رانا فیضان علی
احتجاج‘جلسے جلوس‘دھرنے‘ لانگ مارچ پاکستانی سےاست کا لازمہ بن چکے ہےں اور سےاسی جماعتےں احتجاج کو اےک اےسی حکمت عملی کے تحت اپنائے ہوئے ہےں جس مےں انہےں اپنی سےاست کی کامےابی دکھائی دےتی ہے۔احتجاج کو اپنا جمہوری حق گردانتے ہوئے ےہ فراموش کر دےا جاتا ہے کہ اس کی آڑ میں جن کے حقوق پامال ہوئے ‘کاروبار بند ہوئے‘ جلاﺅ گھےراﺅ کے باعث نقصانات ہوئے اس کا ازالہ کون کرے گا؟ افسوسناک امر ےہ ہے کہ احتجاج کو اپنا جمہوری حق تو گردانا جاتا ہے لےکن جب اپنے صوبے میں کوئی اور احتجاج کرے تو اسے بزور روکا جاتا ہے ‘کے پی کے میں گزشتہ دنوں اپنے مطالبات کےلئے اساتذہ کے احتجاج پر نہ صرف لاٹھی چارج کےا گےا بلکہ انہےں جےلوں میں بھی بند کر دےا گےا لےکن کسی کو ان کےلئے احتجاج کا جمہوری حق ےاد نہ آےا جو دوعملی ومنافقت کی بدترےن مثال ہے۔
درحقےقت ہماری سےاست کا المےہ ےہ ہے کہ کوئی بھی سےاسی جماعت دوسرے جماعت کے مےنڈےٹ کو تسلےم کرنے پر آمادہ نہےں ہوتی بلکہ ےہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ اسے دھاندلی کے ذرےعے سے ہراےا گےا ہے۔حالانکہ ہمارے سامنے بھارت امرےکہ اور دےگر ممالک کی مثالےں موجود ہےں جہاں شکست خوردہ جماعتےں خوشدلی سے عوام کے فےصلے کا احترام کرتے ہوئے مخالفےن کو جےت پر مبارکباد دےتی ہےں۔حال ہی میں امرےکی انتخابات کے بعد کملا ہےرس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد دی اور الزامات کی سےاست سے گرےز کرتے ہوئے ہمارے سےاستدانوں کی طرح احتجاج کا اعلان بھی نہ کےا۔پےپلزپارٹی اور مسلم لےگ نون اگرچہ اےک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگاتی رہےں لےکن انہوں نے بھی مخالف جماعت کی حکومت کو تسلےم کےا حتی کہ تحرےک انصاف کی 2018 میں آنے والی حکومت کے بارے میں اپوزےشن کی سےاسی جماعتےں آر ٹی اےس کی واضح بندش اور تاخےر سے آنے والے نتائج پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتی رہےں‘ انہوں نے عمران خان کو سلےکٹڈ بھی قرار دےا لےکن احتجاج کا وہ طرز عمل اختےار نہ کےا جو تحرےک انصاف کا وتےرہ بن چکا ہے۔نون لےگ کے مےاں نواز شرےف نے2013 کے انتخابات میں مولانا فضل
الرحمن کے کہنے کے باوجود محض اس بنےاد پر حکومت بنانے کی سعی نہ کی کہ کے پی کے میں تحرےک انصاف کو مےنڈےٹ ملا ہے حالانکہ اگر نون لےگ جمعےت علمائے اسلام کا تعاون حاصل کر کے حکومت تشکےل دےنا چاہتی تو تحرےک انصاف کو وہاں حکومت بنانے کا موقع نہ مل سکتا۔اس سب کے باوجود تحرےک انصاف کی سرشت میں احتجاج کا عنصر داخل ہے ان کے نزدےک جےت صرف ان کےلئے ہے انہےں ہار کسی قےمت پر قبول نہےں‘ اسی لےے قبل ازےں وہ چار حلقے کھولنے کی آڑ میں اودھم مچائے رہے اور126 دن کے دھرنے پر آج بھی فخر کا اظہار کرتے ہےں۔ حکومت گرانے کےلئے انہوں نے علامہ طاہر القادری کے ساتھ مل کر لانگ مارچ کےا ‘دھرنا دےا‘ کفن پہنے‘ قبرےں کھودےں‘ سپرےم کورٹ کی دےواروں پر شلوارےں لٹکائےں‘ پارلےمنٹ اور پی ٹی وی پر حملے کےے‘ اب بھی وہ اپنی شکست کو ماننے پر تےار نہےں ‘ آئےنی طور پر لائی گئی عدم اعتماد کی تحرےک کو ڈپٹی سپےکر کی رولنگ کے ذرےعے ناکام بنانے کی کوشش کی‘ نو مئی کو سےنکڑوں عسکری اثاثوں پر ےک وقت حملے کےے جن میں جی اےچ کےو پر حملہ بھی شامل ہے‘ حکومت کھونے کے بعد ستر سے زائد جلسے کےے گئے اور اب مسلسل مارچ کےے جا رہے ہےں۔
اگر ےہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ملکی سےاست میں سب سے زےادہ احتجاج تحرےک انصاف نے کےے اب 24 نومبر کے نئے احتجاج کے ساتھ مےدان میں ہے۔ان کی جانب سے احتجاج کےلئے سرکاری وسائل کا بے درےغ استمال کےا جاتا ہے مگر کوئی ادارہ‘عدلےہ اور نےب اس بارے میں ان سے باز پرس نہےں کرتا گوےا سےاستدان قانون سے ماوراءہےں اگر کئی پوچھنے کی زحمت کر بھی لے تو اسے سےاسی انتقام سے تعبےر کےا جاتا ہے اور سرکاری خزانے کے ناجائز استعمال کو اپنے لےے جائز سمجھا جاتا ہے۔ ملک کی ترقی معکوس کا بنےادی سبب بھی ےہی ہے کہ ےہاں قانون محض ان کےلئے ہے جن کی کہےںکوئی شنوائی نہےں ہوتی جبکہ صاحب اقتدار و اختےار ہر قسم کے قانون سے ماوراءہےں۔سوال ےہ ہے کہ اگر انہےں سےاسی امور کے حوالے سے شکاےات ہےں تو پارلےمنٹ کا فلور کس لےے ہے ۔ اگر فےصلے سڑکوں پر ہی کرنا ہےں تو اداروں کا وجود کےا اہمےت رکھتا ہے‘ انتخابات پر قومی خزانہ کےوں لٹاےا جاتا ہے بہتر ہے پارلےمنٹ کی بجائے سڑکوں پر ہی رہا جائے اگر عوام کے لےے کام نہےں کرنا تو رکن اسمبلی کی مراعات کےوں لی جاتی ہےں ۔اگر انہےں اپنے لےڈر کی رہائی مقصود ہے تو عدلےہ کا در کھٹکھٹاےا جائے۔ اگر سےاسی جماعتےں ےہ طرز عمل اختےار کرےں گی تو کسی بھی اور گروہ کو ےہ اقدام اٹھانے سے کس جواز کے تحت روکا جائے گا؟گفت و شنےد بات چےت ‘ تدبروبصےرت ‘فہم و فراست اورحکمت سےاست کا اہم حصہ ہےں لےکن نہ جانے کےوں انہےں پس پشت ڈال دےا جاتا ہے‘ عدم برداشت کے کلچر نے پہلے سے بگڑی سےاست کا سارا آوا ہی بگاڑ دےا ہے۔ اپنی غلطےوں کو کسی طور تسلےم نہےں کےا جاتا گوےا وہ اغلاط سے پاک فرشتوں کی طرح ہوں۔حالت ےہ ہے کہ پڑھے لکھے ملک چلانے کے دعوےدار ےہ جرات تک نہےں رکھتے کہ پارٹی اجلاسوں میں اپنے لےڈر کے غلط کو ببانگ دہل غلط کہہ سکےں‘ اپنے داتی مفادات پر پڑنے والی زد انہےں غلط کو نہ صرف قبول کرنے پر مجبور کرتی ہے بلکہ اس غلط کو درست قرار دےنے کےلئے وہ بے بنےاد اور غےر منطقی دلائل کے انبار لگانے سے بھی گرےز نہےں کرتے اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غلط کو درست ثابت کرنے کےلئے اےڑی چوٹی کا
زور لگاتے ہےں‘ اےسے میں ملکی ترقی کا خواب کےسے شرمندہ تعبےر ہو سکتا ہے؟
سیاسی جماعتوں کی جانب سے اکثر احتجاج ذاتی سیاسی ایجنڈوں پر مبنی ہوتے ہیں جن کا حقیقی عوامی مسائل سے کوئی تعلق نہیں چوبےس نومبر کےلئے جس احتجاج کی کال دی گئی ہے کےا اس کے اےجنڈے میں عوامی مفاد کا حامل اےک نکتہ بھی موجود ہے۔ 75سال کا عرصہ بےت گےا ہے تاہم نہ ہماری سیاست کی کوئی کل سےدھی ہوئی‘ نہ رنگ ڈھنگ بدلے اور نہ احتجاج کا طریقہ کار۔ عوام کی تکالےف کا احساس تو درکنار جس احتجاج میں عوام زےادہ مشکلات کا شکار ہوں اس احتجاج کو کامیابی کا زےنہ تصور کیا جاتا ہے۔ستم ظرےفی ےہ ہے کہ سےاستدانوں کو بالغ نظری چھو کر بھی نہےں گزری اور ےہ ملک اور صوبے چلانے کے دعوےدار ہےں ۔ہونا تو ےہ چاہےے کہ اےسے عناصر کی ناکامےوں کے پےش نظر آئندہ سےاست میں حصہ لےنے پر ہی پابندی عائد کر دی جائے لےکن جو جتنا زےادہ نااہل اور ناکام ہوتا ہے اسے اتنے ہی بڑے عہدے سے نواز دےا جاتا ہے۔ ےہ دےکھنا کےوں گوارا نہےں کےا جاتا کہ جو شخص ملک ےا صوبے کی مسند پر بےٹھا ہے وہ اس کی اہلےت کا حامل بھی ہے ےا نہےں ‘نااہلوں سے کےسے ترقی کی امےد کی جا سکتی ہے؟سیاسی اشتعال ‘جلاﺅ گھیراﺅ‘ نفرت انگےز گفتگو‘ صوبائےت کا پرچار‘ بلاجواز حقوق کی للکار‘محاذ آرائی اور ہمہ وقت دست و گریباں ہونے کےلئے تےار رہنا ہرگز سےاست نہےں نہ ہی اےسے عناصر کو ملکی سےاست میں حصہ لےنے کی اجازت ہونی چاہےے ۔
اب وقت آ گےا ہے کہ احتجاج کےلئے لائحہ عمل مرتب کر لےا جائے کہ کن امور پر احتجاج کرنا ہے‘ کےسے کرنا ہے؟اور بلاجواز احتجاج کی صورت میں ہونے والے نقصان کا ذمہ دار کون ہو گا؟احتجاجی جماعتوں کو عوامی اور سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان کا نہ صرف ذمہ دار قرار دےا جائے بلکہ ےہ نقصان انہی سے وصول کےا جائے‘ بہتر ےہی ہے کہ برطانےہ کے ہائےڈ پارک کی طرح اےک جگہ احتجاج کے عادی عناصر کےلئے مختص کر دی جائے اور انہےں اس کے علاوہ کہےں احتجاج کی اجازت نہ دی جائے۔اس ضمن میں اگر آئےن میں ترمےم کی ضرورت پرتی ہے تو ملک کے وسےع تر مفاد میں ترمےم بھی کر لی جائے تاکہ عوام احتجاج کے اس طوق سے نجات حاصل کر سکے جو وقفے وقفے سے ان کے گلے میں ڈال دےا جاتا ہے ۔