چیف کورٹ میں کورم کی تکمیل

گلگت بلتستان چیف کورٹ میں نئی تاریخ رقم ہوئی ہے کہ پہلی بار چیف کورٹ میں سات ججز کا کورم مکمل ہوگیا ہے،چیف کورٹ میں ججز کی تعداد پوری ہونے کے بعد عوام کو فوری انصاف کی فراہمی کا عمل مزید تیز ہونے کی راہ ہموار ہوگئی ہے ،گورنر جی بی مہدی شاہ کی سفارش پر چیئرمین گلگت بلتستان کونسل وزیراعظم پاکستان نے چیف کورٹ میں تین نئے ججز کی تعیناتی اور تین ججز کی مد ت میں ایک سال توسیع کی منظوری دیدی ہے ،وزیراعظم کی جانب سے منظوری ملنے کے بعد آرڈر 2018 کے آرٹیکل 84 سیکشن B کے تحت چیف کورٹ گلگت بلتستان میں ایک سال ایڈہاک مدت کیلئے مزید 3 نئے ججز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیاہے ۔نئے تعینات ہونے والے 3 ججز میں عدلیہ سے سینئر ترین سیشن جج مشتاق محمد اور بار سے جاوید احمد ایڈوکیٹ اور جہانزیب خان ایڈوکیٹ شامل ہیں جبکہ جسٹس ملک عنایت الرحمن، جسٹس جوہر علی، جسٹس راجہ شکیل احمد کی مدت میں مزید ایک سال کی توسیع دے دی گئی ہے ،جسٹس ملک عنایت الرحمن، جسٹس جوہر علی، جسٹس راجہ شکیل احمدکو گزشتہ برس ایک سال کی مدت کے لئے چیف کورٹ میں تعینات کیا گیا تھا،نئے ججز کی تعیناتی اور تین ججز کی مدت میں توسیع کے بعد گلگت بلتستان چیف کورٹ کا چیف جسٹس سمیت 7 ججز پر مشتمل کورم پہلی بار مکمل ہوگیا ہے۔جو 2018 سے اب تک پانچ سال سے نامکمل تھا۔گلگت بلتستان چیف کورٹ میں ججز کی خالی آسامیوں کو پر کرنے کے لیے گورنر گلگت بلتستان کی جانب سے بھیجی گئی سمری کی وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف جو بلحاظ عہدہ جی بی کونسل کے چیئرمین بھی ہیں نے منظوری دی۔جس کے فورا بعد نوٹفیکشن جاری کردیاگیا۔ نئے تعینات ہونے والے جج مشتاق محمد، جاوید احمد اور جہانزیب خان جلد اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے،چیف جسٹس علی بیگ ان سے حلف لیں گے جبکہ جسٹس ملک عنایت الرحمن، جسٹس جوہر علی اور جسٹس راجہ شکیل احمد کی مدت میں توسیع سے ان کا سابقہ حلف برقرار رہے گا،نیا حلف نہیں اٹھانا پڑے گا،واضح رہے کہ چیف کورٹ 1994میں قائم کی گئی تھی،اس وقت چیف کورٹ کا سربراہ چیئرمین کہلاتا تھا ۔ چیف کورٹ میں سات ججز کے کورم کی تکمےل خوش آئند ہے جس سے ےقےنا انصاف کی فراہمی میں تےزی آئے گی۔انسانی تاریخ میں عدل کو جو اہمیت دی گئی ہے اس کے قیام ونفاذ کے جو بھرپورفائدے انسانوں کوحاصل ہوئے ہیںاس سے روگردانی یااسے نظر انداز کرنے کا جس قدر نقصان اور خسارہ بنی نوع انسان نے بھگتا ہے اس کی نظیر کسی بھی دور میںآسانی سے تلاش کی جاسکتی ہے اور کوئی دوسرا رویہ فائدہ اور نقصان پہنچانے کے حوالے سے اس عدل کے برابر نہیں ہوسکا۔ وہ قومیں جنہوں نے عدل کی اہمیت کوجان لیا پہچان لیا اور مان لیا وہ اقوام عالم میں نمایاں ہوگئیں۔ پاکستان جن ہمہ جہت مصائب و مسائل کی آماجگاہ بنا ہوااور کسی سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہورہا بلکہ کسی مسئلہ کو حل کرنے کیلئے کی جانے والی ہر جدوجہد ناکام ہورہی ہے۔ اسکا اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے اور دیانتداری سے تحقیق کی جائے تو ایک بات کھل کر سامنے آجائیگی کہ عدل کے قیام میں اہل وطن سے انفرادی اور اجتماعی طور پر عوامی اور حکومتی سطح پر اس حدتک بھول ہوئی اس قدر غلطیاں ہوئی ہیں کہ اس بھول اور غلطیوں کی سزا مسلسل بھگتنے کے باوجود یہ سزاختم نہیں ہورہی کم نہیں ہورہی اور یقینا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک صدق دل سے اس غلطی کی معافی نہیں مانگی جاتی۔ اس سے توبہ نہیں کی جاتی اور عدل کو صرف عدالتوں تک ہی محدود کرنے کی سوچ سے نجات نہیں حاصل کی جاتی بلکہ عدل کوانفرادی، اجتماعی، عوامی، حکومتی بلکہ ہرسطح پر نافذ نہیں کردیا جاتا۔ اس میںشک نہیں کہ عدل کے قیام و نفاذ کی سب سے زیادہ ذمہ داری عدلیہ پرعائد ہوتی ہے اس لئے آزاد عدلیہ کی مہذب معاشروں میں آرزو بھی کی جاتی ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کی جب بھی کہیں کوشش ہوئی وہ انتظامیہ کی رسوائی و ذلت کا موجب بھی بنی اور اسکے اقتدارکے خاتمے کا ذریعہ بھی۔ آزاد عدلیہ کسی بھی ملک کے عوام کی بنیادی ضرورت تصور ہوتی ہے۔ اسی لئے انصاف کی فراہمی کویقینی بنانے کیلئے صاحبان اقتدار کواپنے عوام سے وعدے وعید بھی کرنا پڑتے ہیں۔ عدلیہ اپنی آزادی کی حفاظت خود بھی کرتی ہے اورجس معاشرے میں عدلیہ نے اپنے اس فرض منصبی سے ذرا سی بھی غفلت برتی یا اسکے کسی ذمہ دار فرد نے عدل کے قیام و نفاذ اور عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے کہیں کسی بھول چوک کا مظاہرہ کیا وہاں عدلیہ پرعوام کا اعتماد کمزور پڑ جاتا ہے جو کسی قوم کی تباہی و بربادی کیلئے ایک بہت ہی مضبوط اور طاقتور حوالہ بن جاتا ہے۔ ایسے ہی تو چرچل نے دوسری جنگ عظیم کے موقع پر جرمنی کی عسکری برتری اور انگلستان کی کمزور فوجی پوزیشن کے باوجود بڑے پراعتماد لہجے میں نہیں کہا تھا جب تک انگلستان کا عدالتی نظام ٹھیک کام کررہا ہے۔ لوگوں کو انصاف مل رہا ہے انگلستان بالکل محفوظ رہے گا۔ہماری معروضی صورتحال کوئی زیادہ حوصلہ افزا اور خوشگوار نہیں عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے اور عدل و انصاف کے قیام و نفاذ اور فراہمی و دستیابی کے حوالے سے سامنے آنیوالے تینوں فریقوں کا کردار مثالی نہیں بلکہ کردار میںایسی کجی پیدا ہوچکی ہے جسکی اگر اصلاح نہ کی گئی تو تباہی و بربادی کی جانب ہمارے سفر کرنے کی رفتارخدا نخواستہ بہت تیز ہوجائیگی چونکہ پاکستان اسلام کے اعلی و ارفع اصولوں کے عملا نفاذ کیلئے حاصل کیا گیا تھا اس لئے اس ایک شعبہ کی طرف بھرپور توجہ دینا عدلیہ، حکومت اورعوام سبھی کی ذمہ داری ہے۔ حضرت علیؑ کے اس فرمان کا اگر غور سے جائزہ لیں جس میں آپ نے فرمایا معاشرہ کفر کے ساتھ تو باقی ر ہ سکتا ہے انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، تو عدل و انصاف کی اہمیت اس طرح واضح ہو جاتی ہے کہ کسی تشریح و وضاحت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ دوسری بڑی شخصیت جس نے عدل کی اہمیت کو انتہائی مختصر مگرموثر انداز سے بیان کیا ہے وہ امام غزالی ہیں جنہوں نے فرمایاکہ اگر اللہ تعالی اس دنیا سے اپنی آخری کتاب قرآن مجید واپس لے لے اورانسانوں کیلئے صرف ایک لفظ رہنے دے اعدلوا یعنی عدل کرو تو بھی معاشرہ زندہ و سلامت رہ سکتا ہے۔ قرآن نے انصاف کی فراہمی میںعام مسلمانوں کواپنی ذات اپنے قریبی اعزہ اور تعلق والے سبھی افراد کو عدل کی راہ میںرکاوٹ بننے یابنانے سے خبردار رہنے کا حکم دیا ہے۔آج ہم عدل و انصاف سے جس حد تک محروم ہیںاسکی تجدید کیلئے ہر سطح پر کوشش کرنا ہوگی انفرادی سطح پر کوشش کاآغاز ہر شخص فورا کرسکتا ہے۔آج پاکستان میں زندگی کے جملہ شعبوں میں جو بگاڑ پیدا ہو چکا ہے اس کی اگر اکلوتی نہیں تو سب سے بڑی وجہ عدل کا تصور افراد اور قوم کے ذہن سے مفقود ہو جانا یا مٹ جانا ہے۔ اس لئے یہ بات مان لینی چاہئے کہ عدل واقعی انفرادی اور اجتماعی سطح پر نظر نہیں آتا۔ انفرادی اجتماعی اور قومی سطح پر عدل کا تصور صرف عدالتوں سے وابستہ کر کے اس کی ہمہ گیریت پر ضرب لگائی گئی اور اس کے بھرپور کردار کو محدود کردیا گیا ہے۔ عدل کی ہمہ گیریت اوراس کی بے پناہ اہمیت ہے۔اس وقت پاکستان کی عدالتوں میں زیرالتوا یا زیرسماعت مقدمات کی تعداد کئی لاکھ ہے۔سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد ہزاروں میں ہے اسلام آباد ہائی کورٹ اور اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹس میں ہزاروں مقدمات زیرالتوا ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے کچھ عرصہ قبل ایک سروے کروایا تھا، جس میں خود سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بہت سے سائلین اور درخواست گزاران ایسے ہیں، جن کو اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کے بارے میں فیصلہ سننے کا موقع نہیں ملتا۔ اس سروے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جائیداد کے حوالے سے دائر کیے گئے مقدمات دائر ہونے سے لے کر فیصلہ ہونے تک تےس سال لیتے ہیں۔ کیا یہ عمل انصاف کی فراہمی میں تاخیر نہیں؟ انصاف کی فراہمی میں تاخیر لوگوں کو انصاف سے محروم رکھنا ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک انصاف نہیں ہوگا اس وقت تک ظلم کا دور دورہ رہے گا۔ زیرالتوا مقدمات کمزور اور پسے ہوئے طبقات، بالخصوص خواتین کے ساتھ جائیداد کے معاملات میں شدید ناانصافی کا پتا دیتے ہیں۔ مقدمات کے اس التوا کا سب سے زیادہ فائدہ ایلیٹ کلاس، اشرافیہ اور مافیا کو ہورہا ہے اور غریب عوام اس کے نتیجے میں پِس کر رہ جاتے ہیں۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ زیرالتوا مقدمات کی یہ تعداد ہر روز بڑھ رہی ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ججوں کو جو مراعات حاصل ہیں ان کے حوالے سے پاکستان دنیا کے ممالک میں سے پہلے دس ممالک میں آتا ہے، مگر انصاف کی فراہمی میں ہماری عدلیہ کونسے نمبر پر ہے، جو حیرت اور افسوس کی بات ہے۔ہماری اعلی عدلیہ میں ججوں کی تنخواہیں بہت بلند ہیں لیکن انصاف سست رفتار اور کم یاب ہے۔ مراعات، سہولیات، تنخواہیں،پنشن، پروٹوکول تو خوب ہیں، لیکن لاکھ سائلین عدالتوں اور کچہریوں میں دربدر ہیں، ان کو انصاف نہیں مل رہا۔ اعلی عدالتوں تک رسائی کے لیے رقم چاہیے۔ جس کے پاس خزانے کی چابی نہ ہو، اس کے لیے حصولِ انصاف کے لیے عدالت کے ایوان تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ اس طرح انصاف خاص طبقے تک محدود ہے۔ غریب پاکستانی عوام انصاف سے محروم ہیں۔