دہشتگردوں کے مذموم عزائم اور ہماری حکمت عملی

0

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان کے دشمنوں کا یہ خیال ہے کہ مٹھی بھر دہشت گرد پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کر سکتے ہیں جبکہ دہشت گردوں کی دس نسلیں بھی بلوچستان اور پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے پہلے اوورسیز پاکستانیز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں آج بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے جذبات دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے لیے ہمارے جذبات اس سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔آپ صرف پاکستان کے سفیر ہی نہیں بلکہ پاکستان کی وہ روشنی ہیں جو پورے اقوام عالم پر پڑتی ہے، جو لوگ برین ڈرین کا بیانیہ بناتے ہیں، وہ جان لیں کہ یہ برین ڈرین نہیں بلکہ برین گین ہے اور بیرون ملک پاکستانی اس کی عمدہ ترین مثال ہیں۔سمندر پار پاکستانیوں کو مخاطب کرکے ان کا کہنا تھا کہ آپ سب پاکستان کی کہانی اپنی اگلی نسل کو سنائیں گے اور وہ کہانی جس کی بنیاد پر ہمارے آبائواجداد نے پاکستان حاصل کیا۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان پاکستان کی تقدیر اور ہمارے ماتھے کا جھومر ہے، جب تک اس ملک کے غیور عوام افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، آپ کی فوج ہر مشکل سے باآسانی سے نبرد آزما ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالی نے پاکستان کو بے بہا وسائل سے نوازا ہے جس پر ہمیں ہر وقت شکر ادا کرنا چاہیے، ہم آج مل کر یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ جو پاکستان کی ترقی کے راستے میں حائل ہو گا ہم مل کر اس رکاوٹ کو ہٹا دیں گے۔آرمی چیف نے اوور سیز پاکستانیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ جس ملک میں بھی ہوں، یاد رکھیں کہ آپ کی میراث ایک اعلی معاشرے، نظریے اور تہذیب سے ہے، نامساعد حالات کے آگے بطور مسلمان اور پاکستانی نہیں گھبراتے، ہم کبھی بھی مشکلات اور دشواریوں کے سامنے نہ جھکے ہیں اور نہ جھکیں گے۔انہوں نے کہا کہ جب تک اس ملک کے غیور عوام افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، قوم اپنے شہدا کو نہایت عزت اور وقار کی نظر سے دیکھتی ہے، ان کی قربانی لازوال ہے جس پر کبھی ملال نہ آنے دیں گے۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ہم پاکستان کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا اور آپ ہمیشہ اپنا سر فخر سے بلند رکھیں کیونکہ آپ کا تعلق کسی عام ملک سے نہیں بلکہ آپ ایک عظیم اور طاقت ور ملک کے نمائندے ہیں۔اپنے خطاب میں آرمی چیف کا کہنا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا، اسی طرح پاکستانیوں کا دل ہمیشہ غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کا سفر جاری ہے، سوال یہ نہیں کہ پاکستان نے کب ترقی کرنی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان نے کتنی تیزی سے ترقی کرنی ہے۔کچھ عرصہ قبل پاکستان میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس ہوا، جس میں نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کی حکمتِ عملی پر فوری عمل درآمد پر زور دیا گیا تھا۔ اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کمیٹی نے ریاست کی پوری طاقت کے ساتھ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے سٹریٹجک اور متفقہ سیاسی عزم پر زور دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے لیے قومی اتفاق کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ تاہم اس اجلاس میں تحریک انصاف سمیت چند جماعتیں شریک نہیں تھیں۔ یہ اجلاس جعفر ایکسپریس پر عسکریت پسندوں کے حملے، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران متعدد حملوں اور ہلاکتوں کے بعد منعقد ہوا تھا۔اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے پروپیگنڈا پھیلانے، اپنے پیروکاروں کو بھرتی کرنے اور حملوں کو مربوط کرنے کے لیے دہشت گرد گروہوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کی روک تھام کے لیے اقدامات پر زور دیا۔ کمیٹی نے دہشت گردوں کے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے سدباب کے لیے طریقہ کار وضع کرنے پر بھی زور دیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ دشمن قوتوں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کرنے والے کسی بھی ادارے، فرد یا گروہ کو پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آرمی چیف کے بیان میں کہا گیا تھا کہ ہمیں بہتر گورننس کے ساتھ پاکستان کو ایک ہارڈ سٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے، ہم کب تک سافٹ سٹیٹ کی طرز پر بے پناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے۔ آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ ملک کی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں، کوئی تحریک نہیں، کوئی شخصیت نہیں۔ پائیدار استحکام کے لیے قومی طاقت کہ تمام عناصر کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔ یہ ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ ہے۔ علما سے درخواست ہے کہ وہ خوارج کی طرف سے اسلام کی مسخ شدہ تشریح کا پردہ چاک کریں۔ اگر یہ ملک ہے تو ہم ہیں، لہذا ملک کی سلامتی سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی چیز نہیں۔ پاکستان کے تحفظ کے لیے یک زبان ہو کر اپنی سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک بیانیہ اپنانا ہو گا۔ جو سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ان دہشتگردوں کے ذریعے کمزور کر سکتے ہیں تو وہ جان لیں کہ ہم متحد ہو کر نہ صرف ان کو بلکہ ان کے تمام سہولتکاروں کو بھی ناکام کریں گے۔ہارڈ سٹیٹ کی اصطلاح سے تو یہی پتا چلتا ہے کہ اب سافٹ آپشن کی جگہ نہیں رہی اور طاقت کے زور پر مسائل کے حل کی پالیسی اختیار کر لی گئی ہے اور یہ طویل عرصے تک اب ایک ایسی ہی پالیسی چلتی رہے گی۔ بلوچستان میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ریاست کے خلاف ہیں مگر اکثریت ریاست کے ساتھ چلنے کی حامی ہے۔ ایک کمیشن بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک ہی بار جس نے جو انکشاف کرنا ہے وہ کر لے اور بات آگے بڑھے۔ ان کی رائے میں سیاسی قیادت کو بھی اپنی نااہلی تسلیم کرنا ہوگی کیونکہ ایک بھائی بی ایل اے کا سربراہ ہوتا ہے تو دوسرا رکن اسمبلی بن کر تنقید کر رہا ہوتا ہے۔اس وقت ملک میں چھ طرح کے تو سکیورٹی کے ادارے موجود ہیں اور یہ سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ کس نے کیا کام کرنا ہے۔ تین دہائیوں سے ہم مذہبی شدت پسندی سے لڑ رہے ہیں جبکہ دو دہائیوں سے ہمارا واسطہ نسلی علیحدگی پسندوں سے ہے اور اب نیشنل ایکشن پلان بنائے ہوئے بھی ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ ابھی تک ہم اس جانب ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ ان کے مطابق اس بار کی منصوبہ بندی کے ساتھ بھی وہی ہوگا کہ جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ہماری بحث یہی ہے کہ اب ہم نے ہارڈ پالیسی کی طرف جانا ہے یا سافٹ حکمت عملی کو اختیار کرنا ہے۔ دہشتگردی کا خاتمہ فوج تو نہیں کر سکتی یہ تو پولیس کے کرنے کے کام ہیں کیونکہ ان کا عوام سے براہ راست رابطہ بھی ہوتا ہے اور انسانی وسائل بھی ان کے پاس بہتر دستیاب ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وقتا فوقتا ہونے والے فوجی آپریشن میں دہشتگردی کے نیٹ ورک کمزور پڑ جاتے ہیں مگر پھر وہ کچھ عرصے بعد کسی نہ کسی صورت سر اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ریاست کو اپنا بیانیہ بدلنے کی ضرورت ہے اور ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں ریاست خود پہلے مذہب کے کٹہرے سے باہر نکلے اور مذہبی شدت پسند گروہوں کے لیے سازگار ماحول ہی فراہم نہ کرے۔ہم بات تو ہارڈ سٹیٹ کی کرتے ہیں مگر گذشتہ پانچ برسوں میں ہمارے ملک کے اندر انڈیا آ کر قتل و غارت گری کر کے چلا جاتا ہے اور ہم کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔اس وقت ہمارے اندر عزم، ارادے اور صلاحیت کی کمی ہے۔عالمی سطح پر بھی ہماری ساکھ مجروح ہوئی ہے اور اب ہم دنیا میں تنہا ہوتے جا رہے ہیں یہاں تک کہ ہمارے چین جیسے پڑوسی بھی اب ہم پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ ہم ان کے شہریوں کو بھی سیکیورٹی فراہم نہ کر سکے۔ نیشنل ایکشن پلان میں سب کچھ تو شامل ہے مگر بات یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔نیشنل ایکشن پلان پر کسی نے عملدرآمد نہیں کیا ہے۔ اس پلان پر نہ پہلے عمل ہوا ہے اور نہ آگے ہوگا۔ جب تک پولٹیکل وِل یعنی سیاسی عزم موجود نہ ہو تو پھر اس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے۔ اگر سانحہ اے پی ایس کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سب جماعتوں کو اکٹھا کر کے نیشنل ایکشن پلان بنا سکتے ہیں تو آج جب صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے تو وزیر اعظم شہباز شریف نیشنل ایکشن پلان ٹو کیوں نہیں بنا سکتے۔ اس وقت ہم ماضی سے زیادہ خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت عسکریت پسند گروہوں کے عسکری و مسلح ونگز کا خاتمہ کیا جائے ۔نیکٹا کو مضبوط و موثر بنایا جائے ۔انتہاپسندی، فرقہ واریت اور عدم برداشت کی تشہیر کرنے والے نفرت انگیزتقاریر و مواد کے خلاف مکمل کارروائی کی جائے ۔دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظمیوں کی مالی امداد روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پردہشت گرد تنظیموں اوران کے نظریات کی تشہیر پر مکمل پابندی ہو ۔دہشت گردوں کے مواصلاتی نظام کو ختم کیا جائے ۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دہشتگردوں اور ان کے نظریات کے فروغ پر مکمل پابندی عائد کی جائے ۔بلوچستان حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرزسے سیاسی مفاہمت کا اختیار دیا جائے ۔فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کے ساتھ سختی کے ساتھ نمٹا جائے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں