غزہ،تل ابیب،دی ہیگ،نیویارک (آئی این پی )ا سرائیلی فوج کے جنوبی اور شمالی غزہ پر حملوں میں مزید 22 فلسطینی شہید ہوگئے، صہیونی فورسز نے خان یونس میں نصیر ہسپتال پر دوبارہ وحشیانہ بمباری کی ہے جبکہ اسرائیل نے عالمی سطح پر شدید تنقید کے بعد غزہ میں محدود پیمانے پر امداد کی فراہمی کیلئے ناکہ بندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ۔ عرب میڈیا رپورٹ کے مطابق طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ کم از کم 22 فلسطینی پیر کی علی الصبح غزہ پر اسرائیلی حملوں میں شہید ہوئے، ان میں ان 6 افراد خان یونس ، جب کہ 5 افراد شمالی غزہ میں اسرائیلی بمباری میں شہید ہوئے، جب کہ جنوبی غزہ میں بھی شہادتیں ہوئی ہیں۔یہ حملے اسرائیلی فوج کے غزہ پٹی میں بڑے پیمانے پر زمینی آپریشن کا حصہ ہیں، اتوار کو شدید ترین اور وحشیانہ بمباری میں کم از کم 151 فلسطینی شہید ہوئے تھے۔ ادھر غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیل نے 2 مارچ کو غزہ کی ناکہ بندی کرتے ہوئے کھانے پینے سمیت ہر قسم کے سامان کا داخلہ روک دیا تھا جس کے بعد وہاں غذائی بحران شدید ہوگیا ہے۔اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی کرنے کے فیصلے پر عالمی سطح پر کافی تنقید کی گئی۔تاہم اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ غزہ میں قحط کی صورتحال سے بچنے کے لیے بنیادی خوراک کی فراہمی کی اجازت دے گا۔اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں واضح نہیں کہ امداد کس طریقہ کار کے ذریعے غزہ لے جائی جاسکے گی اور امداد کی فراہمی کب سے شروع ہو گی۔ اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جا ئے گاکہ امداد عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں نہ جائے، اسرائیل حماس کو امداد کی تقسیم کا کنٹرول حاصل کرنے سے روکنے لیے کارروائی کرے گا۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 53 ہزار 339 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جب کہ ایک لاکھ 21 ہزار 34 فلسطینی زخمی ہوئے۔ دوسری جانب حماس کے عہدیدار نے اس بات کی تردید کی ہے کہ گروپ نے 2 ماہ کے لیے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔حماس رہنما سمیع ابو زہری نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حماس نے 9 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے 2 ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے، ایک انٹرویو میں، سینئر حماس عہدیدار نے کہا کہ گروپ قیدیوں کی بڑی تعداد میں رہائی کے لیے تیار ہے، اگر اسرائیل جنگ ختم کرنے کی بین الاقوامی ضمانتیں فراہم کرے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے معاہدے تک پہنچنے کے لیے ماحول پیدا کرنے کے لیے امریکی فوجی ایڈن الیگزینڈر کو حوالے کرنے کا اقدام کیا، لیکن امریکی انتظامیہ نے ہمارے اس اقدام کی قدر نہیں کی۔انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج کے ساتھ بڑے فوجی عدم توازن کے باوجود حماس اپنے مستقبل کی فکر نہیں کرتا، اور اس کے آپریشنز جاری ہیں۔اٹلی کے ارکان پارلیمنٹ نے مصر کے رفح بارڈر کے سامنے غزہ میں فلسطینیوں پر صہیونی جارحیت کیخلاف احتجاج کیا، اور تباہ شدہ فلسطینی علاقے میں امداد کی رسائی اور تنازع کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔یورپی پارلیمنٹ کی رکن سیسیلیا اسٹرادہ نے کہا کہ یورپ کچھ نہیں کر رہا، قتل عام روکنے کے لیے بالکل کچھ نہیں کیا جا رہا۔احتجاجی گروپ میں اطالوی پارلیمنٹ کے 11 ارکان، 3 یورپی پارلیمنٹ کے اراکین اور این جی اوز کے نمائندے شامل تھے، جنہوں نے اب نسل کشی بند کرو، غیر قانونی قبضہ ختم کرو اور اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنا بند کرو، جیسے نعروں والے پوسٹرز اٹھا رکھے تھے۔یورپی پارلیمنٹ کی رکن سیسیلیا اسٹرادہ نے کہا کہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر مکمل پابندی ہونی چاہیے اور غیر قانونی ریاست کے ساتھ تجارت بند کرنی چاہیے۔احتجاج کرنے والوں نے غزہ کے بچوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر زمین پر کھلونے رکھے، اسرائیل کی مکمل ناکہ بندی کو 2 ماہ سے زیادہ عرصہ گرزنے کے بعد اقوام متحدہ خبردار کرتا ہے کہ غزہ کے بچے بھوک، بیماری اور موت کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ادھر اقوام متحدہ کے مطابق، اکتوبر 2023 میں اسرائیل-حماس کی جنگ کے آغاز کے بعد سے غزہ میں کم از کم 15 ہزار بچے شہید ہو چکے ہیں، اقوام متحدہ کے ادارے خوراک، صاف پانی، ایندھن اور دوائیوں کی شدید قلت کی وارننگ دے رہے ہیں، جس کے پیش نظر اسرائیل پر اپنی ناکہ بندی کو ختم کرنے کا دباﺅ بڑھ رہا ہے۔اٹلی کی غیر منافع بخش تنظیم ایسوسیازیون ریکریٹیوا کلچرل اطالویہ کے سربراہ والٹر ماسا نے کہا کہ ہم اب بھی بموں کی آوازیں سن رہے ہیں، جب کہ ہم سرحد پر کھڑے ہیں، اسرائیلی فوج وہی کر رہی ہے جو اسے درست لگتا ہے، جب کہ بین الاقوامی برادری مداخلت نہیں کر رہی، اور رفح کراسنگ کی سرحد کے پار غزہ میں لوگ مر رہے ہیں۔اس دوران دی ہیگ میں ایک لاکھ کے قریب مظاہرین نے مارچ کیا، اور ڈچ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف سخت مقف اپنائے۔آرگنائزر آکسیفم نووب نے کہا کہ تقریبا ایک لاکھ مظاہرین نے مارچ میں حصہ لیا ہے، جن کی اکثریت نے سرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے، تاکہ غزہ پر اسرائیل کی محاصرے کے خلاف اپنی ریڈ لائن کا اظہار کریں، جہاں طبی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند ہے۔احتجاجی مارچ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے ) کے مقام سے بھی گزرا، جو جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل پر نسل کشی کا مقدمہ سن رہی ہے، اور پچھلے سال اسرائیل کو غزہ کے جنوبی شہر رفح پر فوجی حملہ روکنے کا حکم دیا تھا۔آکسیفم نووب نے کہا کہ ڈچ حکومت نے اسرائیل کے غزہ میں کیے گئے جنگی جرائم کو نظر انداز کیا ہے، اور مظاہرین پر زور دیا کہ وہ سخت مقف کا مطالبہ کریں۔ڈچ وزیر خارجہ کسپر ویلڈکامپ نے اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یورپی یونین اسرائیل کے ساتھ تعاون کے معاہدوں پر نظر ثانی کرے، لیکن ڈچ حکومت نے اب تک زیادہ سخت تنقید سے گریز کیا ہے۔حکومت کی سب سے بڑی جماعت کے رہنما (جو مسلمان مخالف ہیں) گیرٹ ویلڈرز نے بار بار اسرائیل کی کھلی حمایت کا اظہار کیا ہے۔گیرٹ ویلڈرز نے اتوار کو مظاہرین کو کنفیوژ قرار دیتے ہوئے ایک پوسٹ میں الزام لگایا کہ وہ حماس کی حمایت کر رہے ہیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے غزہ میں زندگی بچانے والی امداد کی فوری رسائی کی اپیل کی ہے۔مارک کارنی کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کینیڈین رہنما نے ویٹی کن سٹی میں اسرائیلی صدر آئزک ہیرزورگ سے ملاقات کے دوران غزہ میں فوری جنگ بندی کی اہمیت پر زور دیا۔کارنی نے ہنگامی، زندگی بچانے والی انسانی امداد کی رسائی کی اپیل بھی کی اور کینیڈا کی 2 ریاستی حل کی حمایت کی تصدیق کی۔انہوں نے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام یرغمالیوں کو آزاد کرے اور ہیرزورگ سے اس بات پر اتفاق کیا کہ حماس کو اپنے ہتھیار ڈالنے چاہئیں اور غزہ کے انتظام میں اس کا کوئی مستقبل کا کردار نہیں ہونا چاہیے۔کارنی نے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سینڈی ایچ میک کین سے بھی ملاقات کی، اور اس سال کے شروع میں غزہ کو خوراک اور انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے کینیڈا کی 10 کروڑ ڈالر کی حمایت کو اجاگر کیا۔ دریں اثناءاقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے(انر وا ) کے سربراہ فلپ لازارینی نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں انرواکے 300 سے زائد ملازمین شہید ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اس المناک حد کو “خونریز سنگ میل” قرار دیا ہے۔فلپ لازارینی نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ “ان میں سے زیادہ تر اہلکار اسرائیلی فوج کے حملوں میں اپنے بچوں اور خاندانوں کے ساتھ شہید ہوئے اور ان کی پوری کی پوری فیملیاں مٹا دی گئیں۔”انہوں نے مزید کہا کہ کئی ملازمین اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران مارے گئے، جن میں طبی عملہ اور اساتذہ شامل تھے جو اپنی کمیونٹیز کی خدمت کر رہے تھے۔لازارینی نے ان ہلاکتوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا: “ان ہلاکتوں کا کوئی جواز نہیں۔ اگر ان جرائم پر خاموشی اختیار کی گئی تو مزید بے گناہوں کی جانیں جائیں گی۔ جو ذمہ دار ہیں، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔
غزہ پر اسرائیلی بمباری سے مزید 22 فلسطینی شہید
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل
