سنگین صورتحال کے تقاضے

 اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ پاکستان کے عوام پر ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی اس غیرمعمولی سیلاب کے کس حد تک تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ عالمی برادری سے امداد کے حصول اور پاکستان کے لیے ان سے جو بھی ہو سکا وہ کریں گے کیونکہ یہ بہت المناک سانحہ ہے۔لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہو گئے ہیں، اپنے نوکریاں، مال مویشی اور فصلیں گنوا چکے ہیں جس کی وجہ سے ان لوگوں اس وقت امداد کی شدید ضرورت ہے۔انتونیو گوتریس نے عالمی برادری سے امداد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس تباہی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو بڑے پیمانے پر مالی مدد کی ضرورت ہے اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان اس سے 30ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا ہے۔ عالمی برادری کی مدد انتہائی ضروری اور اہمیت کی حامل ہے ، یہ محض اظہار یکجہتی کی حد تک نہیں بلکہ انصاف کی بات ہے ، پاکستان کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی پر کوئی خاص منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے لیکن یہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں سے ایک ہے اور یہ ضروری ہے کہ عالمی برادری بالخصوص ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بننے والے ممالک اس بات کو تسلیم کریں اور اب وہ تعمیر نو، متاثرہ افراد کی بحالی میں مدد کر کے تعاون کر سکتے ہیں۔ ہمیں قدرت کی تباہی کا سامنا ہے ، قدرت پلٹ کر تباہ کن انداز میں وار کررہی ہے ، آج پاکستان کو ان حالات کا سامنا ہے اور کل کسی اور ملک کو اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لہذا اب ہمیں اخراج روکنے کے لیے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں فوری کم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں موسمیاتی تبدیلی ہونے والی تباہی کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے والے ممالک کی مدد کے لیے بھی متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔یہ وقت ہے کہ تمام لوگ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف سب مل کر کام کریں اور سب لوگ مل کر اس مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کریں۔اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ انتونیو گوتریس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد اور مصیبت کی اس گھڑی میں پاکستان کی کی مدد اور تعاون کے لیے ہرممکن ذرائع بروئے کار لائیں گے۔جبکہ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ ہلاکت خیز سیلاب سے تباہ حال پاکستان میں انسانی صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے ۔ تقریبا 6لاکھ34 ہزار بے گھر افراد کیمپوں میں رہ رہے ہیں لیکن یہ تعداد زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کچھ علاقوں تک رسائی بہت مشکل ہے،حالیہ مہینوں میں ریکارڈ گرمی کی لہروں سے لے کر تباہ کن سیلابوں تک، پاکستان موسمیاتی بحران کے فرنٹ لائن پر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی مون سون کی غیر معمولی بد ترین بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے پاکستان میں سوا 3 کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ ایک ہزار 460 سے زیادہ مراکز صحت کو نقصان پہنچا ہے جن میں سے 432 مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، سب سے زیادہ مراکز صحت سندھ میں تباہ ہوئے۔ڈبلیو ایچ او اور اس کے شراکت داروں کی جانب سے 4ہزار500 سے زیادہ میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں جب کہ ڈائریا، ملیریا، ڈینگی، ہیپاٹائٹس اور چکن گونیا کے دو لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ریپڈ ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہلاکت خیز سیلابوں اور بارشوں نے عالمی بے انصافی کے احساس کو مزید بڑھا دیا ہے۔پاکستان جیسے ملک کا عالمی درجہ حرارت بڑھانے والی آلودہ گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار ملکوں میں پاکستان سرِ فہرست ہے۔ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ قدرتی آفات ہماری زندگیوں کو متاثر کرتے رہیں گے۔ ان آفات کو سنجیدگی سے لینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ان کی شدت میں آئندہ برسوں میں بھی کمی واقع ہونے کے امکانات محض خوش فہمی ہو سکتی ہے۔ قدرتی آفات کے تدارک کے لئے دو قسم کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ ایسے آفات وقوع پذیر ہی نہ ہوں مگر ایسا ناممکن ہوتا ہے۔ دوسری حکمت عملی یہ کہ ان آفات کا مقابلہ کیا جائے جس کے لئے لوگوں کو تیار کیا جاتا ہے۔ چونکہ ہم نے ان آفات کے ساتھ ہی رہنا ہے اس لئے ایک دیرپا حکمت عملی کے تحت ہر سطح پر قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونے کو قومی نصب العین بنانا ہو گا۔پاکستان میں سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آیا ہے۔ اس مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دینا اور قرضے معطل کرنا انٹرنیشنل بینکنگ چینلز کا فرض ہے۔ ریلیف کا ابھی پہلا مرحلہ مکمل ہو رہا ہے ۔ ابھی بہت سے کام باقی ہیں ۔ اب دوسرا مرحلہ شروع ہونا ہے ۔ یہ پہلے مرحلے سے زیادہ اہم ہے ۔ متاثرین کی آباد کاری ، سکولوں کی بحالی ، روزگار کے انتظام ، طبی سہولیات کی فراہمی سمیت بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ معاملات اب فوٹو سیشن سے آگے بڑھ کر عملی کردار کو مزید موثر انداز میں بڑھانے کے متقاضی ہیں ۔ بالخصوص ان متاثرہ علاقوں میں ، جہاں ابھی تک زیادہ ریلیف اقدامات نہیں ہو سکے ۔گو کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے واضح کیا ہے کہ سیلاب نقصانات کا ازالہ اکیلے ہمارے بس میں نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کو اس وقت اندرون و بیرون ملک سے جس قدر امداد آ چکی ہے ، اس کا شفاف استعمال یقینی بنایا جائے اور ساری امداد استعمال کی جائے تو نہ صرف متاثرین کی آباد کاری بہترین طریقے سے ہو سکتی ہے بلکہ انہیں روزگار کے مواقع بھی اسی امداد کے ذریعے فراہم کر کے خود کفیل کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس ضمن میں ہمارا ریکارڈ اچھا نہیں ہے ۔ ہم نے ماضی میں بھی مختلف آفات کے بعد ملنے والی امداد کے ساتھ جو سلوک کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ موجودہ سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں دنیا نے ماضی کے ریکارڈ کے باوجود جس طرح ہماری مدد کی ہے ، اگر اب بھی ہم نے دنیا کے اعتماد کا پاس نہ رکھا تو مستقبل میں کوئی ہماری مدد کو آگے نہیں بڑھے گا ۔ اور کسی بھی آفت یا چیلنج سے ہمیں اپنے محدود وسائل کے ذریعے ہی نبٹنا پڑے گا، جو کہ ہم تیسرے درجے سے تعلق رکھنے والے ایک ترقی پذیر ملک کے لئے یقینا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے ۔برطانیہ کے موسمیاتی ادارے کی تحقیق کے مطابق کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان اور شمال مغربی انڈیا میں موسموں کی شدت کے نئے ریکارڈ قائم ہونے کے امکانات 100 گنا زیادہ ہو چکے ہیں۔اب اس خطے کو ہر تین برسوں بعد 2010 کے شدید ترین گرم موسم سے زیادہ گرم موسموں کی توقع کرنی چاہیے۔برطانوی میٹ آفس کے مطابق پاکستان اور شمال مغربی انڈیا کو ہر تین سال بعد ایسے شدید گرم موسم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے بغیر 312 سال میں صرف ایک بار ہوتا ہے۔پاکستان اور انڈیا کے موسموں کا نیا تجزیہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی سائنس کے ادارے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کی اسٹیٹ آف دی کلائمٹ رپورٹ کے طور پر سامنے آیا ہے۔اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 2021 میں موسمیاتی تبدیلی کے چار اہم نشانیوں، گرین ہاس گیسوں کا ارتکاز، سطح سمندر میں اضافہ، سمندر کی گرمی اور سمندری تیزابیت، نے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، انتونیو گوتیرس نے اس رپورٹ کو ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں انسانیت کی ناکامی کی ایک مایوس کن داستان قرار دیا ہے۔حالیہ ہفتوں میں شمال مغربی انڈیا اور پاکستان میں مون سون سے پہلے کی شدید گرمی کی لہر میں درجہ حرارت 51 سینٹی گریڈ تک پہنچنے کے بعد تھوڑا کم ہوا ہے۔برطانوی میٹ آفس کے گلوبل گائیڈنس یونٹ نے خبردار کیا ہے کہ رواں ہفتے کے اختتام میں گرمی کی شدت میں ایک بار پھر اضافہ ہو سکتا ہے۔میٹ آفس کی سٹڈی کرنے والی ٹیم کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر نیکوس کرسٹیڈیس کا کہنا ہے کہ شمال مغربی انڈیا اور پاکستان میں مون سون کے موسم سے پہلے اپریل اور مئی کے دوران گرم موسم آتے رہتے ہیں۔تاہم، مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی گرمی کی شدت کو بڑھا رہی ہے اور درجہ حرارت کے موجودہ ریکارڈ ٹوٹنے کا امکان 100 گنا زیادہ ہے۔.اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے دورہ پاکستان کا مقصد سیلاب کی تباہ کاریوں سے شدید متاثر ملک کی مدد کے لیے عالمی دنیا سے امداد کی اپیل کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے نمٹنے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرنا تھا۔