گلگت، روڈ منصوبہ پانچ اگست تک مکمل کرنے کا حکم

گلگت(پ ر)چیف جسٹس چیف کورٹ گلگت بلتستان، جسٹس علی بیگ کو ڈائریکٹر جنرل گلگت ڈویلپمنٹ اتھارٹی (GDA) اظہاراللہ کی جانب سے گلگت شہر میں جاری اربوں روپے مالیت کے سیوریج منصوبے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ کے دوران چیف جسٹس نے حکم دیتے ہوئے کہا کہ 5 اگست 2025 تک آر سی سی پل کنوداس سے بگروٹ ہاسٹل تک کے سیوریج سسٹم کے لیے کی گئی سڑک کی کھدائی کے باعث خستہ حال سڑک کی مکمل مرمت اور نکاسی آب کے نظام کو فوری طور پر درست کیا جائے، بصورت دیگر عدالتی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت عالیہ کی حدود میں، جہاں روزانہ سیکڑوں سائلین اور وکلا مقدمات کی پیروی کے لیے آتے ہیں، سڑک کی حالت ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ بغیر اجازت کھدائی اور بعدازاں سڑک کی بحالی نہ کرنا عدالتی امور میں مداخلت کے مترادف ہے، جو ہرگز قابل قبول نہیں۔چیف جسٹس نے منصوبے کو “عوامی مفاد عامہ” کا میگا منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ منصوبے میں گلگت شہر کی تمام اندرونی کالونیوں کو فوری شامل کیا جائے تاکہ منصوبے کی تکمیل کے بعد پورے شہر کے عوام یکساں استفادہ حاصل کر سکیں۔انہوں نے جی ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذاتی طور پر منصوبے کے کام کا معیار اور پیش رفت کی براہِ راست نگرانی کریں۔ عدالت نے باور کروایا کہ منصوبے کے معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ، یا بلاجواز تاخیر ہرگز قابل قبول نہیں ہوگی۔ڈائریکٹر جنرل جی ڈی اے اظہاراللہ نے چیف جسٹس کو آگاہ کیا کہ یہ منصوبہ دراصل ایک پائلٹ پروجیکٹ ہے، جس کی مجموعی لاگت 6 ارب روپے ہے اور اس کی تکمیل دسمبر 2025 تک متوقع ہے۔ منصوبہ اگلے2040 تک گلگت شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی اور شہری ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی مراحل میں بعض انتظامی و فنی چیلنجز کا سامنا ضرور ہے، تاہم گلگت ڈویلپمنٹ اتھارٹی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کوشش کر رہا ہے کہ منصوبہ بروقت اور اعلی معیار کے مطابق مکمل کیا جائے۔یہ سیوریج منصوبہ گلگت شہر کے مستقبل کے بنیادی ڈھانچے میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت جدید سیوریج نیٹ ورک، نکاسی آب کے نئے خطوط، ماحول دوست تکنیکی نظام اور پائیدار شہری ترقی کے اصولوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ اس سے نہ صرف شہر کی صفائی اور صحتِ عامہ میں بہتری آئے گی بلکہ زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو آلودگی سے محفوظ رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایسے منصوبے صرف انجینئرنگ کے معاملات نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے ذمہ دارانہ منصوبہ بندی کی مثال ہوتے ہیں۔ اگر ادارے اپنے فرائض پوری دیانتداری، شفافیت اور قانونی دائرہ کار میں رہ کر ادا کریں تو ترقی ناگزیر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں