محمد حمید شاہد
اقبال نے خضر راہ میں نمرود کی دہکائی ہوئی جس آتش کا ذکر کیا تھا:
آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
بال جبریل کی ایک غزل کے دوسرے شعر میں اسی آتش کو انہوں نے عذاب دانش حاضر سے جوڑ لیا ہے اور بہت دردمندی سے کہتے ہوئے ملتے ہیں :
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
ایسا اقبال ہی کہہ سکتے تھے کہ وہ اس آگ کے دہکتے الاﺅ کی حقیقت کو پا گئے تھے۔ ان کے لیے عہد موجود کا علم و دانش کی جس جہت پر مغرب زدہ انسان بہت نازاں تھا، وہی ایک عذاب ہو گیا تھا۔ جی، وہی علم و دانش جسے ایک راستہ روشن کرنے والا نور ہونا چاہیے تھا انسانیت کی راہ کھوٹی کر رہا تھا۔ اقبال اس کی بابت سوچتے تھے تو خود کو اسی طرح ابتلا میں محسوس کرتے تھے جس طرح ابراہیم خلیل اللہؑ نے آتش نمرود میں ڈالے جانے پر محسوس کیا تھا۔ اقبال کا عہد حاضر کی دانش کو عذاب کی صورت دیکھنا اور اسے آتش نمرود کہہ دینا، علم و دانش کی نفی نہیں بلکہ اس نام نہاد دانشوری کی نفی ہے جو انسان سے اس کا مقصد حیات چھین کر ایک ایسے عذاب اور لاحاصل جدوجہد کا اسیر کر رہی ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہے۔ تاہم اقبال اس صورت حال سے مایوس نہیں تھے۔ یہاں مثلِ خلیل ہو کر انہوں نے ہمیں سجھا دیا ہے کہ اس عذاب دانش سے بچ کر نکلا جاسکتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے آتش نمرود سے ابراہیم خلیل اللہ بحفاظت نکل آئے تھے۔ اقبال نے اس عذاب دانش حاضر سے بچ نکلنے کا طریقہ بھی اسی غزل میں سجھا رکھا ہے :
خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل
یعنی خودی کے جذبے کو علم سے محکم کرنا ہو گا اور اگر ایسا کر لیا جاتا ہے تو اقبال کہتے ہیں کہ اسے ایسا استحکام مل جائے گا کہ اس پر جبریل جیسا فرشتہ بھی رشک کرے گا۔ وہ خودی اور علم کے بعد ایک اور جذبے یا کہہ لیجیے عظیم قوت عشق کی طرف آتے ہیں اور اضافہ فرماتے ہیں کہ اگر ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل یعنی علم کے ساتھ اگر عشق شامل ہو گا تو خودی کی توانائی حیات آفریں قوت ہو جائے گی؛ بالکل ویسی قوت جیسی خداوند کریم نے قیامت کے دن کے لئے صور اسرافیل کو عطا کر رکھی ہے۔
ایک ضمنی بات یہیں کہتا چلوں کہ اقبال جب یہ فرماتے ہیں کہ:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
یا پھر نظم زمانہ حاضر کا انسان میں آج کے انسان کا آشوب اور اضطراب نشان زد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ستاروں کی گزرگاہیں ڈھونڈنے والا اور سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرنے والا انسان اپنی زندگی کی شب تاریک کو سحر نہیں کر سکا ہے اور اپنے افکار اور حکمت کے پیچ و خم میں الجھا ہوا ہے تو اقبال کے کچھ کج فہم ناقدین اسے ان کی عقل دشمنی قرار دینے لگتے ہیں۔ یہ اقبال پر سراسر تہمت ہے ورنہ اقبال تو اس عقل عیار کو رد کر رہے ہوتے ہیں جو سو بھیس بدل لیتی ہے۔ وہ علم جس سے انسان کی خودی کو استحکام ملتا ہے اور اسے کائنات کے مرکز سے بے دخل نہیں کرتا، اقبال اسے انسانیت کا عظیم سرمایہ قرار دیتے ہیں۔ کہ اسی سے عروج آدم خاکی کی ایسی صورت نکلتی ہے جس سے آسماں پر موجود ماہ و انجم بھی اس خیال سے سہم جاتے ہیں کہ بہ قول اقبال کہیں یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے۔ عصر حاضر کی دانش یہ نتیجہ اخذ کیے بیٹھی ہے کہ اس کرہ ارضی پر پھینک دیے گئے انسان کو اپنے جوہر کا تعین بھی خود ہی کرنا ہے ؛ اپنی عقل سے، کہ اسے یہاں پھینکنے والا کوئی نہیں ہے۔ اقبال انسانی جوہر کے لاتعین ہونے اور اس کے مستقبل میں کھلنے والے امکانات کے قائل تو ہیں اور کہتے ملیں گے کہ انسان زمانے کی حرکت کا خط ابھی کھینچ رہا ہے۔ اور یہ قوت انسان کو ستاروں سے آگے کے نادیدہ جہانوں کی طرف لے جاتی رہے گی کہ:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
مگر وہ اس کے قائل نہیں ہیں کہ انسان کو اس کائنات ارضی پر بسانے والا کوئی نہیں ہے۔ اقبال کے نزدیک زندگی، ذوقِ پرواز کا نام ہے اور یہ پرواز جستجو اور مسلسل حرکت و تلاش سے ہی ممکن ہے جو فکر اور عمل کوایک خاص جہت عطا کرتی ہے۔ اقبال جب جب اس منزل کو نشان زد کرتے ہیں تو عقل کی نفی نہیں بلکہ اس کی محدودیت کا ذکر کرتے ہیں۔ مثلا اس شعر میں دیکھیے :
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
دانش حاضر کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عقل اور علم کی محدودیت کی منکر ہے۔ اقبال نے اس محدودیت کا اندازہ اسی زمانے میں لگا لیا تھا جب وہ مغرب میں گئے تھے اور وہاں کے بسنے والوں کی زندگیوں کو بہ چشم خود دیکھا تھا، دروس افرنگ میں بیٹھے اور ان کے اذہان کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ اقبال واپس ہوئے، ایک مدت غور و فکر کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس نتیجے پر پہنچے تھے :
مجھے وہ درسِ فرنگ آج یاد آتے ہیں
کہاں حضور کی لذت، کہاں حجابِ دلیل
اقبال کو وہاں بتایا جاتا تھا کہ ہر مسئلے میں استدلال سے کام نکالا جا سکتا ہے لیکن اب وہ ایسا محسوس نہیں کرتے تھے تو اس کا سبب یہ تھا کہ وہ حضوری قلب کی ایسی دولت کو پا گئے تھے جس کے مقابلے میں عقل محض کا محبوب استدلال بے معنی شے ہو کر رہ گیا تھا۔ اس حضوری قلب میں زندگی کی جہت کی ایسی لذت تھی جس سے استدلالی منطق کی جھولی خالی تھی۔ اقبال کے پاس دور رس نگاہ تھی۔ اور وہ جو اس حقیقت سے آگاہ نہیں تھے اقبال انہیں اپنے حلقہ سخن سے بھی بارہ پتھر باہر سمجھتے تھے :
نظر نہیں تو مرے حلقہ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثالِ تیغِ اصیل
اقبال کی نظر محض ظاہر بین نظر نہیں ہے۔ ان کی نگاہ علم، حکمت، خودی اور عشق سے قوت پا کر راستے کی ساری رکاوٹوں کو مثلِ تیغِ اصیل کاٹتی چیرتی وہاں تک دیکھ لیتی ہے جہاں دانش حاضر کی پہنچ نہیں ہے۔ہم جانتے ہیں کہ اقبال بیسویں صدی کے وہ پہلے شاعر تھے جن کا رشتہ اپنی شعری روایت سے بھی مستحکم تھا اور وہ جدید انسان کی ذہنی اور روحانی ابتلاﺅں سے بھی آگاہ تھے۔ جب میں اقبال کی اپنی شعری ادبی روایت سے آگہی کی بات کرتا ہوں اور انہیں اس عہد کے دیگر تخلیق کاروں سے الگ کر کے دیکھتا ہوں تو اس کا سبب یہ ہے کہ اقبال محض روایت کے دھارے میں بہہ کر یا اسے عادت بنا کر اسے محترم نہیں سمجھتے تھے ؛ وہ اس کی حقیقی قوت سے آگاہ تھے اور اس کے قائل بھی تھے۔ وہ اسے مشرق کے کسی بھی تخلیقی وجود کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے۔ اس آگہی اور ایقان نے انہیں فرد کے داخلی ہیجانات کو اجتماعی زندگی کے مسائل کے سبب پیدا ہونے والے آہنگ پر برتنے کی طرف مائل کیا اور وہ وسیع تر تہذیبی زندگی اور انسانی وجود کے روحانی علاقوں کی طرف دیکھنے کے قابل ہو گئے تھے ؛ یہ وہ علاقے دانش عصر حاضر کے نہ تھے اور ایک حد تک ہماری شعری ادبی روایت بھی ان سے کنی کاٹ کر گزر رہی تھی۔ اقبال نے عقل محض، جو حد سے حد عناصر کو لخت لخت کر کے ان کا تجزیہ کر سکتی تھی کو بہت اہمیت دی کہ اس کی فتوحات کا علاقہ بھی وسیع تھا، تاہم جو علاقے اس کی قلمرو سے باہر پڑتے تھے ادھر دیکھا اور اس مکمل انسان کو سامنے رکھا جو محض بدن نہیں تھا اس میں روح بھی تھی۔ یوں اقبال نے اپنے عقلی وجود کو اپنی ہستی کی وحدت پر غالب نہیں آنے دیا۔ جب کہ جدید تر انسان اور دانش حاضر کا آشوب یہی ہے کہ اس کی ہستی کی وحدت پر اس کا عقلی وجود غالب ہے اور وہ ٹھوکر پر ٹھوکر کھا رہا ہے۔ اس جدید انسان کے روشن دماغ نے باہر بھی روشنیوں کے ایسے جھپاکے چھوڑے ہیں کہ اس چکاچوند میں آنکھیں چندھیا گئی ہیں اور نگاہوں کے سامنے کا راستہ اندھیرے نے اچک لیا ہے۔ اس انسان کا دل تیرہ رنگ ہے۔ یہ انسان ظاہر میں آزاد ہے مگر بہ باطن گرفتار کہ جہاں اس کے قدم پڑ رہے ہیں وہیں مادیت پرستی کا اندھیرا زنجیر کر لیتا ہے۔ یہ روشن تاریکی دانش عصر حاضر کی عطا ہے جس سے نکلنے کی راہ اقبال نے سجھا رکھی ہے۔اقبال نے دانش عصر حاضر کو مجموعی طور پر آنکا ہے۔
اور اس کی ایک ایک اکائی پر بھی نگاہ کی ہے۔ مثلا جمہوریت ہی کو لے لیں جو دانش مغرب کی عطا ہے اور ارمغان حجاز اٹھا لیں۔ شیطان کی مجلس شوری پڑھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ اقبال نے دانش عصر حاضر کو عذاب کیوں کہا ہے۔ مغرب کا جمہوری نظام اس عہد کی دانش، عدل اور انصاف کے ضامن کے طور پر پیش کرتی ہے مگر اقبال اسی نظام کی بابت کہہ رہے ہیں کہ یورپ کی یہی عطا دنیا کے ظالم ترین فاتح چنگیز سے بھی زیادہ سفاک ہو گئی ہے ؛ بظاہر انسانی حقوق کی ضامن مگر اس نظام کے ذریعے منتخب ہونے والے برسر اقتدار ہو کر اپنے منتخب کرنے والوں پر ستم ڈھانے لگتے ہیں تو چنگیز کی چنگیزیت بھول جاتی ہے۔
تو نے دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندرون چنگیز سے تاریک تر
ارمغان حجاز ہی سے ایک نہایت دلچسپ نظم ہے دوزخی مناجات ۔ اس نظم میں دوزخ میں پڑا ہوا ایک شخص خدا سے التجا کر رہا ہے۔
اللہ ترا شکر کہ یہ خطہ پرسوز
سوداگرِ یورپ کی غلامی سے ہے آزاد
دوزخ کی آگ کا تصور باندھیں اور اس شخص کی بابت سوچیں جسے اس آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ سوداگران یورپ کی نام نہاد دانش نے تہذیب و ترقی کے نام پر آج کے انسان کو جس آگ میں جھونکا ہے وہ اس دوزخ سے کہیں بدتر ہے۔ اس بدتر دوزخ کے مقابلے میں اصلی دوزخ کا خطہ پرسوز ایسا ہے کہ اس میں پھینکے جانے پر انسان خدا کا شکر ادا کرے گا۔ جدید دانش، سائنسی ترقی اور انسان کی علمی فتوحات کو مغرب کی تاجرانہ ذہنیت نے ہتھیا رکھا ہے۔ یہ ترقی یقینا انسان کا بہت بڑا کارنامہ ہے اور انسانیت اس سے فائدہ اٹھا سکتی تھی مگر ان وسائل کو حیلوں بہانوں سے انسانیت کے یا تو خلاف برتا جانے لگا ہے یا پھر سرمائے کی بے پناہ بڑھوتری اور اس کا مخصوص ہاتھوں میں ارتکاز ہی اس کا مقصد ٹھہر گیا ہے۔ اقبال اسے خرد کی تنگ دامانی کا شاخسانہ کہتے ہیں۔ جو خرد، عشق سے، خودی سے، خود آگہی سے سرگرداں رہے گی اس کا دامن وسعت سے کیسے آشنا ہو پائے گا۔ اقبال ایک رباعی میں ایسی دانش کی تنگ دامانی پر کچھ یوں دہائی دیتے نظر آتے ہیں :
خرد کی تنگ دامانی سے فریاد
تجلی کی فراوانی سے فریاد
گوارا ہے اسے نظارہ غیر
نگہ کی نا مسلمانی سے فریاد
اقبال کی دہائی دانش عصر حاضر کی تنگ دامانی پر اس لیے ہے کہ وہ تجلی کی فروانی اور کائنات کے ماوارئے عقل جواز کو نہیں سمیٹ پاتی۔ اگر ان کی عقل یہ سمجھ پاتی کہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ وجود باری تعالی کے اسما اور صفات کا مظہر ہے تو ہی اس کے ذرے ذرے میں اس کی جلوہ نمائی دیکھ پاتے۔ یہ المیہ صرف اہل مغرب کا نہیں ہے ہمارے ہاں بھی عقل محدود کے لامحدود عشق میں مبتلا نظر آئیں گے جنہیں اقبال نے نگاہ کے نامسلمان کہا ہے۔ عذاب دانش حاضر یہی ہے کہ آج کا انسان دانش و بینش کی ارزانی کے اس عہد میں دیوار سے پرے نہیں دیکھ پا رہا۔ وہ اس صلاحیت سے محروم نہیں ہے مگر حیف کہ محروم ہے۔ اقبال نے کہا تھا:
کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا
نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہائی
بس اگر انسان بصیرت سے کام لے گا تو کائنات پر پڑا بہت نازک جوہری پردہ ہٹا کر اس کی اصل کو پا لے گا اور اس کی رسائی عرش عظیم پر موجود فرشتوں کے تبسم ہائے پنہائی تک ہو جائے گی۔ کہہ لیجیے وہ کائنات جو دم بہ دم ہم پر کھل رہی ہے یہ محض عقل پر نہیں کھلتی اس میں وہ بصیرت بھی درکار ہے جو دیوار سے پرے دیکھتی ہے اور اقبال بار بار جدید انسان کی توجہ اسی جانب دلا رہے ہوتے ہیں۔
یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزندِ آدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوقِ عریانی
( فکر اقبال اور عذابِ دانش حاضر کے موضوع پر الحمد اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد کے زیر اہتمام منعقدہ اقبال انٹرنیشنل کانفرنس 2024 کے لیے لکھی گئی تحریر)