کرم کے کشیدہ حالات اور حکام کی ذمہ داریاں

مشیراطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹرسیف نے واضح کیا ہے کہ گرینڈ جرگے کے معاہدے کے مطابق کرم میں ہرحال میں امن یقینی بنایاجائیگا اور امن دشمنوں سے ہرحال میں آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ڈپٹی کمشنر کرم پرحملہ امن کو سبوتاژ کرنیکی مذموم سازش تھی، کرم کے عوام امن دشمن عناصر سے ہوشیار رہیں اور علاقے میں پائیدار امن کیلئے انتظامیہ اور حکومت کیساتھ تعاون کریں۔بیرسٹرسیف نے بتایاکہ وزیراعلی نے فائرنگ کے واقعے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ہدایت کی ہے، انہوں نے کہاکہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر قافلے کو وقتی طور پر روک دیا گیا ہے، کلیئرنس ملنے کے بعد عنقریب قافلے کو روانہ کیا جائیگا۔ضلع کرم پولیس کے مطابق ڈپٹی کمشنر کرم اور ان کے عملے پر فائرنگ کرنے والے پانچ ملزمان کی نشاندہی ہو گئی ہے، جن کی گرفتاری کے لیے مسلسل آپریشن کا سلسلہ جاری ہے، ملزمان کی گرفتاری کے بعد سہولت کاروں کو گرفتار کرنے کے بعد ہی مقدمات درج کیے جائیں گے ۔پولیس کے مطابق آئی جی خیبر پختونخوا، ڈی آئی جی کوہاٹ اور چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا کوہاٹ میں اعلی سطح کے اجلاس کے بعد میڈیا کو مکمل بریفنگ دیں گے اور آگے کے لائحہ عمل کے بارے آگاہی دی جائے گی ۔ گزشتہ روز بگن میں فائرنگ سے ڈپٹی کمشنر کرم سمیت چھے افراد زخمی ہوئے تھے، زخمیوں میں تین راہ گیر، ایک ایف سی اور ایک پولیس اہلکار بھی شامل تھا۔دو روز قبل ہی خیبر پختونخوا کی حکومت اور مقامی قبائلی عمائدین کی کوششوں سے فریقین میں امن معاہدہ ہوا تھا، جس کے بعد آج صبح صوبائی حکومت نے پچھہتر ٹرکوں میں امدادی سامان کرم کے لیے روانہ کیا تھا، ڈپٹی کمشنر اسی امدادی سامان کے قافلے کے لیے سڑکیں بحال کروانے گئے اور خود فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔حکام کے مطابق ڈی سی کرم پر حملہ کرنے والے پانچ افراد کی شناخت ہوگئی ہے جس کے بعد کے پی حکومت نے پانچوں ملزمان اور سہولت کاروں کو فوری گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ دہشتگردوں کے سروں کی قیمت مقرر کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔اس سے قبل وزیراعلی علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت کرم کی صورتحال پر رات گئے ہنگامی اجلاس ہوا اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ امن معاہدے کے بعد علاقہ مکین معاہدے کی خلاف ورزی کے ذمہ دار ہیں، فائرنگ کے واقعے میں ملوث تمام افراد کے خلاف ایف آئی آردرج کرکے فوری گرفتار کیا جائے گا۔اجلاس میں دہشتگردوں کا پوری قوت سے قلع قمع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور کہا گیاکہ کسی دہشت گرد سے نہ رعایت کی جائے گی نہ ان کی معاونت کرنے والوں کو چھوڑا جائے گا۔کرم میں ہوئے امن معاہدے کو دو دن گزرنے کے باوجود پاراچنار ٹل مین شاہراہ آج بھی ہر قسم کی آمد ورفت کیلئے بند ہے، جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، اپر کرم کی چار لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی علاقے میں محصور اور اشیائے ضروریہ کی ترسیل اور فراہمی معطل ہے۔ راستوں کی بندش، بدامنی اور دہشتگردی کے خلاف کرم پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا آج بھی جاری ہے، شدید سردی کے باوجود دھرنے میں کثیر افراد شریک ہیں۔دھرنے کے شرکا کا کہنا ہے کہ جب تک روڈ نہیں کھل جاتا، روڈ کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جاتا تب تک دھرنا جاری رہے گا، راستوں کو محفوظ بنانے کیلئے دھرنا جاری رہے گا۔کرم کے علاقے بگن میں بھی احتجاجی دھرنا جاری ہے، شرکا کا کہنا ہے کہ جب تک ریلیف پیکیج نہیں ملتا دھرنا جاری رہے گا۔امن معاہدے کے بعد دوبارہ فائرنگ امن کے بگاڑ کی کوشش ہے ڈپٹی کمشنر کرم پر بگن کے علاقے میں نامعلوم شرپسندوں نے فائرنگ کی۔فائرنگ کا واقعہ ایسے موقع پر پیش آیا ہے جب امن معاہدے کے تحت ہفتے سے اپر کرم میں کھانے پینے کا سامان، ادویات اور دیگر ضروری اشیا منتقل کی جانی تھی۔فریقین کے درمیان یکم جنوری کو ایک امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت اراضی کے تنازعات کو اراضی کمیشن کے ذریعے حل کرنے، ایک ماہ کے اندر تمام نجی بنکرز ختم کرنے جیسے نکات پر فریقین پر اتفاق کیا تھا۔گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ایک بیان میں فائرنگ کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کا زخمی ہونا انتظامیہ کی نااہلی ہے۔امدادی قافلے پر فائرنگ صوبائی حکومت کی نااہلی اور ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی کہا ہے کہ ڈپٹی کمشنر پر فائرنگ امن معاہدے کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ امن و امان میں خلل ڈالنے والوں اور انسانیت کے دشمنوں کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ندیم اسلم چوہدری کا کہنا ہے کہ دونوں فریقین پرامن رہیں،کوہاٹ معاہدے پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے، کرم میں امن و امان خراب کرنیوالوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہو گی۔معاہدے کے بعد ہی بعض قبائلی عمائدین کا کہنا تھا کہ امن معاہدے پر مکمل عمل درآمد کٹھن ہو گا۔ جب کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ امن کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔چودہ نکاتی معاہدے میں اسلحہ جمع کرانے، شاہراہوں کے تحفظ، فرقہ وارانہ واقعات کا خاتمہ، امن کمیٹیوں کے قیام، کالعدم تنظیموں کی حوصلہ شکنی جیسے نکات شامل تھے۔حکومت نے اس پیش رفت کو بڑی کامیابی قرار دیا تھا، تاہم عمائدین اور مقامی افراد اسے مستقل امن کی جانب ایک کٹھن سفر سے تعبیر کر رہے تھے۔خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم میں فرقہ وارانہ کشیدگی تو گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ تاہم اکیس نومبر کو مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں پنتالیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد بائیس نومبر کو ضلع کے مختلف جگہوں پر جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں جس میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ان پرتشدد واقعات کے بعد علاقے میں صورتِ حال مزید خراب ہو گئی تھی اور راستوں کی بندش سے کرم میں اشیائے خورونوش اور ادویات کی قلت ہے۔ضلع کرم کے مسائل کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ضلع کرم کی منفرد حیثیت اس کی آبادی اور جغرافیے کی وجہ سے ہے۔ ضلع کرم تین اطراف سے افغانستان کے صوبوں ننگرہار، پکتیا اور خوست سے متصل ہے۔ اس حساس محل وقوع میں  فریقین کے لیے اپنے ہتھیار حکومت کے حوالے کرنا ایک مشکل فیصلہ ہو گا لیکن حکومت کی جانب سے اعتماد سازی کے اقدامات فریقین کو طویل مدتی جنگ بندی پر قائل کر سکتے ہیں۔اس وقت پاکستان کی مجموعی سیکیورٹی صورتِ حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔بدقسمتی سے پاڑہ چنار ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں فرقوں کے جذبات میں شدت پائی جاتی ہے۔ یہ جذبات نہ صرف پاکستان بلکہ متصل افغان صوبوں میں بھی ہیں جس سے صورتِ حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ موجودہ حالات میں یہاں کے افراد حکومت کو ہتھیار حوالے کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ جب تک افغان سرحد پر حالات کشیدہ رہتے ہیں تب تک وہ تمام تر ہتھیار حکومت کے حوالے نہیں کر سکتے ۔اس وقت پارہ چنار میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، جہاں خوراک اور طبی سہولیات جیسی بنیادی اشیا ختم ہوتی جا رہی ہیں۔علاقے میں گیس کا کوئی نظام موجود نہیں، جب کہ برفباری کی وجہ سے پہاڑوں سے لکڑیاں بھی لانا ممکن نہیں رہا۔ ٹل علی زئی کے درمیان سولہ کلومیٹر طویل شاہراہ شدت پسندوں کے قبضے میں ہے جس کی بندش نے صورتِ حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ اس سڑک کی بحالی کے بغیر زندگی کا معمول پر آنا ممکن نہیں۔فریقین کو احساس ہے کہ قتل و غارت گاری سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔ یہی وجوہات ہیں جن کے باعث فریقین نے اس معاہدے پر کھلے دل سے دستخط کیے اور انہیں امید تھی کہ یہ امن دیرپا ثابت ہو گا۔دوسری جانب جرگے میں اہل سنت کی نمائندگی کرنے والے حاجی کریم خان جو بگن کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں نے اپنے تحفظات کی بنیاد پر معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے۔حاجی کریم خان نے کہا تھاکہ معاہدے کی دستاویز میں ان کے علاقے بگن کا کہیں ذکر تک نہیں، حالاں کہ یہاں قتل و غارت اور بدترین تشدد کا سامنا کیا گیا۔ معاہدے میں نہ تو متاثرین کے لیے کسی قسم کے معاوضے کا ذکر ہے اور نہ ہی تباہ شدہ گھروں کی بحالی کے حوالے سے کوئی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، جو ان کے لیے شدید مایوسی کا باعث ہیں۔یہاں پشاور سے پارہ چنار جانے والے کانوائے کو بگن کے علاقے میں نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں پنتالیس سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کے ردِعمل میں اگلے دن مشتعل افراد نے بگن گائوں پر حملہ کیا، جہاں پولیس کے مطابق سینکڑوں دکانوں اور گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا تھا۔اس واقعے کے بعد علاقے کی صورتِ حال مزید کشیدہ ہو گئی تھی۔ملک کریم خان کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے تحفظات کو نہیں سنا جاتا۔ ان کی قوم معاہدے پر دستخط کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے گی۔ بگن کے متاثرین کے نقصانات کے ازالے اور بحالی کے اقدامات کے بغیر امن معاہدہ حقیقی معنوں میں موثر نہیں ہو سکتا۔صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ جب تک فریقین حالات کی نزاکت کے پیش نظر باہمی اتحاد و اتفاق سے کام نہیں لیتے امن کا قیام ممکن نہیں ہے انہیں علاقے اور عوام کے وسیع تر مفاد میں اپنے اختلافات کو دور کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔