پریس کریم آغاخان چہارم کا سانحہ ارتحال

اسماعیلی برادری کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان چہارم اٹھاسی برس کی عمر میں پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں وفات پا گئے انا للہ وانا الےہ راجعون۔پرنس کریم آغا خان کا اصل نام کریم الحسینی تھا اور انہیں نہ صرف اسماعیلی برادری بلکہ پوری دنیا بہت عقیدت اور عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ وہ خاص طور پر اپنے فلاحی کاموں اور مفادِ عامہ کے لیے قائم کیے گئے اداروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانے جاتے تھے۔جس وقت پرنس کریم آغاخان اپنی کمیونٹی کے پیشوا بنے تو ان کی عمر بےس برس تھی اور اس وقت وہ ہارورڈ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔پرنس کریم کے دادا سر آغان خان سوم پاکستان کے قیام کی تحریک چلانے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں شامل تھے ۔پرنس کریم الحسینی آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے بانی تھے۔ ان کے انتقال پر آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پرنس کریم الحسینی اسماعیلی مسلمانوں کے انچاسوےں موروثی امام تھے جن کے جانشین کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ آپ 1936 میں یورپی ملک سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں پیدا ہوئے انہوں نے اپنے بچپن کا زیادہ تر وقت افریقی ملک کینیا کے شہر نیروبی میں گزارا۔ان کے دادا آغا خان سوم کے انتقال کے بعد 1957 میں انہیں افریقی ملک تنزانیہ میں اسماعیلی فرقے کا پیشوا بنایا گیا تھا۔ پرنس کریم کے دادا نے ان کے والد کی جگہ انہیں پیشوائی کے لیے نامزد کیا تھا۔ ان کے ترقیاتی کاموں اور دنیا میں رواداری کے فروغ کی کوششوں کی وجہ سے انہیں کینیڈا کی اعزازی شہریت بھی دی گئی۔ان کے انتقال پر کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ایک غیر معمولی ہمدرد رہنما تھے۔انہوں نے پرنس کریم کو ایک بہترین دوست قرار دیا۔ پرنس کریم الحسینی کو اسماعیلی فرقے کا پیشوا بننے کے دو ہفتوں بعد ہی جولائی 1957 میں ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم نے انہیں ہز ہائینس کا خطاب دیا تھا۔پرنس کریم اکتوبر 1957 میں تنزانیہ میں اسی دارالسلام میں آغا خان چہارم بنے تھے جہاں ان کے دادا آغا خان سوم کو پیرو کاروں نے ان کے وزن کے برابر ہیرے ہدیہ کیے تھے۔وہ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران بیمار دادا کے پاس آئے تھے لیکن جب 18 ماہ بعد ان کی واپسی ہوئی تو اس وقت وہ آغا خان چہارم بن چکے تھے۔انہوں نے 2012 میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میں اس وقت تعلیم حاصل کر رہا تھا اور جانتا تھا کہ مجھے زندگی میں کیا کرنا ہوگا۔ پرنس کریم چہارم مشرقِ وسطی کے تنازعات، مذہبی بنیاد پرستی یا فرقہ واریت پر بات کرنے سے گریز کرتے تھے۔2017 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ اسلام تنازعات اور سماجی انتشار کا نہیں امن کا مذہب ہے۔ان کا قائم کردہ ادارہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک بنیادی طور پر صحت، گھروں کی تعمیر، تعلیم اور دیہی علاقوں میں معاشی ترقی کے شعبوں میں کام کرتا ہے۔اس نیٹ ورک کے مطابق یہ لگ بھگ 30 ممالک میں خدمات انجام دے رہا ہے جب کہ اس کا سالانہ بجٹ لگ بھگ ایک ارب ڈالر ہے۔پرنس کریم کے دادا سر آغان خان سوم پاکستان کے قیام کی تحریک چلانے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں شامل تھے۔ پرنس کرم کی قائم کردہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک بھی کئی دہائیوں سے صحت، تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس کے تحت چار دہایوں سے قائم آغا خان یونیورسٹی اسپتال کو پاکستان میں سہولتوں کے اعتبار سے بہترین اداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم کھیلوں میں بھی دل چسپی رکھتے تھے۔ وہ اعلی نسل کے گھوڑے رکھنے کے لیے شہرت رکھتے تھے۔انہوں نے 1964 کے ونٹر اولمپکس میں ایران کی نمائندگی کرتے ہوئے اسکنگ کے مقابلوں میں بھی حصہ لیا تھا۔انہوں نے دنیا بھر میں متعدد تاریخی اسلامی تعمیرات کو بحال کرنے میں بھی کردار ادا کیا۔پرنس کریم کے نیٹ ورک کا مرکزی دفتر سوئٹزرلینڈ میں ہے جب کہ وہ ایک طویل عرصے فرانس میں بھی مقیم رہے جہاں ان کی رہائش موجود ہے۔آپ کئی سال سے پرتگال میں مقیم تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا ہے۔ آغاخان چہارم کی تدفین بھی لزبن میں کی جائے گی تاہم اس کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے ان کے انتقال پر اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرنس کریم کی میراث ان کے دنیا بھر میں تعلیم، صحت اور ناقابلِ یقین ترقیاتی کاموں کے ذریعے ہمیشہ موجود رہے گی۔اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی ایک بیان میں پرنس کریم کو امن، رواداری اور ہمدردی کی علامت قرار دیا۔ان کی فلاحی تنظیم آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک نے ان کی موت کی تصدیق کی ہے اور سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اپنے اہلخانہ کی موجودگی میں پرسکون طریقے سے چل بسے۔کریم آغا خان کی وفات پر ان کی فلاحی تنظیم آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک نے اپنے بیان میں بھی شہزادہ کریم کے اہلخانہ اور دنیا بھر میں اسماعیلی برادری سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم دنیا بھر میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مذہبی وابستگی اور نسل سے بالاتر ہو کر مستحق افراد اور کمیونٹیز کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں، جیسا کہ شہزادہ کریم چاہتے تھے۔کسی مخصوص قطعہ زمین پر تسلط نہ رکھنے کے باوجود وہ ایک ایسے حکمران ثابت ہوئے جو اپنے پیروکاروں کے دلوں پر راج کرتے ہیں اور ان کی ہدایات حرف آخر سمجھی جاتی ہے۔کریم آغا خان کو ان کے دادا سر سلطان محمد آغا خان سوم نے روایات کے برعکس وصیت میں اپنے بیٹے شہزادہ علی خان کی جگہ اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔شہزادہ کریم آغا خان کو گھوڑے پالنے اور گھوڑوں کی دوڑ کا بہت شوق تھا۔ وہ برطانیہ، فرانس اور آئرلینڈ میں ریس کے گھوڑوں کے ایک سرکردہ مالک اور بریڈر تھے۔ان کے پسندیدہ گھوڑوں میں شیرگر نامی گھوڑا سرفہرست تھا، جو کبھی دنیا کا سب سے مشہور اور قیمتی گھوڑا تھا۔پرنس کریم آغا خان دنیا بھر کے لوگوں کے مالی، علمی اور صحت کے امور میں مدد کرنے کے لیے ہر وقت کمربستہ رہتے تھے۔ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے ذیلی اداروں میں آغا خان فاﺅنڈیشن، آغا خان ہیلتھ سروسز، آغا خان پلاننگ اینڈ بلڈنگ سروسز، آغا خان اکنامک سروسز اور آغا خان ایجنسی فار مائیکرو فنانس شامل ہیں جن کی نگرانی شہزادہ کریم آغا خان خود کرتے تھے۔انہوں نے فن تعمیر کے فروغ کے لیے آغا خان آرکیٹیکچر ایوارڈ کا سلسلہ بھی شروع کیا جس سے دنیا بھر میں اسلامی فن تعمیر کو بڑا فروغ ملا۔ ان کے قائم کردہ ادارے آغا خان فاﺅنڈیشن نے کراچی میں ایک بڑا ہسپتال اور میڈیکل یونیورسٹی قائم کی جو ملک میں اپنی طرز کی منفرد درسگاہ ہے۔انہوں نے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں آغا خان پروگرام برائے اسلامک آرکیٹیکچر کی بنیاد رکھی جبکہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سمیت متعدد اداروں میں نئے تعلیمی پروگرام شروع کروائے۔ان کا ادارہ آغا خان ٹرسٹ فار کلچر دہلی میں ہمایوں کے مقبرے کی بحالی کا کام کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔جبکہ انہوں نے نیشن میڈیا گروپ کی بنیاد بھی رکھی، جو مشرقی اور وسطی افریقہ میں سب سے بڑی آزاد میڈیا تنظیم بن گئی۔آغا خان فانڈیشن نے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کی ترقی میں بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔1980 میں آغا خان فاﺅنڈیشن نے اس خطے میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام، آغا خان ہیلتھ سروسز اور دیگر فلاحی اداروں کی بنیاد رکھی جو آج بھی اس علاقے کی ترقی اور خوش حالی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔آغا خان چہارم کو مختلف ممالک نے متعدد اعزازات اور خطابات سے بھی سرفراز کیا‘ انہیں بےس ممالک نے اپنے قومی اعزازات سے نوازا اور دنیا کی انےس بہترین یونیورسٹیوں نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ نائٹ کمانڈر آف دی برٹش امپائر کا اعزاز، کینیڈا کی اعزازی شہریت، امریکی اکیڈمی برائے آرٹ اینڈ سائنسز کی فیلو شپ اور حکومت پاکستان کی جانب سے نشان امتیاز کا اعزاز بھی انہےں ملے ۔شہزادہ کریم آغا خان کے برطانوی شاہی خاندان سمیت دنیا بھر کے شاہی خاندانوں اور حکمرانوں کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے۔ان کی وفات پر برطانیہ کے بادشاہ کنگ چارلس سوم نے گہرے دکھ و رنج کا اظہار کیا ہے۔وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں پرنس کریم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں دور رس نظر رکھنے والا ایماندار، سخی اور اہم رہنما قرار دیا۔ غربت کے خاتمے، صحت کی دیکھ بھال اور صنفی مساوات میں اپنی انتھک کوششوں کے ذریعے، انہوں نے پسماندہ لوگوں کی حمایت کی اور ان گنت زندگیوں پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ادارہ ان کی ناگہانی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لواحقےن اور پےروکاروں سے دلی تعزےت کا اظہار کرتا ہے اور دعاگو ہے کہ اللہ تعالی انہےں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمےن۔