چھوٹے گھروں کیلئے قرض اسکیم جلد متعارف کرانے جارہے ہیں، وزیر خزانہ

اسلام آباد(آئی این پی )وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ بجٹ میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے،چھوٹے گھروں کےلئے قرض اسکیم جلد متعارف کرانے جا رہے ہیں، حکومت کی اولین ترجیح برآمدات پر مبنی معیشت کو فروغ دینا ہے اور اس مقصد کے لیے ٹیرف اصلاحات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے،تنخواہ دار طبقے کو ہرممکن ریلیف دینا چاہتے تھے لیکن گنجائش کے حساب سے ہی آگے جاسکتے ہیں، اپنی چادر کے مطابق آگے چلیں گے،7 ہزار میں سے 4 ہزار ٹیرف لائنز میں کسٹم ڈیوٹی کو ختم کردیا، ایسی اصلاحات 30 سال میں نہیں کی گئیں ، چھوٹے کسانوں کو قرضے دیں گے،ڈھانچہ جاتی بنیادوں پر ملک کوآگے لے جانے کےلئے معیشت کے بنیادی ڈی این اے کو تبدیل کرنا ضروری ہے،ہماری کوشش ہے کہ مجموعی طور پر ٹیرف رجیم میں 4فیصد کی کمی لائی جائے ، 2 ٹریلین کے اضافی ٹیکس اقدامات میں 312ارب روپے کے نئے ٹیکس ہیں ، 2 ٹریلین کے اضافی اہداف کا زیادہ تر حصہ خودمختار نمو اور انفورسمنٹ کے اقدامات سے حاصل کیا جائے گا، 9.4ٹریلین کی غیردستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانا ضروری ہے،بجلی کے بلوں پر10فیصد سرچارج عائد نہیں کیا گیا ۔بدھ کوسیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال ، چیئرمین ایف بی آراور حکومت کی معاشی ٹیم کے دیگراراکین کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ٹیرف اصلاحات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جس کی بڑی اہمیت ہے ، اس کا پہلا مقصد پروٹیکٹڈ رجیم کوتبدیل کرنا ہے تاکہ کیش اور انسانی وسائل میں بہتری آئے اس سے برآمدی شعبے کو بھی فائدہ پہنچے گا، حکومت سمجھتی ہے کہ ڈھانچہ جاتی بنیادوں پر ملک کوآگے لے جانے کےلئے معیشت کے بنیادی ڈی این اے کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ پہلے سال کے اعداد وشمار ہیں، آئندہ سالوں میں ٹیرف میں کٹوتی کو مزید آگے لے کر جائیں گے اور ٹیرف کے پورے نظام میں مجموعی طور پر چار فیصد کمی کی جائے گی، اس طرح کی اصلاحات گزشتہ 30 سال میں نہیں کی گئیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سال ہم نے انفورسمنٹ کے ذریعے 400 ارب سے زیادہ ٹیکس اکھٹا کیا، دو ہی طریقے ہیں یا تو انفورسمنٹ کرلیں یا ٹیکس لگا دیں، اس حوالے سے قانون سازی کے لیے دونوں ایوانوں سے بات کریں گے۔ محمد اورنگزیب نے کہاکہ 2 ہزار 700 ٹیرف لائنز میں کسٹم ڈیوٹی کو کم کیا گیا ہے، جن میں سے 2 ہزار ٹیرف لائنز براہ راست خام مال سے تعلق رکھتی ہیں، اس کے نتیجے میں برآمدکنندگان کو فائدہ پہنچے گا کیونکہ اخراجات میں کمی آنے سے وہ مسابقت کے قابل ہوں گے اور زیادہ برآمدات کرسکیں گے۔محمد اورنگزیب نے مزید کہاکہ یہ پہلے سال کے اعداد وشمار ہیں، آئندہ سالوں میں ٹیرف میں کٹوتی کو مزید آگے لے کر جائیں گے اور ٹیرف کے پورے نظام میں مجموعی طور پر 4 فیصد کمی کی جائے گی، اس طرح کی اصلاحات گزشتہ 30سال میں نہیں کی گئیں۔انہوں نے کہاکہ اسٹرکچرل ریفارم کے حوالے سے بہت بڑا قدم ہے اور ہم اسے مزید آگے لے کر جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور میری خواہش تھی کہ تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دے سکتے ہیں دے دیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم مالی گنجائش کے حساب سے ہی آگے جاسکتے ہیں، یہ سفر کی سمت کا تعین کرتا ہے کہ ہم تنخواہ دار طبقے کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں، ہائر کلاس سمیت تنخواہ دار طبقے کو مختلف سلیبز میں تقسیم کیا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم مڈسائز کارپوریٹ سے شروع ہوئے ہیں اور ان کے سپر ٹیکس میں کمی شروع کی ہے چاہے وہ 0.5 فیصد ہی کیوں نہ ہو، یہ اہم اشارہ ہے۔وزیر خزانہ نے کہاکہ ہماری کوشش ہے کہ ٹرانزیکشن کاسٹ کو کم کیا جائے، بیچنے والا تو پھر نفع کماتا ہے لیکن خریدار کو ریلیف ملنا چاہیے، اس لیے خریداروں کے لیے ٹرانزیکشن کاسٹ کم کی گئی ہے، انہوں نے کہاکہ اسی طرح فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو بھی ختم کیا گیا ہے تو اس میں ٹرانزیکشن کاسٹ میں کمی کی بات کی گئی ہے۔وزیر خزانہ نے چھوٹے گھروں کے لیے قرض اسکیم جلد متعارف کرانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کو اپنا گھر بنانا ہے اور خاص طور پر 5 مرلے سے چھوٹا گھر بنانا ہے تو اس میں مورگیج فنانسنگ کی بات بہت اہم ہے، اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر طے کیا جائے گا کہ کتنا قرض فراہم کرنا ہے، پھر اس اسکیم کو جلد لانچ کرنے والے ہیں۔وزیرخزانہ نے زرعی شعبے کے حوالے سے کہاکہ اس سال ہم نے کھاد اور زرعی ادویہ پر اضافی ٹیکس عائد کرنا تھا، یہ اسٹرکچرل بینچ مارک تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹیکس چھوٹ کے جتنے نظام ہیں انہیں ختم کیا جائے، مگر وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق ہم نے آئی ایم ایف کو زرعی ٹیکس نہ لگانے پر قائل کیا۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ بجٹ تقریر میں زرعی شعبے میں قرضوں میں اضافے کی بات کی گئی، خاص طور پر چھوٹے کسانوں کو قرضوں کی فراہمی بہت اہمیت کی حامل ہے۔وزیر خزانہ نے کہاکہ پچھلے سال ہمیں اضافی ٹیکسز لگانے پڑے کیوں کہ جب ہم عالمی اداروں سے بات کررہے تھے تو وہ ہماری بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ اس ملک میں ٹیکسز کا نفاذ ہوسکتا ہے، قوانین بھی موجود ہیں، قانون سازی بھی ہورہی ہے، ٹیکسز بھی موجود ہیں لیکن ہم انہیں نافذ نہیں کر پارہے تھے، اس سال ہم نے جو ٹیکسز کا نفاذ کیا ہے کہ وہ 400 ارب سے تجاوز کرگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سال ٹیکسز کے مقابلے میں جی ڈی پی کی شرح 10.3فیصد ہے جو کہ اگلے انشااللہ سال 10.9 فیصد ہوگی، 22 کھرب کی جو بات کی گئی ہے اس میں سے اضافی ٹیکسز صرف 312 ارب روپے ہیں، اس بارے میں سوچیں کہ 22 کھرب میں صرف 312 ارب کے اضافی ٹیکسز ہیں اور باقی خود کار نمو اور نفاذ کا پہلو ہے۔وزیر خزانہ نے کہاکہ اس حوالے سے اب ہم قانون سازی کی طرف جائیں گے اور دونوں ایوانوں سے بات کریں گے اور ٹیکسز کے نفاذ کے لیے قانون میں ترمیم کریں گے کیونکہ اگر ٹیکسز کا نفاذ نہیں کرسکے تو ہمیں 400 سے 500 ارب روپے کے اضافی اقدامات کرنا پڑیں گے۔انہوں نے کہاکہ پارلیمان سے ہماری یہی گزارش ہوگی کہ وہ ٹیکسز کے نفاذ کے لیے درکار قانون سازی اور ترامیم مہیا کریں تاکہ ہمیں اضافی اقدامات نہ کرنا پڑیں اور نظام میں لیکیج کو روکا جاسکے۔ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہاکہ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کو مہنگائی بڑھنے کی شرح سے منسلک کیا گیا ہے، انہوں نے کہاکہ یہ کہنا غلط ہے کہ زراعت کا وفاقی حکومت سے تعلق نہیں ہے، زراعت معاشی ترقی کا انجن ہے اور رہے گی، ہم اسٹوریج اور جھوٹے کسانوں کو قرضوں کی فراہمی بڑھانے کے لیے صوبوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔محمد اورنگزیب نے تنخواہ اور پنشن میں ناکافی اضافے سے متعلق ایک سوال پر کہا کہ دنیا بھر میں چاہے نجی شعبہ ہو یا سرکاری، تنخواہوں اور پنشن کو مہنگائی کی شرح سے منسلک کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم پر دباﺅ آتا ہے اور یہ بات درست ہے کہ جب ٹیکسز میں اضافہ کیا جارہا ہے تو حکومتی اخراجات کیوں کم نہیں ہورہے اور یہ جائز دبا ہے، اس مرتبہ حکومتی اخراجات میں 1.9 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، اس کا کریڈٹ سیکریٹری خزانہ کو جاتا ہے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ ٹیکس دینے والا تنخواہ دار طبقہ جو یہ اعتراض کرتا تھا کہ وفاقی حکومت کے اخراجات کیوں قابو میں نہیں لائے جارہے، انہیں ہمارا جواب ہے کہ حکومتی اخراجات میں اضافہ 2 فیصد سے کم رہا ہے، باقی باتیں اپنی جگہ ہیں مگر مالی گنجائش ہو تو ہم کچھ کرسکتے ہیں، جتنی چادر ہے اس کے مطابق ہی پاں پھیلانے ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ ابھی بھی وفاقی حکومت جو کچھ دے رہی ہے وہ قرضے لے کر دے رہی ہے، کیونکہ ہم نے خسارے سے ابتدا کی تھی ۔بجلی بلوں پر اضافی سرچارج کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔محمد اورنگزیب نے این ایف سی ایوارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی صوبوں کی مشاورت کے بغیر نہیں ہو گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اپنی چادر کے مطابق آگے چلیں گے اور تنخواہوں میں اضافے کو مہنگائی کی شرح کے ساتھ جوڑا جائے گا۔وزرا اور پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں میں اضافے کے سوال پر محمد اورنگزیب نے کہا کہ یہ ضرور دیکھ لیںہ وزرا اور پارلیمنٹیرینز کی سیلری کو کب ایڈجسٹ کیا گیا تھا، 2016 میں کابینہ کے وزرا کی تنخواہ بڑھائی گئی تھی، اگر ہر سال تنخواہ بڑھتی رہتی تو ایک دم بڑھنے والی بات نہ ہوتی۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم مڈ سائز کارپوریٹ سے شروع ہوئے ہیں اور ان کے سپر ٹیکس میں کمی شروع کی ہے چاہے وہ 0.5 فیصد ہی کیوں نہ ہو، یہ اہم سگنل ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے ٹرانزیکشن کاسٹ کو کم کیا جائے، بیچنے والا تو پھر نفع کماتا ہے لیکن خریدار کو ریلیف ملنا چاہیے، اس لیے خریداروں کے لیے ٹرانزیکشن کاسٹ کم کی گئی ہے، اسی طرح فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو بھی ختم کیا گیا ہے تو اس میں ٹرانزیکشن کاسٹ میں کمی کی بات کی گئی ہے۔وزیرخزانہ نے کہا کہ ٹیکس دینے والا تنخواہ دار طبقہ جو یہ اعتراض کرتا تھا کہ وفاقی حکومت کے اخراجات کیوں قابو میں نہیں لائے جارہے، انہیں ہمارا جواب ہے کہ حکومتی اخراجات میں اضافہ 2 فیصد سے کم رہا ہے، باقی باتیں اپنی جگہ ہیں مگر مالی گنجائش ہو تو ہم کچھ کرسکتے ہیں، جتنی چادر ہے اس کے مطابق ہی پاں پھیلانے ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ ابھی بھی وفاقی حکومت جو کچھ دے رہی ہے وہ قرضے لے کر دے رہی ہے، کیونکہ ہم نے خسارے سے ابتدا کی تھی۔اس موقع پر سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ حکومتی اخراجات میں اس سے زیادہ کمی نہیں ہوسکتی تھی، جن شعبوں میں اخراجات بڑھے ہیں، وہاں شدید ضرورت تھی، وفاقی حکومت کے اخراجات میں صرف 2 فیصد اضافہ ہوا ہے، مالی نظم و نسق نہیں دکھایا جاسکتا۔سیکریٹری خزانہ نے بتایا کہ مالی سال 23-2022 میں گئے تو وفاقی حکومت کے اخراجات میں 15.9 فیصد اضافہ ہوا، 24-2023 میں گئے تو وفاقی حکومت کے اخراجات 23.6 فیصد بڑھے،25-2024 میں میں حکومتی اخراجات میں 12.2 فیصد اضافہ ہوا، ابھی ہمارے اخراجات 10.3 فیصد بڑھے ہیں جن میں 7.5 فیصد افراط زر اور تنخواہوں میں اضافہ شامل ہے، اس سے زیادہ مالی نظم و نسق نہیں دکھایا جاسکتا ہے۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ ہم بہت واضح ہیں کہ 94 کھرب یا اس سے زائد کی نقدی پر مبنی معیشت کو دستاویزی شکل دینی ہے، اور اس میں کئی تجاویز پر کام جاری ہے، اس حوالے سے 2 انتہائی ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں