عاشق فراز
ان دنوں گلگت بلتستان کے مختلف ضلعوں اور خاص طور پر وہ اضلاع جہاں برف پڑتی ہے اور سردی زیادہ ہوتی ہے وہاں سرمائی کھیلوں کا انتظام کیا جارہا ہے۔ ان میں آئس ہاکی زیادہ نمایاں ہے جبکہ روایتی کھیلوں کو جو اب ناپید ہوتے جارہے ہیں اور جن کا اہتمام مشکل بھی نہیں انہیں شامل کرکے رونق بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں ابھی تک سکردو، ہنزہ،غذر اور استور میں پروگرام منعقد ہوچکے ہیں اور ان پر طرح طرح کا نقد و جرح بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔دوسری طرف یہاں کے ٹورازم کو فروغ دینے کے نام پر گلگت بلتستان کے وزیر اعلی کچھ ممبران کے ہمراہ ان دنوں امریکہ میں ہیں دیکھتے ہیں کہ ان کی زنبیل سے کیا نکلتا ہے۔گلگت بلتستان ایڈونچر ٹورازم کے حوالے سے جنوبی ایشیا میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلند و بالا پہاڑوں اور گلیشےئرز سے نبردآزما ہونے کے لئے دنیا جہاں سے کوہ نورد اور سیاح یہاں پہنچتے ہیں۔ علاہ ازیں یہاں کے لینڈ اسکیپ ، کلچر اور متنوع جغرافیائی خدو خال کو دیکھنے کے لئے آنے والوں کا بھی اژدھام رہتا ہے۔گزشتہ کچھ سالوں سے یہاں ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں کا تانتا بندھ گیا ہے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کی زمینوں پر قبضے اور ٹوارزم انڈسٹری میں انویسٹمنٹ کے حوالے سے بھی بڑی لے دے چل رہی ہے۔ گرمیوں میں جب ہر طرف سبزہ و گل کی بہار ہوتی ہے ،گلیشےئرز سے پگھلتا پانی شور و غل مچاتا بلندیوں سے نیچے اترتا ہے اور درختوں پر خوبانی جب جامنی رنگ اختیار کرتی ہے تو اس فسوں ساز لمحوں کو کشید کرنے کے لئے بقول مستنصر تارڑ جن کے دماغوں میں خلل پیدا ہوتا ہے وہ یہاں پہنچتے ہیں۔اسی ٹوارزم سے یہاں کی معیشت کا پہیہ چلتا ہے اور روزگار کا یہ ایک بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے چند سالوں سے بے ہنگم تعمیرات اور زمینوں کی بغیر منصوبہ بندی بندر بانٹ سے یوں لگتا ہے کہ روزگار کے یہ مواقع بھی مقامی لوگوں کے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے ایک دیرینہ دوست نے جو کچھ سالوں سے تارک الدنیا ہوئے ہیں ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ وہ سنا رہے تھے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ سکردو میں کئی کئی منزلہ بلند شیشے اور اسٹیل کی بنی ہوئی عمارتیں تعمیر ہوئی ہیں اور ان کے درو بام پر لگے شیشوں کی صفائی میں کچھ لوگ مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ پوچھنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ مقامی لوگ ہیں جو مزدوری اور صفائی کے کام پر مامور ہیں کیونکہ عمارتیں اور زمین اب دوسروں کی ملکیت ہیں۔ اللہ خیر کرے۔بہرحال ابھی تک سیاحوں کی بڑھتی تعداد کو قیام و طعام کی سہولیات دینے کے نام پر جو تعمیرات کی جارہی ہیں وہ اس علاقے ماحول کے ساتھ قطعی مطابقت نہیں رکھتیں اور اس حوالے سے جائزہ و نگرانی کا بھی کوئی میکنیزم موجود نہیں۔ یہ الگ بحث ہے جو فی الحال مطلوب نہیں ہے۔ٹوارزم کے فروغ میں بہتر رہائشی سہولیات کی فراہمی کے لئے بجلی جزو لاینفک کا کردار ادا کرتی ہے اور ابھی یہ صورتحال ہے کہ یہ ایکسٹرا ایکٹر کا کردار نبھا رہی ہے۔گلگت بلتستان میں توانائی کا بڑا ذریعہ ہائیڈرو انرجی ہے اور قدرت کے عطیہ کردہ ندی نالے اس کام کے لئے نہایت موزوں ہیں۔ بڑے بڑے سروے اور تحقیق کا خلاصہ یہی ہے کہ یہاں کے دریاﺅں اور ندی نالوں سے کئی ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے مگر یہ جرات رندانہ کون کرے۔ بجلی کی کہانی تو اپنے ملک بھی عجیب و غریب رہی ہے جب IPPs کا کٹا کھلا تو پتہ چلا کہ کئی IPPs کمپنیاں اےسی بھی تھیں جو ایک کلوواٹ بجلی پیدا کئے بغیر بھی کروڑوں روپیہ سبسڈی ہضم کررہی ہےں کیونکہ ارباب حل و عقد نے کک بیک لے کر ان سے معاہدے ایسے کئے ہوئے تھے۔اب جب ہر طرف ایسی صورت حال ہو تو کہاں ٹوارزم انڈسٹری پھلے پھولے گی اور کہاں سردیوں میں ٹورسٹ گلگت بلتستان کا رخ کریں گے جب گرمیوں میں یہاں بجلی کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔
دنیا کے مقبول ترین نیوز چینل سی اےن اےن نے 2025 کے لئے جن پچےس سیاحتی مقامات کو اہم ترین قرار دیا ہے اس میں گلگت بلتستان شامل ہے۔ اسی طرح انٹرنیشنل اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ستائےس جنوری والے ایڈیشن میں Places to go کے عنوان سے ایک ٹریول اسٹوری شائع کی ہے۔ اس اسٹوری کی خاص بات یہ ہے کہ اخبار 2005 سے لیکر 2025 تک بیس سالوں میں متواتر طور پر سالانہ اہم ٹورسٹ مقامات کی فہرست شائع کرتا رہا ہے ۔ اسی اخبار نے 2025 کے لئے بہترین ٹورسٹ جگہ کی فہرست میں گلگت بلتستان کو شامل کیا ہے۔ ستائیس جنوری والے شمارے میں جو خاص بات لکھی گئی ہے میں قارئین کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ اخبار کے مطابق ٹریول اور ٹوارزم کے طور طریق بدل گئے ہیں، 2005 سے پہلے سمارٹ فون نہیں تھا لہذا نہ انسٹا گرام اور نہ ہی گوگل نقشے تھے لہذا سیاح پرنٹ مےٹیریل پر ہی انحصار کرتے تھے۔ وہ اپنے ساتھ چیکس لے جاتے یا جیبوں میں کرنسی ٹھونسے نکل جاتے تھے۔ مختلف علاقوں میں ہوٹلوں کی بکنگ کے لئے تار یا فیکس کا سہارا لیا جاتا تھا لیکن اب دنیا بدل گئی ہے۔ بکنگ ہو یا مارکیٹنگ ، رقم کی منتقلی ہو یا مختلف علاقوں کے نقشے ، معلومات ہوں یا دوستی تعلق سب ڈیجیٹل ہوگیا ہے۔ان سب کا ذکر اس لئے کررہا ہوں کہ ان سب کے استعمال کے لئے بجلی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اب جب سردیوں میں ٹوارزم بڑھانا ہو تو ان متذکرہ سہولیات کو تو ایک طرف رکھیں گیسٹ ہاﺅسز اور ہوٹلوں کے کمرے گرم رکھنے اور نہانے کے لئے گرم پانی جیسی بنیادی سہولت کی دستیابی تک ممکن نہیں کیونکہ بجلی نہیں ہے۔لکڑی اور LPG جلا کر توانائی کی فراہمی کہاں تک ممکن ہے اول تو جنگل نہ ہونے کے برابر ہیں اور بہت کم حصے پر ہیں تو کیا انہیں ختم کرنا ہے۔ LPG شہروں سے لاکر استعمال کرنا وہ بھی تجارتی پیمانے پر مہنگی اور ماحولیاتی نقصان کا باعث ہے۔ پانی وافر ہے مگر بجلی پیدا نہیں کی جارہی ہے۔غالبا پانچ چھ مہینے پہلے کی بات ہے جب ملائےشیا کی ایک یونیورسٹی جو ٹوارزم اور ہاسپٹیلٹی مینجمینٹ پڑھاتی ہے اس کے وائس چانسلر کچھ سٹاف کے ہمراہ سکردو آئے تھے۔ مشہ بروم ہوٹل سکردو میں ٹوارزم سے متعلق ایک تربیتی سیشن میں انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان بہت خوب صورت ہے مگر ٹوارزم کے فروغ کے لئے بجلی اور تیز رفتار انٹرنیٹ کی فراہمی ناگزیر ہے۔ اور بدقسمتی ہمارے ہاں یہ دونوں سہولت رینگ رہی ہیں۔