چودہ اگست:آزادی کی صبح روشن

پاکستان 14اگست کو ہمارے آبا ﺅاجداد کی قربانیوں سے حاصل ہوا تھا۔ مگر ہماری نوجوان نسل اس دن کو بڑے جوش و خروش سے مناتی ہے۔ 14اگست کی تیاری اس طرح سے کی جاتی ہے جیسے شادی بیاہ یا عید کی تیاری کی جاتی ہے،لباس بنوائے جاتے ہیں، لباس کے ساتھ جیولری میچ کی جاتی ہے، اور چہروں پر مسکراہٹ ہوتی ہے۔ ہر فرد سبز کپڑوں میں ملبوس نظر آتا ہے۔ مگر 14اگست 1947 کو تو ہر فرد خون میں سرخ تھا۔ ان کے چہرے اپنے پیاروں کی جدا میں اداس تھے۔ ہمیں اس دن کو منانا چاہیے مگر کیسے اپنے آباﺅاجداد کے لیے دعائیں کریں۔ہماری قوم ایسی قوم بن چکی ہے جو سارا سال تو انڈین فلمز دیکتھی ہے اور انڈین گانی سنتی ہے۔ سال کے اس ایک دن یعنی 14 اگست کے دن سب نے ایسے پاکستانی نغمے لگائے ہوتے ہیں جیسے ان سے بڑھ کر پاکستان سے محبت کرنے والا کوئی ہے ہی نہیں ہے۔یہ ملک قربانیوں سے آزاد ہوا تھا مگر آج تو کو ایک فرد اپنے وطن کے لیے قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا سوائے پاک فوج کے ان جوانوں کے جو اپنی زندگیاں داﺅ پر لگا کر اپنے وطن کی حفاظت کے لیے سر گرداں رہتے ہیں۔اے آج کے نوجوان ذرا سوچ تھوڑا نہیں ذرا زیادہ سوچ ہمیں اپنے اجداد کی قربانیوں سے سبز بننے کا موقع نہیں ملتا۔ بلکہ سبق ملتا ہے کہ وطن پر نا گہانی آفت آنے پر پیش پیش ہوں۔اے آج کے نوجوان تو کہاں کھو چکا ہے بیدار ہو اوراپنے ملک پر میلی نظر ڈالنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر ۔اے مسلمان جاگ اب وقت آگیا ہے بیدار ہونے کا کشمیر کے معاملے میں اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کاکیونکہ قائداعظم نے بھی فرمایا تھا کہ:کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم کشمیریوں کے شانہ بشانہ ہوں صرف و صرف انسانت کی خاطر، اور کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ بنانے کی خاطر۔۔چودہ اگست پاکستان کی آزادی کا دن ہے۔ وہ دن جو ہمارے بزرگوں کی انتھک کوششوں اور قربانیوں سے ہمیں نصیب ہوا۔ اس دن پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اور برصغیر کے مسلمانوں نے سکون کا سانس لیا۔اس بات کو 71 سال ہو چکے ہیں اور آج بھی اسی جوش و خروش سے یوم آزادی منایا جاتا ہے۔ہر سال کی یوم آزادی کے موقع پر مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس میں ایک قوم ہونے کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ عہد کیا جاتا ہے کہ سندھی، بلوچی، پنجابی اور پٹھان کے فرق سے بالاتر ہو کر اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کیا جائے گا۔ لیکن افسوس کے یہ تمام تر باتیں اور دعوے اگلے دن ہی پس پشت ڈال دیئے جاتے ہیں لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا ہمارے بزرگوں نے اتنی قربانیاں کیوں دیں۔ وہ کون سا جذبہ تھا وہ کون سا نظریہ تھا جس کی وجہ سے پاکستان کو بنانے کا خیال علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کے ذہن میں آیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جس کو پورا کرنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں۔بولنے کو تو ہم بول دیتے ہیں یہ ملک مسلمانوں کی انفرادیت کو قائم رکھنے کےلئے بنایا گیا۔ ہمیں قائد اعظم کے چودہ نکات بھی انگلیوں پر رٹے ہوئے ہیں۔ پر کیا کسی نے سوچا اس نظریے کے پیچھے جو مقصد ہے اس پر ہم کس حد تک عمل کر رہے ہیں۔ ہر سال یوم آزادی کے بعد ہم نے اس عہد کو پورا کرنے کےلئے کتنی کوشش کی کتنی بار ہم نے ذات پات اور زبان کے فرق کو پیچھے چھوڑ کر صرف اس ملک کے لیے کام کیا۔ ایک دوسرے سے گلے ملے ایک دوسرے کے اچھے کاموں کو سراہا۔ یقننا جواب نہیں میں ہو گا۔ ہم نے کبھی ذات پات کے فرق کو چھوڑا ہی نہیں تو جواب ہاں میں کیسے دیں۔پاکستان کی تاریخ میں ان مواقع پر جب کوئی ناگہانی آفت سیلاب یا زلزلے کے موقع پر جو یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا اگر ویسی ہی یکجہتی کا مظاہرہ ہم عام دنوں میں بھی کریں تو ہم واقعی میں ایک اچھی قوم بن سکتے ہیں۔ اور اس کے لیے کسی عہد کی نہیں بلکہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس عمل کی جس کی آج پاکستان کو بہت ضرورت ہے۔ ہمیں سب سے پہلے دلوں میں موجود نفرتوں کو ختم کرنا ہو گا۔ اپنی پہچان پنجابی، بلوچی، سندھی یا پٹھان کی بجائے ایک مسلمان اور پاکستانی کے طور پر کروانے کی ضرورت ہے۔ضرورت ہے اس عمل سے ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کی دل آزاری سے بچنے کی۔ ملکی ترقی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی۔ ایک دوسرے کی رائے کو خوشدلی سے سننے کی، بجائے اس کے کہ ہم ایک دوسرے کے گریبان پکڑ لیں۔ ہمیں اپنے ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ اور یہ سب صرف عہد کرنے سے نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے سے حاصل ہو گا۔ انگریز مورخ ڈاکٹر ٹامس اپنی یاد داشتوں میں لکھتا ہے کہ؛1862 سے 1867 تک کے تین سال ہندوستان کی تاریخ کے بڑے المناک سال تھے۔ ان تین سالوں میں چودہ ہزار علمائے دین کو انگریزوں نے تختہ دار پر لٹکایا۔ ڈاکٹر ٹامس لکھتے ہیں کہ دہلی کی چاندنی چوک سے پشاور تک کو درخت ایسا نہ تھا جس پر علما کی گردنیں لٹکی ہو نظر نہ آتی تھیں۔ علما کو خنزیر کی کھالوں میں بند کر کے جلتے ہوئے تنور میں ڈالا جاتا۔ لاہور کی شاہی مسجد کے صحن میں پھانسی کا پھندا تیار کیا گیا۔ اور انگریزوں نے ایک ایک دن میں 80۔80 علما کو پھانسی پر لٹکایا؛یہی انگریز ڈاکٹر ٹامس لکھتا ہے کہ میں دہلی کے ایک خیمے میں ٹھہرا تھا کہ مجھے مردار کے جلنے کی بدبو محسوس ہوئی میں نے خیمے جا کر دیکھا کہ آگ کے انگارے دہک رہے ہیں۔ اور ان انگاروں پر چالیس مسلمان علما کو کپڑے اتار کر ہاتھ پاﺅں باندھ کر ڈالا گیا اور میرے سامنے ہی ان کے کپڑے اتار لیے گئے۔ ایک انگریز افسر نے ان کی طرف دیکھ کر کہا: اے مولویوجس طرح ان کو آگ میں جلا دیا گیا۔ تم کو بھی اس طرح آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ اگر تم میں سے کو ایک آدمی بھی کہہ دے کہ ہم 1857 کی جنگ میں شریک نہیں تھے۔ تم کو چھوڑ دیا جائے گا۔ ٹامس کہتا ہے کہ: مجھے پیدا کرنے والے کی قسم میں نے دیکھا کہ چالیس علما آگ پر پک گئے اور پھر ان چالیس علما کو بھی آگ میں جھونک دیا گیا۔ لیکن کسی ایک مسلمان عالم نے بھی انگریزوں کے سامنے گردن نہ جھکائی اور نہ ہی معافی کی درخواست کی۔ان لوگوں نے قیام پاکستان کے لیے اپنی جان کو قربان کر دیا۔ پر کس کے سامنے گردن نہیں جھکائی۔ ہمیں یہ ملک اتنی آسانی سے عطا نہیں ہوا۔ لاکھوں شہدا نے اپنے مقدس لہو اس ارض پاک کے وجود کی خاطر نذر کیا۔ بے شمار خواتین اسلام نے اپنی عصمتوں کے آبگینے پاکستان کی عظمت پر نثار کر دئیے۔ پاکستان14 اگست 1947کو جناب بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح،ڈاکٹر علامہ محمد اقبال،جناب لیاقت علی خان،سر سید احمد خان، دیگر حریت راہنماﺅں،محب وطن،اور محب اسلام لوگوں کی انتھک کوششوں اور محنتوں کے بعد معرضِ وجود میں آیا۔27 رمضان المبارک کا دن تھا۔ ہمارے آباﺅاجداد نے روزہ کی حالت میں اپنے وطن میں ہجرت کی جس کا احساس آج کی نئی نسلوں کو نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے پیاروں سے جدا ہو کر اپنے سفر کا آغاز کیا۔اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو قربان ہوتے دیکھا۔بچوں کو بھوک،پیاس سے بلک بلک کر جانوں کا نذرانہ پیش کرتے دیکھا۔دوران سفر جس کو جہاں جگہ ملی ریل گاڑی میں سوار ہو گیا۔ جن کو ریل گاڑی میں بیٹھنے کی جگہ نہ ملی انہوں نے کھڑے ہو کر سفر کیا۔ جن کو کھڑے ہونے کی جگہ نا ملی انہوں نے ریل گاڑی سے لٹک کر سفر کیا۔کچھ افراد ریل گاڑی کے اوپر سوار ہو گئے۔راستے میں اپنے پیاروں کی لاشوں کو دیکھتے ان لاشوں میں کس کا سر نہیں تھا تو کسی کے بازو نہیں تھے۔کسی کی ٹانگ نہیں تھی۔ کسی کا بدن تو موجود تھا مگر سر نہیں تھا۔ایک طرف خوشی تھی تو دوسری طرف غم۔خوشی اس بات کی کہ نئے وطن میں جا بسیں گے نا کوئی تنگی ہوگی نا کوئی تکلیف ہوگی خوشی سے آزاد وطن میں رہیں گے جس کی بنیاد لاالہ الااللہ پر رکھی گئی اور غم بھی تھا کہ اپنے پیاروں کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اپنا وہ وطن چھوڑ رہے ہیں جہاں زندگیاں گزاری تھیں۔ قیام پاکستان کے تیسرے روز عید الفطر تھی آہ آہ ذرا سوچئے وہ عید کیسی عید ہوگی۔ اپنے پیاروں کے بغیر اپنے پردیس کے بغیر دو خوشیاں ایک ساتھ مل گئیں ایک آزاد وطن دوسری خوشی عید الفطر۔ مگر اپنے شہدا کے بغیر،اپنے وطن کے بغیر عید انہوں نے کیسے کی ہوگی۔افسوس آج کے نوجوان تو کیا آج کے مسلمان بھی اپنے بڑوں کی قربانیوں کو بھولے بیٹھے ہیں۔آج کے ان بھولے ہوئے نوجوان اور مسلمانوں کو کیا خبر کہ کیسے قائم ہوا یہ تاجدارِ وطن ہمارا وطن پاکستان جس کی بنیاد اسلام ہے، کلمہ طیبہ ہے،دو قومی نظریہ ہے۔دو قومی نظریے کی بنیاد جناب سر سید احمد خان نے رکھی تھی۔ آپ نے فرمایا:مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں ان کے رسم و رواج الگ ہیں،ان کے رہن سہن کے طور طریقے الگ ہیں۔لہذاصدیوں اکٹھے رہنے کے باوجود یہ آپس میں گھل مل نہیں سکتے۔آج ہمارے ملک میں شادی بیاہ کی رسوم کو ہندوانہ طریقے سے منایاجاتا ہے۔حالانکہ ہمارے وطن کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے۔ ہمارا رہن سہن،لباس،اور طور طریقہ ان سا ہو گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے بڑوں کی قربانیاں رائیگاں چلی گئی ہیں اس لےے ہمےں اپنا آباءکی قربانےاں کی لاج رکھتے ہوئے وطن عزےز کو حقےقی فلاحی رےاست بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔