معاشی صورتحال کی بہتری


وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ حکومتی اصلاحاتی ایجنڈے پر تبادلہ خیال ہوا ہے آئی ایم ایف حیران ہے کہ چودہ ماہ میں معیشت کیسے سنبھل گئی۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین ، ترکیہ، برطانیہ کے وزرائے خزانہ کے ساتھ مفصل گفتگو ہوئی جب کہ امریکا میں موڈیوز ، فچ اور دیگر ریٹنگ ایجنسیوں کے ساتھ مثبت گفتگو ہوئی، ان ملاقاتوں میں گورنر اسٹیٹ بینک اور سیکرٹری خزانہ بھی موجود رہے۔ یہ آئی ایم ایف کا نہیں، پاکستان کا اپنا پروگرام ہے، عالمی مالیاتی ادارہ صرف مدد کررہا ہے۔ آئی ایم ایف کے وفد سے بات چیت مثبت رہی، ان کے ساتھ حکومتی اصلاحاتی ایجنڈے پر بات ہوئی جب کہ حکومتی اقدامات سے معیشت درست سمت میں گامزن ہے، معیشت کی بہتری کے لیے مقررہ اہداف حاصل کریں گے اور تمام شعبوں میں اصلاحات جاری رہیں گی تاہم ملکی مفاد کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے۔حکومتی اقدامات سے مہنگائی کی شرح میں کمی واقع ہوئی اور یہ اڑتےس فیصد سے سات فیصد پر آگئی، اس کی بنیاد پر پالیسی ریٹ بائےس فیصد سے پندرہ فیصد پر آگیا ہے۔ مالیاتی اداروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھا ہے، سب ہمیں یہی کہہ رہے ہیں کہ آپ ملک میں میکرو اکنامک استحکام لے کر آئے ہیں، اب اس کو مزید آگے لے کر جائیں گے، انشاللہ وزیراعظم جلد معاشی روڈ میپ عوام کے سامنے رکھیں گے۔پاکستان یقینا اپنا کٹھن وقت گزار چکا ہے۔ دو سال پہلے ملک کے سیاسی حالات غیریقینی کا شکار تھے، جلسے جلوس اور گھیراﺅ جلاﺅ کی سیاست عروج پر تھی، اس کا براہ راست اثر ملک کی معیشت پر پڑ رہا تھا۔ بہرحال پاکستان اب مشکل حالات سے نکل آیا ہے۔ حکومت نے ایک ارب ڈالر قرضہ واپس کیا ہے، اس کے باوجود زرمبادلہ ذخائر بھی بہتر ہیں۔عطیات سے ملک نہیں چل سکتے، نجی شعبے کو اس ملک کو چلانے کے لیے آگے آنا چاہیے، اب کوئی بھی ملک ڈیپازٹ اور رول اوورکرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وزیر خزانہ کی یہ بات بالکل درست ہے، پاکستان کی معیشت اب چلنے کے قابل ہو چکی ہے، لہذا وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے پاﺅں پر چلنا سیکھا جائے۔ چین، سعودی عرب اور یو اے ای سمیت دوست ممالک سے سرمایہ کاری کے لیے کوشاں ہیں، چین کے ساتھ سی پیک فیز ون انفرااسٹرکچرکی تعمیرکے لیے تھا، سی پیک کا فیز ٹو بزنس ٹو بزنس ہے۔ رواں سال 2.5 فیصد سے تےن فیصد کی جی ڈی پی نمو کا تخمینہ ہے جب کہ اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر کا حجم 34 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا،ایشیائی ترقیاتی بینک کی مطلوبہ شرائط پوری کرلی گئی ہیں، جلد ہی اس سے پچاس کروڑ ڈالر کی فنانسنگ موصول ہوجائے گی۔نومبر کے اختتام تک زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر بڑھ کر بارہ ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے، مہنگائی میں کمی اور معیشت کا آﺅٹ لک بہتر ہوا ہے، البتہ نجی شعبے کے قرض میں اضافہ ہوا ہے،اکتوبر میں روشن ڈیجیٹل اکاﺅنٹ میں انفلوز بےس کروڑ سے زائد رہے ہیں، غیرمتوقع موسم معیشت اور زراعت کے لیے چیلنج ثابت ہوتے ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر توجہ دینا ہوگی، پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ خطرات ہیں۔ پاکستان کی زراعت کی پسماندگی کی جو وجوہات ہیں پالیسی سازوں کو اس کے بارے میں پورا علم ہے۔ پاکستان کی زراعت اور زرعی صنعت کی ترقی کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسٹیٹ بینک نے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لیے ری فنانسنگ اسکیم متعارف کرائی ہے جس کے تحت اب تک 94ارب 70کروڑ روپے کے گھریلو اور صنعتی منصوبے لگائے جاچکے ہیں۔ پائیدار معاشی نمو کی راہ میں مزید رکاوٹیں حائل کرتی ہیں۔ تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ ایسی پالیسی مرتب کریں، جس سے کاربن فٹ فرنٹ میں کمی واقع ہو۔ادھر اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر میں ترسیلات زر گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں چوبےس فیصد اضافے کے ساتھ 3.05 ارب ڈالر رہیں، جو گزشتہ سال اکتوبر میں 2.46 ارب ڈالر رہی تھیں، جب کہ گزشتہ ماہ ستمبر کے مقابلے میں سات فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ، ستمبر میں ترسیلات زر 2.86 ارب ڈالر رہی تھیں، اس طرح رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران مجموعی طور پر ترسیلات زر 35 فیصد اضافے کے ساتھ 11.85 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گئی ہیں، جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 8.79 ارب ڈالر رہی تھی۔یو اے ای سے ترسیلات زر میں اکتےس فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس کی بنیادی وجہ غیرقانونی حوالہ ہنڈی نیٹ ورک کے خلاف کیا گیا آپریشن ہے، جب کہ یو کے سے ترسیلات زر میں تےس فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ بڑی تعداد میں پاکستانیوں کا بیرون ملک جانا بھی اس کی بڑی وجہ ہے، جس سے سمندر پار پاکستانیوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 13.8 ملین ہوگئی ہے، جس نے ترسیلات زر پر مثبت اثر ڈالا ہے،شرح سود میں کمی اور عالمی معاشی حالات بہتر ہونے کے نتیجے میں ترسیلات زر میں مزید اضافہ ہوگا، ترسیلات زر میں نمایاں اضافے کے نتیجے میں روپے کی قدر میں بہتری ہوئی ہے۔آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کے بغیر ترقیاتی اہداف کاحصول مشکل ہے، یہ بات عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہان کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہی گئی، اعلامیہ کے مطابق تعلیم، صحت، سڑکوں، بجلی اور پانی کی فراہمی جیسے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈنگ کے ضمن میں ٹیکس اصلاحات ضروری ہے، عالمی سطح پر کورونا کے بعد ترقیاتی منصوبوں کی مالیاتی ضروریات میں خلا بڑھ کر چارٹریلین امریکی ڈالر سالانہ ہو چکا ہے۔ سب سے زیادہ مالیاتی ضرورت کم ترقی یافتہ اور کم آمدنی والے ممالک کو ہے، ان ممالک کو صحت، تعلیم، پانی، بجلی اور سڑکوں جیسے منصوبوں کے لیے اپنے جی ڈی پی کا 16.1فیصد خرچ کرنا ہوگا جب کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کو 4.8 فیصد اور ترقی یافتہ ممالک کو 0.2 فیصد سے بھی کم خرچ کرنے کی ضرورت ہے، تخمینے کے مطابق اگر جی ڈی پی میں ٹیکسوں کا حصہ پندرہ فیصد یا اس سے زیادہ ہو تو معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔درےں اثناءپاکستان نے چین سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنا قرضہ دو سال کے لیے ری شیڈول کر دے۔ اس میں کتنی سچائی ہے، اس حوالے سے سرکاری سطح پر کوئی بات سامنے نہیں آئی البتہ یہ بات طے ہے کہ پاکستان کی معیشت استحکام حاصل کر چکی ہے، پاکستان کے دوست ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی اصلاحات اور ٹیکس اصلاحات کے ساتھ ہم آہنگ نظر آتے ہیں، جس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں معاشی بہتری کے مزید اشارے ملیں گے۔یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ پچھلے 23 آئی ایم ایف پروگرامز میں یہ نتیجہ ایک سال کے اندر حاصل کیا گیا تھا، مگر اس کے باوجود ملک اپنی معاشی عروج و زوال کے چکر میں دوبارہ پھنس گیا، جس کی وجہ وہ ہے جس کا ذکر آئی ایم ایف نے اپنی جاری قرض کی اسٹاف لیول معاہدے میں کیا: ساختی مالیاتی پالیسی کی کمزوریاں اور بار بار کے عروج و زوال کے چکر نے بیرونی مالی اعانت کی ضروریات کو بڑھا دیا ہے اور بفرز کو ختم کر دیا ہے، جس سے مالیاتی اور بیرونی استحکام کے لیے راستہ محدود ہو گیا ہے۔اس دوران کئی شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں اصلاحات کی ضرورت ہے، خاص طور پر ٹیکس، توانائی، مالیات، اور پنشن یہ وہ شعبے ہیں جن میں اصلاحات کی ضرورت کئی دہائیوں سے محسوس کی جارہی ہے، اور جن کی ناکامی کا الزام انہوں نے پچھلی حکومتوں پر عائد کیا۔ تاہم، تشویش کی بات یہ ہے کہ کابینہ کے اعلان کے آٹھ ماہ بعد بھی ان شعبوں میں سے کسی ایک پر بھی موثر اقدامات نظر نہیں آ رہے۔اب وقت آ چکا ہے کہ ان شعبوں کےلئے ایک جامع اندرونی حکمت عملی تیار کی جائے اور پچھلی حکومتوں کی طرح اصلاحات کے ارادوں کو عوامی طور پر ظاہر کرنے کی بجائے، حقیقی اصلاحات پر عمل درآمد شروع کیا جائے کیونکہ ان کی منصوبہ بندیاں متعلقہ وزارتوں میں موجود ہیں، حالانکہ وہ اب بھی بے کار پڑی ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں بھی بہتری آئی ہے، مگر یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ تجارتی خسارہ اس لیے کم ہوا ہے کیونکہ لیٹر آف کریڈٹ کھولنے میں مسلسل تاخیر ہو رہی ہے، جسے حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ ختم کرے گی، اور اس کے ساتھ ساتھ جاری سات ارب ڈالر کی ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی کی منظوری کے بعد قرضہ کی آمد کی فراہمی دوبارہ شروع ہوئی ہے۔آﺅٹ لک رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 2024 میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 2.4 فیصد تک جبکہ مالی سال 2025 میں جی ڈی پی کی شرح 2.8 فیصد تک ہونے کا امکان ہے لیکن معاشی ترقی اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل پیرا پالیسی کے تسلسل سے مشروط ہے۔

۔