انصار علی
یہ اکتوبر 2024 کی بات ہے،ہدیت الہادی پاکستان کے پلےٹ فارم سے احترام انسانیت کے موضوع پر گورنمنٹ ڈگری کالج سکردو میں ایک سےمینار طے پایا۔ہدیت ہادی پاکستان کے روح رواں جناب صاحبزادہ سید ہارون گیلانی صاحب نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی کہ میں ہر مکتب فکر کے علما کو دعوت دوں۔گےسٹ سپیکرز کی لسٹ تیار کرتے ہوئے میں نے اسماعیلی برادری کی طرف سے ڈاکٹر حاجی کریم کا نام تحریر کرنے کی تجویز دی۔چونکہ موضوع بھی عام سا تھا اور میں ڈاکٹر صاحب کی فکر اور دانش سے واقف بھی تھا، تو میں سمجھا کہ مذکورہ موضوع کیلئے آپ کا انتخاب بہتر رہے گا۔اسی خیال سے آپ کو گیسٹ سپیکرز میں شامل کرنے کے بعد اگلے دن سب سے رابطہ کیا، تمام مکاتب فکر کے علما نے شرکت کی حامی بھری۔ جب ڈاکٹر حاجی کریم صاحب کو اسی حوالے سے رابطہ کیا تو ایک خلاف توقع اور فکر انگیز جواب ملا چونکہ یہاں سب مکتب فکر کے علما شریک ہیں اور اپنے اپنے مکتب فکر کی نمائندگی کر رہے ہیں۔اس لیے آپ اسماعیلی کونسل سے رابطہ کریں تاکہ وہ نمائندہ سکالر بھیج دیں گے کیونکہ ان اسماعیلی مکتب فکر کے ہاں مذہبی موضوعات پر ہر کسی کو ان کے مکتب فکر کی نمائندگی کی اجازت نہیں ہے۔سوائے ان کے جنہیں کونسل منتخب کرے۔یہ جواب میرے لیے حیران کن اور فکر انگیز اس لیے تھی تھا کہ دیگر ماکتب فکر میں تو کوئی بھی ممبر پر چڑ ھ کے دوسرے مکاتب فکر کو للکارنے کی کھلی اجازت ہے۔اختلافی موضوعات کو ممبر سے جو جتنا گلہ پھاڑ پھاڑ کے خطاب کرے اس کو اتنی ہی پذیرائی ملتی ہے۔فرقہ واریت کی وجہ اختلاف نہیں اختلاف کے اظہار کا طریقہ کار ہے۔ڈاکٹر غامدی صاحب سے کسی پروگرام میں ایک سائل نے سوال کیا، کہ امت مسلہ کے درمیان اختلافات کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے بڑا جامع جواب دیا کہ اختلاف ختم کر کے کرنا کیا چاہتے ہیں۔ مسئلہ اختلاف نہیں،اختلاف کا سلیقہ سیکھیں مسائل خود حل ہونگے۔آپ رمضان محرم سے لے کر مقدس ایام میں دیکھ لیں ٹی وی پر تمام مکاتب فکر کے علما کا دنگل اور پروگرام کے اختتمام پر آپ غلط میں صحیح پر ختم ہوتا ہے۔۔اگر ہر عالم اپنی گفتگو میں یہ فقرہ شامل کرے میرے مکتب فکر کے نزدیک یہ ایسے ہے تو بات ختم ہوگی لیکن یہ کہے بغیر جب کہتے ہیں کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہی درست ہے یہیں سے منافرت کا آغاز ہوتا ہے۔شےعہ ، سنی بریلوی دیوبندی، اہلحدیث وغیرہ وغیرہ کے درمیان آج تک جو مناظرے ہوئے کوئی حل نکلا؟ یا مزید نفرتوں میں اضافہ ہوا؟ آخر یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ گورنمنٹ ان مناظروں اور اختلافی موضوعات کو گفتگو کا موضوع بنا کر میڈیا اور سوشل میڈیا کا حصہ بنانے والوں کے خلاف نوٹس کیوں نہیں لیتی؟ اس منافرت سے نجات کیلئے چند گزارشات درجہ ذیل ہیں۔
اسماعیلی مکتب فکر کی طرح دیگر مکاتب فکر بھی بھی اپنے علاقوں ، شہروں یا اپنے حلقوں میں ایسی کونسل تشکیل دیں جو ان علما کا انتخاب کرے جو ان کے مکتبہ فکر کی نمائندگی کر یں اور اس کے علاوہ کسی عالم ذاکر شیخ وغیرہ کو اجازت نہ ہو کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی پروگرام میں ان کی نمائندگی کرے۔
سوشل میڈیا، وی لاگ اور الیکڑانک میڈیا میں فرقہ وارانہ موضوعات کو گفتگو بنانے پر پابندی لگائی جائے۔
عوام اختلافی موضوعات کو ممبروں سے تقریروں کا موضوع بنانے والوں کو ہیرو بنانے کے بجائے اس کی حوصلہ شکنی کریں۔
کوئی بھی منافرت کا واقعہ پیش آتا ہے تو اس کو سوشل میڈیا کی زینت بنانے کے بجائے اس کے لیے قانونی راستہ اختار کریں۔
فرقہ واریت کی بنادی وجہ لا علمی اور تعصب ہے اس کے خاتمے کیلیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے حوالے سے کنفو یژن کو سلیقے کے ساتھ شیئر کریں۔دوسرے مکاتب فکر کے حوالے سے خود ساختہ کہانیاں بنانے کے بجائے ان کی تقریبات میں شرکت کریں تاکہ وہ غلط فہمیاں دور ہوں۔
ایک دوسروں کے مقدسات کا احترام کریں۔اس ضمن میں امام خامنائیؒکا اہل تسنن کے مقدسات کے حوالے سے فتوی اور یہ جملہ قابل تحسین ہے کہ شیعہ اور سنی صرف ایک دوسرے کے بھائی ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی جان ہیں اور اختلاف کو ہوا دینے والے عناصر سامراج کے اےجنٹ ہیں۔ہمیں ایسے اےجنٹوں کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے۔ اور عملی سطح پر بھی اس پر عملدارآمد ہو تو اس کے نتائج مثبت ہونگے۔منافرت پھیلانے والے عناصر ہر مکتہ فکر میں ہیں۔دور حاضر میں دنیاﺅں اس وقت خلا میں ترجےحات ، نئی کہکشاﺅں اور نئی دنیاﺅں کی دریافت میں مصروف ہیں اور مسلم امہ مناظروں اور چودہ سو سال پرانے جھگڑوں میں مصروف ہیں۔دور حاضر کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تمام مکاتب فکر کو چاہیے کہ وہ ان بحثوں سے خو د کو اور آنے والی نسلوں کو بچائےں وگرنہ۔ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔