سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی و ٹیلی کام نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک وی پی این کی بندش پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کو مذہب کا تماشا قرار دیا ہے۔چیئرمین پی ٹی اے نے انکشاف کیا کہ وی پی این کے بغیر آئی ٹی انڈسٹری نہیں چل سکتی، اگر انٹرنیٹ ایک دن بند رہے تو کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، دس لاکھ سے زائد فری لانسرز وی پی این استعمال کررہے ہیں، اگر کوئی وی پی این رجسٹرڈ کرائے، تو انٹرنیٹ بند ہونے سے اس کا کاروبار متاثر نہیں ہوگا۔سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ ملک بھر میں انٹرنیٹ میں خلل سے لوگ مسائل کا شکار ہیں، انٹرنیٹ سے نوجوان نسل کا روزگار جڑا ہے، جس دن ہم وزارت سے جواب مانگتے ہیں، آگے سے جواب ملتا ہے کہ وزیر صاحبہ مصروف ہیں، ہم اب یہ ساری صورتحال وزیراعظم کے سامنے رکھیں گے۔اجلاس میں غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کی بندش پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ غیر قانونی وی پی این کی بندش کے لیے پی ٹی اے کو وزارت داخلہ نے خط لکھا، یہ مینڈیٹ تو وزارت آئی ٹی کا ہے، وی پی این والے معاملہ پر چیئرمین پی ٹی اے روشنی ڈالیں، اس سے لوگوں کا کاروبار جڑا ہے۔قائمہ کمیٹی کے ارکان نے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے وی پی این کو غیر شرعی قرار دینے پر تحفظات کا اظہار کردیا، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ مذہب کا تماشا بنا رہے ہیں، اگر آپ نے وی پی این کو بند کرنا ہے، تو بے شک آکر ان کیمرہ بریفنگ دیں۔چیئرمین پی ٹی اے نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وی پی این کے استعمال کے بغیر آئی ٹی انڈسٹری نہیں چل سکتی، فری لانسرز کو وی پی اینز کی ضرورت ہوتی ہے، وی پی اینز کی رجسٹریشن کا عمل 2016 سے شروع ہوا تھا۔ اگر کوئی وی پی اینز رجسٹرڈ کرائے، تو انٹرنیٹ بند ہونے سے اس کا کاروبار متاثر نہیں ہوگا، ہر فری لانسر کو وی پی این کی ضرورت بھی نہیں، خفیہ کام کرنے والے اسے استعمال کرتے ہیں،اب تک پی ٹی اے نے ہزاروں وی پی اینز کی رجسٹریشن کر لی ہے۔وی پی این کی رجسٹریشن کررہے ہیں، اس وقت پاکستان میں ٹاپ کے 27 وی پی اینز ہیں، اس وقت پاکستان میں وی پی این کے ذریعے جو دل کرے دیکھ سکتے ہیں، پی ٹی اے میں علمائے کرام کو بلایا تھا، کہ لوگ فحش مواد دیکھ رہے ہیں،علما سے مدد مانگی تھی کہ جو غیر اخلاقی ویب سائٹس بلاک کرتے ہیں، لوگ اسے زیادہ ہٹ کرتے ہیں، ایکس فروری 2024 سے پاکستان میں بلاک ہے۔ ممبر لیگل وزارت آئی ٹی نے واضح کیا کہ وی پی اینز سوشل میڈیا نہیں لیکن اس کے ذریعے سوشل میڈیا تک رسائی ممکن ہے، وی پی اینز غیر اخلاقی مواد میں نہیں آتا، اگر وی پی اینز کے ذریعے لوگ غیر اخلاقی مواد دیکھ رہے ہیں، تو اسے بلاک ہونا چاہیے، پیکا ایکٹ میں کہیں وی پی این کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے ۔ سینیٹر افنان اللہ کا کہنا تھا کہ ٹک ٹک پر زیادہ گند آرہا ہے، ٹک ٹک میں ایل جی بی ٹی کا مواد آرہا ہے، مینڈیٹ سوشل میڈیا اور غیر اخلاقی مواد کا ہے، اگر اس سے آگے گئے تو وہ غیر قانونی ہے۔سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ روز سے انٹرنیٹ بند ہے، کیا وہاں سب یہی غلط کام کررہے تھے، سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ پیکا قانون وی پی این بلاک کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دیتا ہے،جس دن وی پی اینز بلاک ہونے ہیں، فری لانسرز نے بہت شور مچانا ہے، وی پی اینز پر اٹارنی جنرل سے لیگل معاملات ڈسکس کریں، پھر ہمیں بتائیں۔دو سے ڈھائی ملین لوگ پاکستان میں فری لانسنگ کررہے ہیں، ایک فری لانسر لگ بھگ 400 ڈالر سالانہ کمارہا ہے اس کی مختلف کیٹیگریز ہیں، تےس نومبر سے پہلے دوبارہ کمیٹی کا اجلاس رکھیں گے۔ درےں اثناءانفارمیشن ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر امین الحق نے کہا ہے کہ کسی بھی سوشل میڈیا کا بلیک آﺅٹ یا انٹرنیٹ کی بندش مسائل کا حل نہیں وفاقی وزیر نے اپنے بیان میں کہا کہ انٹرنیٹ سروس متاثر ہونے سے اربوں کا نقصان ہوا، منسٹری آف آئی ٹی کسی بھی پابندی کے خلاف ہے جس سے ترقی رکتی ہو، سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہوا۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن آزاد ادارے کے طور پر کام کرتا ہے، وی پی این مسئلے کا حل نہیں، ہمیں براڈ مائنڈ ہونا ہوگا مخصوص علاقوں میں انٹرنیٹ بند کیا جا سکتا ہے انٹرنیٹ کی بندش سے آئی ٹی انڈسٹری کو اربوں کا نقصان ہوا، انٹرنیٹ کی بندش کسی صورت نہیں ہونی چاہیے آئی ٹی انڈسٹری کو سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی جائے گی، وکی پیڈیا ڈیڑھ ماہ بند ہوا تھا ہم نے فوری اقدامات کیے اور بحال کرایا، میں بھرپور کوشش کروں گا کہ مستقبل قریب میں انٹرنیٹ سروس بند نہ ہوجمعے سے ملک بھر میں ڈیٹا انٹرنیٹ سروس بحال ہونا شروع ہوگئی تھی انٹرنیٹ سروس کی بندش وزارت آئی ٹی کو اعتماد میں لیے بغیر تھی، پی ٹی اے2017 کے بعد منسٹری آف آئی ٹی کے انڈر میں نہیں۔وی پی این دراصل ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک ہے جو عام طور پر انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال کے لیے کام آتے ہیں۔ آج سے پہلے عام لوگوں کو یہی پتا تھا کہ وی پی این کوئی غلط چیز جسے خطرناک مواد اور ایسی سائٹس جن پر پاکستان میں پابندی ہے تک رسائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاہم اب ایکس کی بندش کے بعد سے لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی بڑھی ہے۔وی پی این دراصل ہماری شناخت چھپا لیتا ہے اور یہ بھی کہ ہم کہاں بیٹھ کرانٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں، اس طرح پبلک انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے جہاں ہمیں مختلف سائبر حملوں کا سامنا ہو سکتا ہے وی پی این استعمال کرتے ہوئے ایسا نہیں ہوتا۔ آپ وی پی این کے ذریعے ایسی ویب سائٹس اور مواد تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں جو عام طور پر ممکن نہیں ہوتی ہے۔ اچھا وی پی این استعمال کرنا بھی اہم ہے اور اس حوالے سے پیڈ یعنی معاوضے کے عوض وی پی این کا استعمال بہتر رہتا ہے۔ مفت وی پی این آپ کے لیے مسائل کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ ریاستی اداروں کی جانب سے انٹرنیٹ فائر وال لگائی گئی ہے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا ایپلیکیشنز چلانے میں مسئلہ آ رہا ہے۔ انٹرنیٹ فائر وال بنیادی طور پر کسی بھی ملک کے مرکزی انٹرنیٹ گیٹ ویز پر لگائی جاتی ہیں جہاں سے انٹرنیٹ اپ اور ڈان لنک ہوتا ہے اور اس نظام کی تنصیب کا مقصد انٹرنیٹ کی ٹریفک کی فلٹریشن اور نگرانی ہوتی ہے۔ اس نظام کی مدد سے ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود مواد کو کنٹرول یا بلاک کیا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فائر وال سسٹم کی مدد سے ایسے مواد کے ماخذ یا مقامِ آغاز کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔تاہم اس سب کے بیچ میں پاکستان اور دنیا بھر میں فری لانسنگ کے لیے مشہور پلیٹ فارم فائیور کا ایک نوٹ گردش کرنے لگا جس میں پاکستان میں موجود فری لانسرز کی پروفائل پر یہ لکھا گیا کہ ان کے ملک میں انٹرنیٹ کی بندش ہے اس لیے ان کی جانب سے کیا گیا کام تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔فائر وال پہلے ہی سے انٹرنیٹ میں لمبے عرصے تک جاری رہنے والی بندشوں کا باعث بن چکی ہے اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس وی پی این کی غیر یقینی کارکردگی کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہونے کا خطرہ ہے۔ انٹرنیٹ کی سست روی کے باعث یومیہ کم از کم پچاس کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ بہت سے ای کامرس کرنے والے عالمی کاروباری اداروں نے پاکستان سے کاروباری روابط بھی ختم کر دیے ہیں۔پاکستان میں وی پی این کو ریگولیٹ کرنے کی یہ پہلی کوشش نہیں ہے۔ اس سے قبل 2010 ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس ریگولیشن اور 2022 کی رجسٹریشن ڈرائیو کے ذریعے یہ کوشش کی جا چکی ہے۔حکومت نے اگر وی پی این کو رجسٹر کرنا ہے تو اس کے لیے اسے انٹرنیٹ فراپم کرنے والی کمپنیوں یعنی انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کے تعاون کی ضرورت ہو گی۔ تاہم نہ تو وی پی اینز پر مکمل طور پر پابندی لگائی جا سکتی ہے اور نہ ہی انہیں پوری طرح رجسٹر کرنا ممکن ہے۔وی پی اینز اوپن سورس بھی مارکیٹ میں موجود ہیں اس لیے انہیں مکمل طور پر بند کرنے سے فائدہ نہیں ہو گا۔ٹیلی کام ذرائع کے مطابق صارفین کی ڈیٹااپ اور ڈاون لوڈنگ کی شکایات مل رہی ہیں۔تھری جی اور فور جی سروس کے ساتھ براڈ بینڈ صارفین کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔قبل ازیں انٹرنیٹ میں سست روی کی بنیادی وجہ سات سب میرین کیبلز میں سے دومیں خرابی بتائی گئی تھی ۔پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ سب میرین کیبل اے اے ای ون کی مرمت کردی ہے جس سے انٹرنیٹ کی صورتحال بہتر ہوجائے گی۔ٹیک انڈسٹری نے پہلے ہی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ان رکاوٹوں سے پاکستان کی معیشت کو 300 ملین ڈالر تک کا نقصان ہوسکتا ہے۔اس لےے بہتر ےہی ہے کہ انٹرنےٹ کی بندش جےسے اقدامات سے گرےز کےا جائے کےونکہ ےہ مسئلے کا حل نہےں ہے۔