وزیر اعلی کے کوآرڈینیٹر مبشر حسن نے کہا ہے کہ نوجوان ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں ان کے بغیر ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں ۔ انہوں نے کہا یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔صوبائی حکومت نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات کرنے پر یقین رکھتی ہے اور سکردو کی یوتھ کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ہم نوجوانوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی ترقی کے مواقع پیدا کرنے کے لیے مزید منصوبے متعارف کرائے جائیں گے۔کچھ عرصہ قبل وزیراعظم شہبازشریف نے نوجوانوں کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ٹیکنالوجی کے دور میں نوجوانوں کی اہمیت ہے،ٹیکنالوجی اور مواقع سے نوجوانوں کو خواہشات کو عمل شکل دینے کی طاقت ملتی ہے۔پاکستان تیس سال سے کم عمرساٹھ فیصد افراد کے ساتھ نوجوان آبادی کا ملک ہے،نوجوان تعلیم، کاروبار اور سماجی سرگرمیوں سے اپنے اندر مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں،آج ہم پاکستان کے نوجوانوں کو سازگار ماحول دینے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قابِل اور ہنر مند نوجوان کسی بھی ملک کا اثاثہ ہیں اور ملک کا مستقبل ان ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ عام نوجوانوں کے معاشی، نفسیاتی اور دیگر مسائل سے توکسی حد آگاہی حاصل ہوتی رہتی ہے مگر جس رفتار سے معاملات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہو رہے ہیں اس سے چشم پوشی یا محض وقت گزاری کے لیے چند اقدامات کر دینا ان تمام مسائل کا ازالہ نہیں کر سکتا جس سے آج کا نوجوان خاص طور پر طالب علم نبرد آزما ہے ۔ دورانِ تعلیم جامعات میں فیس کے علاوہ دیگر ضروریات جیسے رہائش اور کھانے پینے کے معاملات بے حد مشکل ہو چکے ہیں اور والدین کی آمدنی میں بہتری نہ ہونے کے برابر ہے اور اخراجات مسلسل بڑھ رہے ہیں ۔اب ان معاملات سے غفلت اور پہلو تہی حالات کو مزید خرابی کی طرف لے کر جائے گی ۔ ہر حکومت نوجوانوں کے لیے مختلف ترقیاتی اور فلاحی منصوبے پیش کرتی ہے جو بے تدبیری کی وجہ سے دیرپا اثرات مرتب کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ آج کے نوجوان کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد روزگار کا کوئی بھروسہ نہیں ہے ۔اکثریت والدین اپنی تمام تر جمع پونجی بچوں کی تعلیم پر لگا دیتے ہیں اور امید بھی رکھتے ہیں کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک بہتر زندگی منتظر ہو گی مگر حالات اس کے برعکس ہوتے ہیں ۔ تعلیمی نظام کو بہتر بنانا بے حد ضروری ہے مگر موجودہ حالات میں کسی ایک مرکزی پلیٹ فارم کے تحت ملک بھر کی جامعات کے طلبا کے لیے نجی اور سرکاری شعبے میں شراکت داری کے ذریعے دوران تعلیم نوکری یا تنخواہ کے ساتھ انٹرن شپ پر توجہ دی جا سکتی ہے ۔اسی طرح کاروباری منصوبہ بندی، مارکیٹنگ، اور مینجمنٹ جیسے شعبوں کی جانب رہنمائی کی جاسکتی ہے تاکہ سارا فوکس نوکری کے حصول تک محدود نہ رہے ۔ اس مقصد کے لیے موجودہ تعلیمی انفراسٹرکچر کو ہی استعمال میں لاتے ہوئے شام کے اوقات میں نوجوانوں کی فنی تربیت کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ معاشی طور پر بے فکر ذہن ہی اپنی صلاحیت کا بہترین استعمال کر سکتا ہے اور یہی انفرادی سکون سماجی استحکام کا باعث بنتا ہے ۔ ماہرین کی زیرِ نگرانی نوجوانوں کے اس مسئلے پر خالص عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ جو بھی منصوبہ شروع کیا جائے وہ مسلسل اور کار آمد ہو ۔ روز بروز بڑھتی معاشی مشکلات نوجوانوں میں بہت سے نفسیاتی مسائل کو بھی جنم دے رہی ہیں۔عارضی اور ناپائیدار اسکیموں کی بجائے مستقل نوعیت کے منصوبوں کی ضرورت ہے تاکہ یہ نوجوان نہ صرف معاشی طور پر خود کفیل ہو سکیں بلکہ ملکی معیشت اور مجموعی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کر سکیں ۔2021 میں پاکستان میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح نو اشاریہ اکتالیس فیصد تھی۔ مذہبی عدم رواداری کا بڑھتا ہوا رجحان، مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت بھی وہ مسائل ہیں جن کا نوجوانوں کو سامنا ہے۔ غیر معیاری تعلیم بھی نوجوانوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے اور بے روزگاری کا تعلق بھی اسی سے ہی ہے۔کئی ماہرین کے خیال میں پاکستان میں مذہبی عدم رواداری اور انتہا پسندی دونوں میں اضافہ ہورہا ہے، جس کے شکار نوجوان ہو رہے ہیں۔نوجوان ہنر اور تعلیم کو سمجھنے کے بجائے ان کے نظریات کو سمجھنے میں وقت صرف کرتا ہے۔مختلف علاقوں میں نوجوانوں کے مسائل کی نوعیت بھی مختلف ہے۔گلگت کے کچھ علاقوں میں تعلیم کی بہت بلند شرح ہے لیکن وہاں پہ خودکشیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے کیونکہ نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں نوجوانوں میں باغیانہ خیالات پروان چڑھ رہے ہیں'نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نفسیاتی مسائل کا شکار ہے جو خوف کی وجہ سے اپنی تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے وہ بھی نوجوان ہیں اور جنہوں نے اس مسئلے کی وجہ سے اپنی نوکریاں چھوڑ کے سڑکوں کا رخ کیا ہے وہ بھی نوجوان ہیں۔نوجوانوں میں بہت احساس بیگانگی بڑھ رہا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ریاست کو پہل کرنی پڑے گی اس کے علاوہ اعتماد کی فضا پیدا کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر بینک نوجوانوں کو قرضے فراہم نہیں کرتے اور صنعت لوگوں کو روزگار فراہم نہیں کر پا رہی۔ اس لیے جو نوجوان خود اپنے چھوٹے کاروبار کرنا چاہتے ہیں یا آئی ٹی میں کوئی فری لانس ورک کرنا چاہتے ہیں ان کی حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور انہیں مالی مدد فراہم کی جانی چاہیے۔ پاکستان اپنے نوجوانوں کو انسانی سرمایہ یا ہیومن کیپیٹل کے طور پہ بھی استعمال کر سکتا ہے۔کیوبا ہر سال میڈیکل کالجوں میں غریب ممالک کے طلبہ کے لیے اسکالرشپ کا اعلان کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یورپی یونین اور دنیا کے کئی اور ممالک بھی مختلف شعبہ جات میں نوجوانوں کے لیے اسکالرشپ کا اعلان کرتے ہیں۔ حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر یہ اسکالرشپ دلوانے میں نوجوانوں کی معاونت کرنی چاہیے۔ آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں بہت سارے ہنر مند افراد کے لیے روزگار میسر ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے شعبوں میں اپنے نوجوانوں کو تیار کر کے ان ممالک سے بات چیت کریں اور اس ہیومن کیپیٹل کو ایکسپورٹ کریں۔ ملکی آبادی میں نوجوانوں کی اکثریت حوصلہ افزا بھی ہو سکتی ہے اور ایک حساس نوعیت کا چیلنج بھی۔ حوصلہ افزا اس لحاظ سے کہ نوجوان آبادی ملکی صنعتوں کو زیادہ افرادی قوت فراہم کر سکتی ہے جبکہ چیلنج اس لیے کہ نوجوان آبادی کی صلاحیتیں نکھارنے کیلئے ان پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ گزشتہ سال کو وزیراعظم نے نوجوانوں کا سال قرار دیا تھا مگر اس نعرے کے باوجود نوجوانوں کی ترقی کیلئے حکومتی سطح پر کوئی اہم پیشرفت نظر نہیں آئی۔ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال کے آخر تک ملک میں بیروزگاری کی شرح گیارہ فیصد تک پہنچ جائے گی۔نوجوان کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے مستقبل کے معماروں کو کبھی اولین ترجیح نہیں بنایا جا سکا۔ نوجوان پر سرمایہ کاری کے دیرپا اور حقیقی نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے اس مد میں سرمایہ کاری میں پس و پیش سے کام نہیں لینا چاہیے۔نوجوانوں کی بہتر تعلیم و تربیت اور اس افرادی قوت سے استفادہ کرکے ہی ملک کا مستقبل تابناک بنایا جا سکتا ہے۔پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی چوبیس کروڑ سے زائد ہے اور نوجوان آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ نوجوانوں پر مشتمل اتنی بڑی آبادی رکھنے والے ملک میں انتیس فیصد نوجوان غیر تعلیم یافتہ ہیں جبکہ صرف چھ فیصد نوجوان بارہ تعلیمی سال سے آگے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ نوجوانوں کے سب سے بڑے مسائل تعلیم اور بے روزگاری ہیں جس نے نوجوانوں کے مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ملک میں بیروزگاری کی شرح میں بائیس فیصد اضافہ ہوا ہے ملک میں روزگار سے وابستہ افراد کی تعداد تقریبا پانچ کروڑ ستاون لاکھ بتائی جاتی ہے ۔نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت خصوصی تکنیکی اور پیشہ وارانہ تعلیم و تربیت سے محروم ہے جس کے باعث ان میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے، ہم اس وقت ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں شدید سماجی بے چینی کے علاوہ انتہائی تیزی سے معاشی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ مالی وسائل میں کمی کے باعث نوجوانوں میں شدید مایوسی اور احساس محرومی جنم لے رہا ہے۔ اکثر نوجوانوں کے پاس اعلی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہیں اور جن کے پاس ہیں وہ مناسب نوکریوں اور کاروباری مواقعوں کی کمی سے پریشان ہیں۔اس لیے حکام بالا کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کے حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر حوصلہ افزاء فیصلے کرے تاکہ انہیں روز گار کے ضمن میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
۔