کراچی (آئی این پی )وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان میں معاشی استحکام دنیا کے سامنے ہے، عوام بجلی کی قیمتوں سے متعلق اچھی سنیں گے،درآمدات میں اضافہ بڑا مسئلہ ہے، ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل کیا جائے توانشا اللہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، زرمبادلہ ذخائر کو 14 ارب ڈالر تک بڑھانے کی کوششیں جاری ہیں ،افراط زر میں واضح کمی آئی ہے ، شرح سود 12 فیصد تک نیچے آ چکی ہے،کرنٹ اکاونٹ خسارے میں کمی بڑی کامیابی ہے،8سے 9فیصد پرٹیکس معاملات نہیں چل سکتے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے کراچی میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) میں بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان میں معاشی استحکام کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں، اور مالیاتی اشاریے بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ ان کا حالیہ امریکی دورہ انتہائی کامیاب رہا، جہاں 70 سے زائد ملاقاتیں کی گئیں جن میں دیگر ممالک کے وزرائے خزانہ، کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں اور تھنک ٹینکس شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا کرنٹ اکاﺅنٹ پورے سال سرپلس رہے گا اور افراط زر میں نمایاں کمی آئی ہے جبکہ شرح سود 12 فیصد تک آ چکی ہے۔ محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہ زرمبادلہ ذخائر کو 14 ارب ڈالر تک بڑھانے کی کوششیں جاری ہیں اور جی ڈی پی میں قرضوں کا تناسب 75 فیصد سے کم ہو کر 65 فیصد ہو گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے پہلی مرتبہ دودھ، آٹو سیکٹر سے گاڑیاں، اور فرنیچر سعودی عرب برآمد کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایس آر اوز میں ترامیم اور اسٹرکچرل اصلاحات پر غور جاری ہے تاکہ کاروباری طبقے کو بہتر سہولیات مل سکیں۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ 24 ریاستی ادارے نجکاری کمیشن کو دئیے جا چکے ہیں، جن میں روزویلٹ ہوٹل اور ایئرپورٹس کی آﺅٹ سورسنگ شامل ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کا عمل شروع ہو چکا ہے اور 43 وزارتوں میں سے کئی کو ضم کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل ہمیشہ معیشت کا اہم ستون رہا ہے اور حکومت آئندہ بجٹ میں ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن اسکیم پر خصوصی توجہ دے گی۔ انہوں نے کہا ہماری کوشش ہے کہ حکومت کو جس جس کاروباری معاملات سے نکال سکتے ہیں، نکال دیں، ملک اب نجی شعبے کو چلانا ہے۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ 24 کروڑ لوگوں کو ملک چلانے کے لیے ہمیں ٹیکس ریونیو چاہیے، ہماری کوشش ہے ٹیکس اتھارٹی میں اصلاحات لائی جائیں، بزنس کمیونٹی کہتی ہے کہ ہم مزید ٹیکس دینے کو تیار ہیں لیکن ہم ٹیکس اتھارٹی سے ڈیل نہیں کرنا چاہتے، تاہم یہ قابل عمل نہیں، کیوں کہ ہم 3 سے 4 ملین لوگوں کا ملک نہیں ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم ڈیٹا اور جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے ٹیکسیشن میں انسانی مداخلت کو کم سے کم سطح پر لانے کے لیے کام کر رہے ہیں، تاکہ ہراسمنٹ کا عنصر ختم ہوجائے، اور جو لوگ آجاتے ہیں کہ اتنے نہیں، اتنے کرلیں، یہ مسئلہ ختم ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس سے استثنی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، مینوفیکچرنگ سیکٹر سمیت ہر وہ شعبہ جات جو برآمدات کرتا ہے، اور آمدنی کماتا ہے، اسے ٹیکس نیٹ میں آنا ہوگا، تنخواہ دار طبقے کی زندگی کو سادہ اور آسان بنانے کی کوشش جاری ہے، 70 سے 80 فیصد تنخواہ دار طبقے کی سیلری اکاﺅنٹ میں گرتے ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں سیلری کلاس کو ٹیکس ایڈوائزرز کی ضرورت نہ رہے، ان کا فارم 9 سے 10 خانوں پر مشتمل ہو، اس میں بھی آٹوفل کے آپشن والے خانے شامل ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے میں ہم درست سمت میں قدم اٹھارہے ہیں، ٹیکسیشن سے متعلق بزنس کمیونٹی کی سفارشات کے لیے ہم نے جنوری میں ہی درخواست کر دی تھی، تاکہ اسے بجٹ میں شامل کرلیا جائے، کئی تجارتی تنظیموں کی سفارشات ہمارے پاس آچکی ہیں، ہم نے آزادانہ تجزیہ کاروں کو بھی ساتھ ملایا ہے، تاکہ دیگر ممالک کی طرح وہ بھی ہماری آزادانہ طور پر مدد کرسکیں۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف پروگرام میں ہیں، ہم اس بجٹ میں کیا کرسکتے ہیں، کیا نہیں کرسکتے، یہ سب بھی دیکھنا ہے، بطور عوام خادم ہم نے سب شراکت داروں کے پاس جانا ہے، کہ آپ اپنی سفارشات بھی دیں، ایسا نہیں ہے کہ ان سفارشات کو ردی میں دال دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ کابینہ نے منظوری دے دی تھی کہ ٹیکس پالیسی آفس کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) سے الگ رکھا جائے گا، وہ فنانس ڈویژن کو رپورٹ کرے گا، جب کوئی نیا کاروبار شروع کرتا ہے تو 5 سے 15 سال کے معاملات سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرتا ہے، لیکن ہم بجٹ ایک سال کے لیے اخراجات اور آمدنی کو دیکھتے ہوئے بناتے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہاکہ اسی لیے آئندہ تسلسل کے ساتھ بزنس کمیونٹی کے لیے ٹیکس پالیسی آفس سارے معاملات دیکھے گا، ایف بی آر کلیکشن پر فوکس کرے گا، ایف بی آر کا پالیسی کے ساتھ آخری سال بجٹ میں ہے، اس کے بعد کردار ختم ہوجائے گا۔تقریب سے ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر زبیر طفیل نے بھی خطاب کرتے ہوئے منرلز کی بغیر ویلیو ایڈیشن برآمدات پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی زیر صدارت کانفرنس میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے منرل سیکٹر میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ زبیر طفیل نے کہا کہ مشینری پر زیرو ڈیوٹی اور آئی ٹی ایکسپورٹرز کو سہولیات دی جائیں، جبکہ زرعی، فروٹ، ویجیٹیبل، چاول اور گندم کی برآمدات میں بھی اضافہ ضروری ہے۔اس موقع پر قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب مگوں نے کہا کہ پوری قوم وزیر خزانہ کی شکر گزار ہے اور ایس آئی ایف سی اور حکومت کی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ مالی سال 25 کے ابتدائی 9 ماہ میں 7.7 فیصد نمو کے ساتھ 24.6 ارب ڈالر کی برآمدات ہو چکی ہیں
پاکستان میں معاشی استحکام دنیا کے سامنے ہے، عوام بجلی کی قیمتوں سے متعلق اچھی سنیں گے،محمد اورنگزیب
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل
