ادارہ اور اداروں کی ماں ہے اس کا منظور کردہ پرےکٹس اےنڈ پروسےجرز آرڈےننس درست ہے۔کےا کوئی اس دور میں اپنے اختےارات بھی کم کرتا ہے ےہاں تو زےادہ سے زےادہ اختےارات کے حصول کی دوڑ لگی ہے مگر انہوں نے چیف جسٹس کے اختیارات کم کرکے پارلیمنٹ کے قانون کوتسلیم کرتے ہوئے بنچوں کی تشکیل میں چیف جسٹس کی اجارہ داری کا خاتمہ کےا ۔ پاکستان کی تاریخِ عدل میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہِ راست دکھانے کا حکم دیا۔ جسٹس بندیال کی کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 63-A کی تشریح کرتے ہوئے آئین کو دوبارہ لکھنے کا اقدام انہوں نے کالعدم قراردیا۔پانامہ میں میاں نوازشریف اور دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے فیصلے کو بھی انسانی حقوق سے متصادم قرار دے کر کالعدم کردیا۔فےض آباد دھرنا کےس میں حکومت، خفیہ ایجنسیوں اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں، تمام حساس ادارے اپنی حدود سے تجاوزنہ کریں اور ان کی حدود طے کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے، آئین پاک فوج کو سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بننے سے روکتا ہے اور فوج کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کی حمایت نہیں کرسکتی، وزارت دفاع اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان حلف کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔ سابق صدر اور آمر جنرل پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ بھی سنایا۔اِن کے کسی بھی فےصلے میں آئینی وقانونی سقم دکھائی نہےں دےتا ۔ےہ قاضی فائز کا ہی اعجاز ہے کہ انہےں برطانوی درسگاہ مڈل ٹےمپل میں بطور مےنجر منتخب کےا گےا ہے وہ پہلی پاکستانی شخصےت ہےں جنہےں اس عہدے پر نامزد کےا گےا۔

قاضی القضاءکا منصب بلاشبہ انتہائی ذمہ داری‘غےر جانبداری کا تقاضا کرتا ہے‘ ےہ منصب پھولوں کی سےج نہےں کانٹوں کی مالا ہے۔ہمارے وہ اسلاف جنہےں ےہ منصب عطا کےا جاتا تھا وہ اس ذمہ داری کے خوف سے تھر تھر کانپتے تھے مگر فی زمانہ اس منصب کے حصول کےلئے ناجائز ہتھکنڈے اختےار کرنے سے بھی گرےز نہےں کےا جاتا۔ سفارش‘ اقربا پروری‘ذاتی و جماعتی مفادات اس منصب کے حصول کا مےرٹ ہےں۔لاءفرمز اور سےاسی جماعتےں اپنے منظور نظر وکلاءکو نےچے سے اوپر تک قاضی کے منصب پر فائز کرانے کےلئے اےڑی چوٹی کا زور لگاتی ہےں اور ےہ ججز اپنے اولادوں کو اس منصب پر فائز کرانے کےلئے بے چےن ہوتے ہےں ۔المےہ ےہ ہے کہ پھر ےہ ججز انصاف کی علمبرداری کا پرچم تھامنے کی بجائے سےاسی پارٹےوں اور طاقت ور حلقوں کے دباﺅ کے پےش نظر فےصلے صادر کرتے ہےں‘ نظرےہ ضرورت کو فوقےت دےتے ہےں اور مےڈےا کی چکا چوند سے متاثر ہو کر اےسے رےمارکس دےتے ہےں کہ ان کی ذات زےر بحث رہے۔انہےں اس بات سے کوئی سروکار نہےں کہ بھاری تنخواہوں و مراعات کے باوجود ان کے ہاتھوں میں موجود نظام انصاف دنےا بھر کے مقابلے میں انتہائی نچلے درجے پر ہے۔گوےا جنہےں انصاف کی فراہمی کی خصوصی تاکےد کی گئی انہوں نے انصاف کو انصاف چاہنے والوں کی پہنچ سے دور کر دےا اور جنہےں انصاف کے حوالے سے احکامات نہےں دےے گئے وہ اپنے عوام کو انصاف فراہم کرنے کےلئے کوئی دقےقہ فروگزاشت نہےں رکھتے۔تارےخ کا جائزہ لےں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اسلاف کے قاضی کےسے تھے؟ےمن سے تعلق رکھنے والے ابو امیہ شریح بن حارث بن قیس بن جیم الکندی ابتدائے اسلام کے مشہور فقیہ قاضیوں میں سے ہیں ،حضرتِ عمر بن خطابؓ،حضرتِ عثمان بن عفانؓ،حضرتِ علی بن ابی طالبؓ اور حضرتِ معاویہ بن ابی سفیانؓ کے زمانہ خلافت میں کوفہ میں قضا کے عہدے پر فائز رہے۔ قاضی شریح قضا کے معاملے میں ثقہ،امانت دار اور دور اندیش تھے۔ آپ طویل عمر سے نوازے گئے اور اےک سو آٹھ سال کی عمر پا کر سر زمینِ کوفہ پر87 ہجری میں داغِ مفارقت دے گئے۔حضرتِ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی زرہ کھو گئی،آپ نے وہ زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی۔ آپ نے یہودی سے فرمایا (آپ ان دنوں خلافت کے عہدے پر فائز تھے) :اے یہودی یہ زرہ جو تمہارے پاس ہے میری ہے،فلاں روز مجھ سے کھو گئی تھی۔یہودی کہنے لگا:میرے قبضے میں موجود زرہ کے بارے میں آپ کیسی بات کر رہے ہیں۔ اگر آپ میری زرہ پر اپنا دعوی کرتے ہیں تو اب یہی ایک چارہ ہے کہ میرے اور آپ کے درمیان قاضی فیصلہ کرے۔چنانچہ حضرتِ علیؓ اور وہ یہودی دونوں فیصلے کےلئے قاضی شریح کی عدالت میں پہنچے۔ جب قاضی شریح کی نگاہ امیر المومنین پر پڑی تو اپنی مجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے۔حضرتِ علی بن ابی طالبؓ نے فرمایا بیٹھے رہیں۔ قاضی شریح بیٹھ گئے۔پھر فرمایا : میری زرہ کھو گئی ہے۔ میں نے اسے یہودی کے پاس دیکھا ہے ۔

قاضی شریح نے یہودی سے پوچھا تمہیں کیا کہنا ہے؟

یہودی نے کہا :میری زرہ میرے قبضے میں ہے اور میری ملکیت ہے۔

قاضی شریح نے زرہ دیکھی اور یوں گویا ہوئے: اللہ کی قسم اے امیر المومنین آپ کا دعوی بالکل سچ ہے،یہ آپ ہی کی زرہ ہے لیکن قانون کے مطابق آپ کے لیے گواہ پیش کرنا واجب ہے۔حضرتِ علیؓ نے بطور گواہ اپنے غلام قنبر کو پیش کیا۔اس نے آپ کے حق میں گواہی دی پھر آپ نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو عدالت میں پیش کیا، ان دونوں نے بھی آپ کے حق میں گواہی دی۔قاضی شریح نے کہا:آپ کے غلام کی گواہی تو میں قبول کرتا ہوں لیکن ایک گواہ مزید درکار ہے اور آپ کے دونوں صاحبزادوں میں سے کسی کی گواہی میں قبول نہیں کر سکتا۔پھر حضرتِ علی رضی اللہ عنہ نے کہا‘قسم اللہ کی میں نے عمر بن خطابؓ کو رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے:حسنؓ اور حسینؓ نوجوانانِ اہلِ جنت کے سردار ہیں۔

قاضی شریح نے کہا:اللہ کی قسم یہ بالکل حق ہے۔

حضرتِ علیؓ نے فرمایا: پھر آپ نوجوانان ِ اہلِ جنت کے سرداروں کی گواہی کیوں قبول نہیں کریں گے؟

قاضی شریح نے کہا:یہ دونوں آپ کے صاحبزادے ہیں۔باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی مقبول نہیں۔

یہ کہہ کر قاضی شریح نے حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کے خلاف یہودی کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور زرہ یہودی کے حوالے کردی۔یہودی نے تعجب سے کہا: مسلمانوں کا امیر مجھے اپنے قاضی کی عدالت میں لایا اور قاضی نے اس کے خلاف میرے حق میں فیصلہ صادر کردیا اور امیر المومنین نے بلاچوں و چرا قبول بھی کر لیا۔پھر یہودی نے امیر المومنین علی بن ابی طالبؓ کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہنے لگا: امیر المومنین آپ کا دعوی بالکل سچ ہے۔ یہ زرہ یقینا آپ ہی کی ہے،فلاں دن یہ آپ سے گر گئی تھی تو میں نے اس کو اٹھا لیا تھا،لہذا یہ آپ ہی کی ملکیت ہے،آپ لے لیں اور پھر کلمہ شہادت پڑھ لیا۔حضرتِ علیؓ نے فرمایا : میری یہ زرہ اور یہ گھوڑا بھی تمہارا ہے۔۔۔ےہ ہے وہ انصاف جس میں نہ امےرالمومنےن کا خوف ہے نہ پروا‘ پروا ہے تو انصاف کی فراہمی اور اس کے تقاضوں پر عملدرآمد کی۔اےک ہمارے ججز ہےں جن کے بارے میں ےہ کہا جاتا ہے کہ ےا تو فےصلے ان کی خواہشات پر مبنی ہوتے ہےں ےا اپنے اہل خانہ کی تسکےن طبع کےلئے‘پہلے سے لکھے گے فےصلے پےراشوٹ کی طرح مےزان عدل پر اترنے کی باتےں بھی ےہاں کی جاتی رہی ہےں۔حےرت ہے عدلےہ کی خود مختاری کی فکر ہے خواہ ےہ خود مختاری آئےن کو پاﺅں تلے روند کر ہی کےوں نہ حاصل کی جائے اگر کوئی اےسا نہےں کرتا تو اسے شتر مرغ کی طرح رےت میں سر دبانے کا طعنہ دےا جاتا ہے ےہ نہےں سوچا جاتا کہ عدلےہ اگر انصاف کی فراہمی سے روگردانی کر رہی ہے تو اس میں مداخلت لازم اور واجب ہے۔ظرف اتنا ہے کہ الوداعی فل کورٹ رےفرنس میں شرکت بھی گوارا نہ کی جائے اور پارلےمنٹ کے حق کو تسلےم کرنے سے انکار کردےا جائے۔ ےہ پارلےمنٹ کا استحقاق ہے کہ وہ قانون سازی کرے اور عدلےہ کا کام اس قانون سازی کی تشرےح اور اس پر عملدرآمد ہے ۔جب اس ادارے ہی کو وقعت نہےں دی جائے گی جس کے بنائے گئے قوانےن کی پاسداری پر عدلےہ کی عمارت استوار ہے تو عدلےہ کے وجود پر سوالےہ نشان تو ہو گا۔ افسوسناک بات ےہ ہے کہ قاضی فائز عےسی کے دامن پر منظم حکمت عملی کے تحت چھےنٹے اڑائے جاتے رہے مگر ان کا دامن انصاف کی شفافےت سے جگمگاتا رہے گا۔