صوبائی وزیر داخلہ شمس لون ،وزیر اعلی کے معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ، معاون خصوصی برائے منرلز سید سرور شاہ، معاون خصوصی برائے ایریگیشن و واٹر مینجمنٹ حسین شاہ اور معاون خصوصی برائے یوتھ افئیرز و کامرس ذبیح اللہ نے دیامر،بلتستان اور گلگت کے علماکرام کے ہمراہ وزیر اعلی سیکریٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان حکومت صوبے میں امن و امان کے تسلسل کے لئے اپنی پوری ذمہ داری نبھا رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں پائیدار امن ہی خطے کی تعمیر و ترقی کا ضامن ہے، گلگت بلتستان میں امن و امان کی فضا برقرار رکھنے اور بین المسالک رواداری کے فروغ میں خطے کے علمائے کرام کا اہم کردار ہے۔ دیامر، گلگت اور بلتستان سے علمائے کرام کے پائیدار امن و امان کے قیام کیلئے ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہونے سے بھارت کے مذموم مقاصد خاک میں مل گئے ہیں اور شرپسند عناصر کے خطے کو فسادات کی آگ میں جھونکنے کی سازش ناکام ہو گئی ہے۔ گلگت بلتستان میں امن و استحکام یہاں بسنے والے تمام مکاتب فکر اور عوام کی ضرورت بھی ہے اور اجتماعی ذمہ داری بھی ہے اور خطے میں امن کے قیام سے ہی معاشی اور سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا، جس سے عام آدمی کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔علماکا تعاون اسی طرح حاصل رہا تو علاقے کی خوشحالی اور ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ہمارا اتحاد ہی ہمارے دشمن کی موت ہے،اس موقع پر مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے حکومت گلگت بلتستان اور وزیراعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان صاحب کی دانش مندانہ قیادت میں حالیہ مذہبی کشیدگی کو تمام علماشیعہ واہل سنت کی مشترکہ کاوشوں سے مل بیٹھ کر اور عملی اقدامات اٹھا کر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان تمام تر اقدامات میں حکومت کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تعاون اور علماقیادت کا ساتھ میسر رہا جس سے ان اقدامات کو احسن انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ حکومتی رٹ کو بحال کیا گیا ہے اور دشمن ریاست کے غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیا گیا ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی میں ریاستی قانون کے نفاذ اور مذہبی جذبات کو کنٹرول کرنے میں علمائے کرام نے بھر پور طریقے سے اپنا کردار ادا کیا۔امن کے قےام میں علماءکے کردار سے انکار نہےں کےا جا سکتا‘پرامن اور متوازن معاشرے کے قیام کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ علما جمعہ کے خطبے، امامت اور مسجد کے بارے میں اس سنت کو زندہ کریں کہ ان کا انتظام مسلمان حکومت کی ذمہ داری ہو۔ اس طرح مساجد کے معاملے میں اس اسلامی طریقے سے متوازن سوچ خود بخود پروان چڑھے گی۔ مسجدیں کبھی فرقہ واریت کے لیے استعمال نہیں ہوں گی اور نہ ہی کوئی گروہ عام آدمی کو دین کے نام پر تشدد اوربدامنی کی طرف ابھار سکے گا ۔علما کو اس تبدیلی کے برپا کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے، کیونکہ ان کی زبان سے دین کا یہ اہم تقاضا مطالبہ کی صورت میں سامنے آئے گا تو اس کے پورے ہونے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔ایک آئیڈیل اسلامی معاشرے میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔علاقا،ئی ملکی اور گھر کے معاملات میں جب تک ہماری پالیسیاں دوغلی ہوں گی تو ہم ایک متوازن اور مثالی معاشرہ قائم نہیں کر سکتے۔ اگر علماءاپنے مسائل کو اپنے مسلک کی نگاہ سے دیکھےں گے تو کبھی مسائل حل نہیں کر سکےں گے۔جب تک تاویل و تردید کے پیمانے حقائق کی بنیاد پر نہیں ہوں گے اورمسلک کی بنیاد سے بالاتر نہیں ہوں گے تو اس وقت تک اپنی ذمہ داریوں سے انصاف نہیں کےا جا سکتا ‘وہ جب تک اپنے آپ کو فریق کی نظر سے دیکھیں گے تو اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے۔ جس دن انہوں نے عملی طور پر ایک دوسرے کے رفیق بننے کا فیصلہ کرلیا تو اس وقت پرامن اور متوازن معاشرہ قائم ہو جائے گا۔ علما کے منبرومحراب کی ذمہ داری سب سے بڑی ہے جب علما انبیا کے وارث ہیں تو انبیا تو انسان کو اللہ سے اور انسان کو انسان سے ملانے کے لیے آتے ہیں اور وہ ایسا انسانی رشتوں کی بنیاد پر کرتے ہیں تو علما کی ذمہ داری بھی انسان کو اللہ سے اور انسان کو انسان سے ملانے کی ہے،توڑنے کی نہیں بلکہ جوڑنے کی ہے۔ موجودہ صورت حال میں علمائے کرام کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے میدان میں آنا چاہیے۔ یہ چیز اسلام کے آئین کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔ یہ حقائق کی دنیا ہے، خواہشات کی دنیا نہیں اگر مذاکراتی عمل کے نتیجے میں کسی مسئلے کا حل نکل آئے جس کی ایک صورت موجود ہے اور علمائے کرام کو اللہ تعالی نے موقع دیا ہے کہ وہ آگے آئیں اوراپنا کردار ادا کریں۔امن کی کیفیت میں جو کام ہوتا ہے، وہ سکون و اطمینان کے ساتھ ہوتا ہے۔مختلف علاقوں میں اسلام جنگ و جدل کے ذریعے نہیں پہنچا بلکہ وہاں تاجر اور علما پرامن ماحول میں گئے اور اسلام کی تعلیمات کو پیش کیااور یہ تمام لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے ۔ہم جانتے ہےں کہ امن کے ماحول میں جتناکام ہو سکتا ہے، وہ کسی اور حالت میں نہیں ہوسکتا ۔علما کا بنیادی کام امن کا پےغام ہے، اس لیے ان کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امن کے ماحول کو سازگار بنائیں اور بدامنی کا خاتمہ کریں اور امن کو فروغ دےنے میں اپنا کردار ادا کرےں۔پرامن معاشرے کے قیام کی راہ میں حائل وہ رکاوٹیں جو مذہبی نوعیت کی ہیں، ان کو دور کرنے کے لیے علمائے کرام پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔ مسلک کی تقسیم کی وجہ سے معاشرے میں بدامنی کی جو فضا پیدا ہوتی ہے، اس کے سدباب کے لیے ضروری ہے کہ علمائے کرام دوسرے مسالک کے وجود کو برداشت کرنے کے لیے وسعت ظرفی کا مظاہرہ کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر مسلک نے اپنے افکار و نظریات پر ہی قائم رہنا ہے، لیکن دوسرے مسلک کے ساتھ لاکھ اختلافات کے باوجود یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ان کا وجود ایک حقیقت ہے۔ اس حوالے سے بدامنی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب تقریر و تحریر میں بے اعتدالی قائم ہو جائے ۔ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور دوسرے مکاتبِ فکر کے اکابرین کو برا بھلا کہنے سے بھی بدامنی جنم لیتی ہے۔ اس کے خاتمے لیے ضروری ہے کہ کوئی بھی مسلک اپنے سچا ہونے کی دلیل اس کو نہ سمجھے کہ دوسروں کا اس کے نقط نظر سے متفق ہونا ضروری ہے ۔پہلی چیز تو یہ ہے کہ تحریرو تقریر میں اعتد ال اور احتیاط سے کام لیا جائے تاکہ پرامن معاشرے کا قیام ممکن ہوسکے ۔مسلک کی تقسیم کی وجہ سے بدامنی کی صورت قائم ہونے کا دوسرا سبب طریق تدریس و تقریر ہے۔ ہر مسلک کا مدرس و خطیب اپنی تقریر و تحریر میں طلبہ کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کرتا ہے کہ و ہی سچا ہے،باقی سب جھوٹے ہیں۔ اس طرزِ عمل سے معاشرے میں نفرت جنم لیتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ اور سامعین کے ساتھ ساتھ علما کرام اپنے ذہنی افق کو وسعت دیں۔ قرآن و سنت کے دلائل کو اپنے مسلک کے مطابق کرنے کی بجائے اپنے مسلک کو قرآن و سنت کے تابع اور طلبا و سامعین کواختلاف رائے برداشت کرنے کا خوگر بنایا جائے۔ خطبا اپنے سامعین کو بتائیں کہ اختلاف رائے ہر جگہ ممکن ہے لیکن جارحیت پر اتر آنا مستحسن نہیں۔ اسی طرح علمائے کرام مسلک کی تعلیم دینے کی بجائے دین اسلام کی تعلیم کو عام کریں۔امن کے قیام کے لیے سب ہستیوں کا احترام ضروری ہے۔ علما کا بھی یہ معیاری کردار بنتا ہے کہ معاشرے میں امن و امان کی بات کی جائے تو یہ مطلوب بھی ہے اور ان سے اس کی بجا طور پر توقع بھی کی جانی چاہیے کہ وہ معاشرے کے مسائل کے حل کے لیے بھرپور اور فعال کردار ادا کریں۔ ہمارے معاشرے میں طبقہ علما معروضی حالات میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرتا اور وہ کیا وجوہ ہیں کہ علما کا طبقہ ایسے چند افراد سے، جن کی وجہ سے فرقہ واریت پھیل رہی ہے، ان سے برات کا اظہار کیوں نہیں کر رہا؟ یہ درست ہے کہ سارے لوگ ایسے نہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو چند لوگ یہ کام کرتے ہیں، ان سے خود کو الگ کرنے کی ذمہ داری علما پر عائد ہوتی ہے جو وہ پوری نہیں کر رہے اور ایک سطح ایسی بھی آتی ہے کہ اس طبقے کی نمائندگی کا شرف ہی اس محدود طبقے کو حاصل ہو جاتا ہے، جبکہ دوسرے سنجیدہ، باکردار اور مہذب لوگوں کو نمائندہ ہی نہیں سمجھاجاتا۔ علمائے کرام کا کردار محض رہنما کا ہی نہیں، بلکہ دینی زندگی کی عملی مثال کے طور پر بھی ان کا کردار ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ اسلامی معاشرے کا ضمیر بھی ہیں ،چنانچہ یہ علما کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں جو غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں، ان کا نہ صرف جو اب دیں، بلکہ اس پربھی غور کریں کہ صورت حال کو اس نہج تک پہنچانے میں مذہبی طبقہ بلاواسطہ یا بالواسطہ کس حد تک ذمہ دار ہے۔ اگر ذمہ دار ہے تو اس کا حل کیاہے؟ ہماری سیاسی، سماجی، معاشی فکر میں کچھ ابہامات موجود ہیں جنہیں دور نہ کیا گیا تو صورت حال خاصی حد تک اسی طرح رہے گی۔ یہ ابہامات تحریک پاکستان سے شروع ہوئے اور اب تک موجود ہیں۔ دوسرا ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس وقت کچھ ایسی چیزیں ہیں جن پر توجہ نہ دی گئی تو بالواسطہ طور پر اس سے معاشرہ غلط رخ اختیارکرسکتاہے۔
امن کے قیام میں علماءکا مثبت کردار
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل







