وزیراعظم شہباز شریف نے ثمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کی کونسل کے موقع پر روس کے صدر ولادی میر پیوتن سے ملاقات کی۔روس کے صدر ولادی میر پیوتن نے کہا کہ ہم پاکستان کو ترجیحی شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں۔دونوں رہنماﺅں نے انتہائی خوشگوار ماحول میں دوطرفہ تعلقات، علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا۔وزیراعظم نے روس کی جانب سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے اظہار یکجہتی اور حمایت پر صدر پیوتن کا شکریہ ادا کیا۔ وزیر اعظم نے روس کے صدر کو ماحولیاتی تغیر سے پیدا ہونے والی آفت کے تباہ کن اثرات کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔وزیراعظم نے مضبوط باہمی اعتماد اور افہام و تفہیم پر مبنی پاک روس دوطرفہ تعلقات کے فروغ پر اطمینان کا اظہار کیا۔وزیراعظم نے فوڈ سیکیورٹی، تجارت و سرمایہ کاری، توانائی، دفاع اور سیکیورٹی سمیت دیگر شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو مزید وسعت کے لئے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔اس موقع پر دونوں رہنماﺅں نے بین الحکومتی کمیشن کا اگلا اجلاس جلد اسلام آباد میں بلانے پر اتفاق کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے افغانستان میں روس کے تعمیری کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ پرامن اور مستحکم افغانستان میں پاکستان اور روس دونوں کا اہم کردار ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان پر بین الاقوامی مصروفیات کی رفتار کو تیز کرنا ضروری ہے اور افغانستان میں استحکام کے لیے تمام علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ ملاقات کے دوران ولادی میر پیوتن نے کہا کہ ہم پاکستان کو جنوب مشرقی ایشیا اور مجموعی طور پر ایشیا میں ایک ترجیحی شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مثبت سمت میں ترقی کر رہے ہیں اور ہم اس پر خوش ہیں۔پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے جانی نقصان پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے ولادی میر پیوتن نے کہا کہ ہم آپ کے لوگوں کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ ہم نے وہاں ضروری انسانی امداد روانہ کر دی ہے۔ولادی میر پیوتن نے کہا کہ پاکستان اور روس کے تعلقات فروغ پارہے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے ہماری تجارت کچھ کم ہوگئی ہے لیکن امید ہے کہ باہمی تجارت کی نہ صرف بحالی بلکہ اسے بڑھانے کے طریقے بھی تلاش کرلئے جائیں گے۔روس کے صدر کا کہنا تھا کہ ریلوے ٹرانسپورٹیشن اور توانائی سمیت کئی ایسے شعبے ہیں جن پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ولادی میر پیوتن نے کہا کہ ہم کئی دیگر منصوبوں میں تعاون کرسکتے ہیں، جس میں پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن پروجیکٹ میں ایل این جی کی ترسیل کے لیے درکار انفراسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے، اس کا مقصد روس سے پاکستان تک پائپ لائن گیس پہنچانا ہے۔ یہ اس حقیقت کے پیش نظر بھی ممکن ہے کہ روس، قازقستان اور ازبکستان کے درمیان اس حوالے سے بنیادی ڈھانچہ پہلے ہی موجود ہے۔روسی صدر نے کہا کہ ہمیں افغان مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، امید ہے کہ یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا، کیونکہ ہمارے افغانستان کے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ پاکستان کو پائپ لائن کے ذریعے گیس کی فراہمی ممکن ہے اور اس کے لیے انفراسٹرکچر کا بڑا حصہ موجود ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ریا کے حوالے سے بتایا کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر سمرقند میں جمعرات کو ملاقات ہوئی۔شہباز شریف کے دفتر کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے روس کے ساتھ تمام شعبوں بشمول سکیورٹی، تجارت، سرمایہ کاری۔ توانائی اور دفاع میں تعاون بڑھانے اور مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ دونوں ممالک نے بین الحکومتی کمیشن کا آئندہ اجلاس اسلام آباد میں جلد منعقد کرنے پر بھی اتفاق کیا۔طویل عرصے سے تاخیر کا شکار گیس پائپ لائن پراجیکٹ پاکستان سٹریم کے منصوبے کی تعمیر روسی کمپنیوں کے تعاون سے کی جانی ہے۔دونوں ممالک نے 2015 میں 1100 کلومیٹر طویل پائن لائن کی تعمیر پر اتفاق کیا تھا جس کے ذریعے گیس کراچی کی بندرگاہ سے پنجاب کے ایل این جی پلانٹس تک ترسیل کی جانی ہے۔پائن لائن کی سپلائی کی گنجائش 12.4 ارب کیوبک میٹر ہے جسے 1600 ارب کیوبک میٹر تک بڑھایا جاسکتا ہے۔منصوبہ 2020 میں اس وقت تاخیر کا شکار ہوا جب روس نے اس منصوبے کے ابتدائی شریک کو تبدیل کیا جس پر مغربی ممالک نے پابندیاں لگائی تھیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ دنوں میں کہا تھا کہ اگر اچھی قیمت ملے تو حکومت پاکستان روس سے گندم خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔شہباز شریف کے پیش رو عمران خان نے رواں سال فروری میں روس کا دورہ اس دن کیا جس دن روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ ان کے روس کے دورے سے امریکہ ناراض ہوگیا تھا جس نے بعد میں ان کی حکومت ہٹانے کی سازش کی۔ امریکہ اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ روس سے بذریعہ پائپ لائن پاکستان کو گیس فراہمی کے مجوزہ منصوبے پر کام کرنے کے لیے پاکستان اور ترکیہ کے درمیان اتفاق ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کے اجلاس کے موقع پر ترک صدر رجب طیب ایردوان سے ملاقات کی، جس میں روس سے پائپ لائن کے ذریعے پاکستان کو گیس کی فراہمی کے منصوبے پر کام کرنے پر ترکیہ اور پاکستان کے درمیان اتفاق کیا گیا۔ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے وزیراعظم سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ روس، قزاقستان اور ازبکستان میں کسی حد تک گیس پائپ لائن کے لیے بنیادی ڈھانچہ پہلے سے موجود ہے۔ اس سلسلے میں دوطرفہ تجارت کے فروغ، گیس کی فراہمی سمیت لارج اسکیل منصوبوں کے امکانات اور عملدرآمد پر اتفاق رائے کیا گیا۔ترک صدر کا کہنا تھا کہ ہم جنوب مشرقی ایشیا اور مجموعی طور پر ایشیا میں پاکستان کو اپنا ترجیحی شراکت دار تصور کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان نہایت مثبت انداز میں تعلقات فروغ پا رہے ہیں جس پر ہمیں بے حد خوشی ہے۔ واضح رہے کہ دونوں رہنماں کے مابین ملاقات شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے ریاستی سربراہی کونسل کے اجلاس کے موقع پر ہوئی۔2015 میںپاکستان اور روس کے درمیان کراچی سے لاہور تک 1100 کلو میٹر طویل ایل این جی پائپ لائن کا معاہدہ طے پایا ۔ روس منصوبے پر دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ پاکستان اور روس کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے کے لیے بین الحکومتی معاہدہ طے پا گیا تھامنصوبے کا پہلا مرحلہ دسمبر 2017 میں مکمل ہونا تھا۔ گیس پائپ لائن شمال سے جنوب 100 کلومیٹر تک بچھائی جائے گی۔ پھر 2021 پاکستان اور روس کے درمیان کئی معاہدوں کے بعد گیس پائپ لائن پر کام کا معاہدہ تازہ ترین ہو گا۔نارتھ ساﺅتھ پائپ لائن کے ذریعے گیس پاکستان کے ساحلی علاقوں سے شمال میں صنعتی علاقوں تک پہنچانے کے منصوبے میں معاوضے کے تنازعات اور روسی کمپنی روسٹیک پرامریکی پابندیوں کی وجہ سے کام روک دیا گیا تھا۔گیارہ سو کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن کے منصوبے کی ابتدائی لاگت کا تخمینہ دو ارب ڈالرلگایا گیا تھا۔ پائپ لائن کے ذریعے سالانہ 12.4 ارب مکعب فٹ گیس کراچی سے لاہور پہنچانے کی گنجائش ہے۔وزارت توانائی کے ترجمان نے منصوبے کی درست لاگت بتانے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ گیس پائپ لائن کا ڈیزائن تبدیل کر دیا گیا ہے۔وہ پائپ لائن جو ابتدا میں ڈیزائن کی گئی تھی، اس کا قطر 42 انچ تھا۔ اب یہ 48 یا 56 انچ قطر والی ہو گی اور اس کے کمپریسر کے سائز اور تکنیکی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے منصوبے کی لاگت کا نیا تخمینہ دو سے تین ارب ڈالر کے درمیان ہو سکتا ہے لیکن اس مرحلے پر میں درست اخراجات کے بارے میں نہیں بتا سکتا۔ازاں بعد پاکستان کی جانب سے روس کو گوادر پورٹ کے استعمال کی اجازت نہ صرف تجارتی و معاشی طور پر اہم ترین نوعیت کا معاملہ تھا بلکہ اس سے خارجہ پالیسی میں تبدیلی اور خطے میں نئے تعلقات کے ایسے دور کا آغاز ہوگا کہ ماضی کے حریف حلیف بن سکتے ہےں ۔ بہر حال اب یہ ایک حقیقت کے طور پر سامنے آچکا ہے۔ اس معاہدے سے روس کی گرم پانیوں تک رسائی کا دیرینہ خواب پورا ہوگا تو دوسری جانب پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی اور فوجی نوعیت کے تعاون میں بھی اضافہ فطری امر ہوگا۔
