ہیڈ کانسٹیبل فدا حسین

احسان علی دانش

 گزشتہ دنوں مجھے اپنے شاعر دوست فرمان علی خیال اور رضا بیگ گھائل کے ساتھ گلگت جانے کا اتفاق ہوا اور واپسی پر ہم کچورا چیک پوسٹ پر پہنچے تو حسب توقع پولیس کی نفری مسافروں کی چیکنگ کے لئے مستعد تھی۔ بیریئر پر دیگر گاڑیوں کی قطار میں ہماری بھی گاڑی رک گئی، نہیں بلکہ روک دی گئی اور لگے ہاتھوں دو نوجوان آگے بڑھ کر پوچھ گچھ شروع کرنے لگے۔ بس ابھی یہ دیکھنے کے لئے گاڑی کے اندر جھانکے ہی تھے کہ ہم تینوں کے علاہ کوئی اجنبی تو نہیں۔ اتنے میں نکلتے قد و قامت کے ساتھ گورا چٹا سمارٹ ایک جوان آگے بڑھا اور نہایت احترام سے سلام کرتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولا اور سامنے والی امبریلا کے نیچے موجود پلاسٹک کی کرسیاں پیش کیں۔ اگرچہ ہمیں گھر پہنچنے کی جلدی تھی مگر اس جوان کی بھی ضد تھی کہ لمحہ بھر کے لئے ہم رک جائیں۔ ہم کرسیوں پر براجمان ہوگئے۔ ابھی ہم بیٹھے ہی تھے ایک دوسرا جوان جگ اور گلاس کے ساتھ حاضر ہوا اور سامنے پانی رکھ دیا۔ پانی کا ایک ایک گلاس ابھی انڈیلا ہی تھا وہ سمارٹ جوان ایک بڑے ٹرے میں کئی پلیٹیں جن میں خشک میوہ جات یعنی خوبانی، گری، پستہ اور کشمش ڈالے سامنے رکھ دیا۔ اگرچہ ہمارا کام سر جھکا کے ان پلیٹوں کے ساتھ انصاف کرنا تھا، تاہم سوال پوچھے بغیر نہ رہ سکے۔ کہ تحائف

 کے ساتھ ایسا شاندار استقبال فقط ہماری قسمت ہے یا ہزاروں لاکھوں سیاحوں کے ساتھ ایسا کےا جا رہا ہے ؟میرے سوال پر وہ سمارٹ جوان جس کا نام فدا حسین ہے اور اپنی دوران سروس اکثر پوسٹنگ یہیں ہوتی رہی اور سیاحوں کے ساتھ ایسا ہی برتاﺅ کیا جا رہا ہے۔ہاتھ میں کشمش کی پلیٹ پکڑے گفتگو کرتے کرتے فدا حسین کا لہجہ پولیس والے لہجے سے پروفیسروں والا لہجہ بن چکا تھا اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ بولتا جا رہا تھا۔دانش صاحب ہمارے علاقے میں خشک خوبانی‘ گری اور کشمش وغیرہ کی کوئی کمی نہیں اور خود میرے اپنے باغات میں یہ چیزیں ضرورت سے زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ ایسے میں چیک پوسٹ پر ان چیزوں کا سٹاک ہے۔ مہمان بالخصوص بچے جب پہنچ جاتے ہیں تو یہ ٹرے ان کے سامنے ہوتی ہے۔ میوہ جات کے پیک سیزن میں ہم یہاں تازہ پھل بھی رکھتے ہیں۔ سیاح لمحہ بھر کے لئے یہاں رکتے ہیں تو ان کے سامنے پانی سمیت یہ تحائف رکھ دیتے ہیں اور وہ نہال ہو جاتے ہیں۔ دانش صاحب جتنے لوگ بائی روڈ آکر واپس جاتے ہیں وہ واپسی پر ہمارا شکریہ ادا کر کے جاتے ہیں اور یہیں سے گزر کر کتنے ایسے سیاح چلے گئے جنہوں نے اپنے اپنے شہروں میں پہنچ کر سوشل میڈیا پر تہنیتی پیغامات بھیجے، کہ ہم جہاں بھی گئے مگر سکردو کے سیاحتی مقامات اور لوگوں کے علاہ وہاں کی پولیس نے بھی بے حد متاثر کیا۔ کتنوں نے ہماری سروس کی تعریف کرتے ہوئے باقاعدہ خط لکھا ہے جو نہ صرف ہمارے لئے بلکہ پورے علاقے کے لئے باعث فخر ہے۔ہیڈ کانسٹیبل فدا حسین کے ساتھ کچورا چیک پوسٹ پر مختصر گفتگو سے معلوم ہوا کہ مشہور زمانہ کوئڈ کے دوران ان کی شبانہ روز کی شاندار خدمات کے اعتراف میں حکومت گلگت بلتستان نے نیشنل ایوارڈ کے لئے نامزد کیا اور صاحب ممدوح جس کا سچ مچ حقدار ہے۔ اپنے محکمے کے IG ، DIG اور SSP صاحباں ان کی اعلی کارکردگی کے عوض اسناد و اعزازات سے نوازتے رہے

 ہیں۔ پولیو قومی مہم کے دوران ٹرانزٹ پوائنٹ پر بہترین تعاون کرنے پر ڈائریکٹر EPI محکمہ صحت کی جانب سے تعارفی سر ٹیفکیٹ سے نوازا گیا۔ کچورا چیک پوسٹ جو سکردو بلتستان کا گیٹ وے تصور کیا جاتا ہے جہاں سے منشیات کی روک تھام کے لیے بھی فدا حسین کی خدمات سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ فدا حسین کی خوش خلقی اور دوستانہ رویے کو دیکھ کر US ایمبیسی نے تعریفی سند سے نوازا۔ آج ملکی و غیر ملکی سیاح سکردو کی طرف آتے ہوئے خوشی اور ریلکس محسوس کرتے ہیں جہاں شہر کے گیٹ ہی پر فدا حسین جیسے سرکاری اہلکار ڈنڈے کی بجائے چہرے پر محبت و انسیت کی مسکراہٹ لئے تیار رہتے ہیں اور بیریئر پر رکتے ہی خشک میوہ جات کی ضیافت کی آفر کرتے ہیں۔ سکردو چیک پوسٹ سے گزرنے والے مہمانوں کو اندازہ ہونے لگا ہے کہ جہاں کی پولیس کا یہ حال ہے تو عوام کا کیا حال ہوگا ۔ آج سارے پاکستان سے جوق در جوق سکردو میں وارد ہونے والوں کو یہاں سے واپس جانے والے لوگ ہی مطلع کرتے ہیں کہ جاﺅ اور گلگت بلتستان کی سیر کرو جہاں آپ کو محبت ہی محبت ملے گی۔ زندہ باد ہیڈ کانسٹیبل فدا حسین اور دیگر ساتھی جوان کچورا چیک پوسٹ سکردو۔